Tafseer-e-Mazhari - At-Tur : 80
وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ۪ۙ
وَاِذَا : اور جب مَرِضْتُ : میں بیمار ہوتا ہوں فَهُوَ : تو وہ يَشْفِيْنِ : مجھے شفا دیتا ہے
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے
واذا مرضت فہو یشفین۔ اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہ ہی مجھے شفا عنایت کرتا ہے۔ بیماری اور شفا دونوں کا خالق اللہ ہی ہے لیکن بلحاظ ادب مریض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی۔ حضرت خضر کے قول کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے فَاَرُدْتَ اَنْ اَعِیْبَہَا میں نے ارادہ کیا کہ اس کشتی کو عیب دار کر دوں۔ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یّّبْلُغَا اَشُدَّ ہُمَاآپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی بھرپور طاقت کو پہنچ جائیں (اوّل آیت میں ارادۂ عیب کی نسبت حضرت خضر نے اپنی طرف کی تقاضاء ادب یہی تھا اور دوسری آیت میں ارادہ کی نسبت اللہ کی طرف کی تقاضاء معرفت یہی تھا۔ مترجم) ۔ حضرت ابراہیم نے بیمارہونے کو اپنا فعل اس لحاظ سے قرار دیا کہ (گو بیماری اللہ پیدا کرتا ہے مگر) ہر مصیبت جو انسان پر آتی ہے وہ اسی کے کرتوت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو بیان کرنا چاہتے تھے (اور بیمار کرنا نعمت نہیں اس لئے بیمار کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی) لیکن آئندہ آیت میں موت دینے کی نسبت اللہ کی طرف کی ہے گو بظاہر موت بھی سخت تکلیف کا نام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موت میں کوئی ضرر نہیں ہوتا وہ تو ایک غیر محسوس چیز ہے مرنے سے پہلے جو عوارض و اسباب عارض ہوتے ہیں دکھ دینے والے تو وہ ہوتے ہیں ان کے بعد موت کا غیر محسوس درد ہوتا ہے ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ اہل کمال کیلئے موت تو دنیوی مصائب و آلام سے چھوٹنے اور لازوال راحت و نعمت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے مشہور مقولہ ہے کہ موت ایک پل ہے جو حبیب کو حبیب کے پاس پہنچا دیتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ اچانک موت مؤمن کے لئے راحت اور کافر کے لئے مؤاخذہ ہے۔ رواہ احمد والبیہقی عن عائشہ ؓ مرفوعاً ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ہر مسلم کے لئے موت (گناہوں کا) کفارہ ہے۔ رواہ ابو نعیم فی الحلیۃ والبیہقی بسند ضعیف ان انس ؓ ۔ پھر ایک عقلی بات یہ بھی کہ موت عموماً کھانا پینے کی چیزوں میں (انتہائی) کمی (یا بیشی) کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یوں بھی افلاط (سوداء صفراء بلغم ‘ خون) اور عناصر (آگ ‘ پانی ‘ مٹی ‘ ہوا) کے درمیان انتہائی تضاد اور کیفیات کا اختلاف ہے ان کے باہمی اختلاط کے بعد اعتدال مزاجی اور معتدل کیفیت کا ظہور تو جبراً اللہ کی قدرت سے ہوجاتا ہے۔
Top