Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 147
مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا
مَا يَفْعَلُ : کیا کرے گا اللّٰهُ : اللہ بِعَذَابِكُمْ : تمہارے عذاب سے اِنْ شَكَرْتُمْ : اگر تم شکر کرو گے وَاٰمَنْتُمْ : اور ایمان لاؤگے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ شَاكِرًا : قدر دان عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اگر تم لوگ اللہ کا شکر 195 ادا کرو اور خلوص نیت سے ایمان لے آؤ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں عذاب 196 دے (جبکہ) اللہ بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے
195 شکر کی تعریف اور اس کی ممانعت :۔ شکر کا معنیٰ اعتراف نعمت ہے اور اس کے تین مدارج ہیں (1) قلبی۔ یعنی انسان دل سے اللہ کے یا کسی کے حسانات کا اعتراف کرے۔ (2) قولی۔ تحدیث نعمت کے طور پر زبان سے بھی اس کا اقرار کرے اور اللہ کے احسانات کا دوسروں کے سامنے تذکرہ کرے (3) عملی۔ یعنی اس شکر کے اثرات اس کے اعضاء وجوارح سے بھی ظاہر ہوں۔ اور یہ تینوں درجات دراصل لازم و ملزوم ہیں۔ اور بالترتیب وجود میں آتے ہیں۔ انسان جب اللہ کے احسانات کا خیال کرتا ہے تو اس کا دل اللہ کی محبت اور وفاداری کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے۔ پھر اسی وفور جذبات کا ہی یہ اثر ہوتا ہے کہ خود اکیلے بھی اور دوسروں کے سامنے بھی ان احسانات کا تذکرہ کرتا ہے اور اس سے دل میں خوشی محسوس ہوتی ہے پھر اسی محبت و اخلاص کا اس کی فکر پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اللہ کے جتنے زیادہ مجھ پر احسانات ہیں اتنا ہی زیادہ مجھے اس کا مطیع و فرمانبردار اور عبادت گزار بننا چاہیے اور اس کی واضح مثال یہ واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی آخری زندگی میں رات کو اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہوجاتے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے تو آپ کے سب اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔ پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں یہ واقعہ بہت سی احادیث صحیحہ میں مذکور ہے اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ سچے مومن پر اللہ کے جتنے احسانات اور فضل و اکرام ہوتا ہے اتنا ہی اس کے جذبات محبت، خلوص اور وفاداری جوش میں آتے ہیں اور وہ ہر طرح سے ان احسانات کے شکر کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ 196 لفظ شکر کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا مطلب قدر دانی یا قدر شناسی ہوتا ہے یعنی انسان اگر تھوڑا سا عمل یا شکر ادا کرے تو اللہ انسان کے عمل سے بہت بڑھ کر اس کا صلہ عطا فرماتا ہے اور چھوٹے موٹے گناہوں کو ویسے ہی معاف فرما دیتا ہے جبکہ انسان کا یہ حال ہے کہ وہ اکثر ناشکرا ہی واقع ہوا ہے اور کوئی شخص اس کی مرضی کے خلاف کام کرے تو اس سے محاسبہ میں سختی کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنا ایک ماں اپنے بچہ پر مہربان ہوتی ہے لہذا اگر انسان شرک کر کے، یا پے در پے نافرمانیاں کر کے اپنے اللہ کو ناراض نہ کرلے تو اللہ کبھی کسی کو خواہ مخواہ سزا نہیں دیتا۔
Top