Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 32
اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ١ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ١ۚ فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ يَجْتَنِبُوْنَ : جو اجتناب برتتے ہیں كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ : بڑے گناہوں سے وَالْفَوَاحِشَ : اور بےحیائی کی باتوں سے اِلَّا اللَّمَمَ ۭ : مگر چھوٹے گناہ اِنَّ رَبَّكَ : بیشک رب تیرا وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۭ : وسیع مغفرت والا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ : وہ زیادہ جانتا ہے تم کو اِذْ اَنْشَاَكُمْ : جب اس نے پیدا کیا تم کو مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے وَاِذْ اَنْتُمْ : اور جب تم اَجِنَّةٌ : ناپختہ بچے تھے۔ جنین فِيْ بُطُوْنِ : پیٹوں میں اُمَّهٰتِكُمْ ۚ : اپنی ماؤں کے فَلَا تُزَكُّوْٓا : پس نہ تم پاک ٹھہراؤ اَنْفُسَكُمْ ۭ : اپنے نفسوں کو هُوَ اَعْلَمُ : وہ زیادہ جانتا ہے بِمَنِ اتَّقٰى : اس کو جو تقوی اختیار کرے
جو بڑے بڑے گناہوں 30 اور کھلے کھلے قبیح افعال 31 سے پرہیز کرتے ہیں، اِلّا یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد ہوجائے۔ 32 بِلاشبہ تیرے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ 33 وہ تمہیں اُس وقت سےخوب جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جَنین ہی تھے۔ پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے
سورة النَّجْم 30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ 53۔ سورة النَّجْم 31 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حاشیہ 130 جلد دوم، النحل حاشیہ 89۔ سورة النَّجْم 32 اصل الفاظ ہیں اِلَّا اللَّمَمَ۔ عربی زبان میں لَمَم کا لفظ کسی چیز کی تھوڑی سی مقدار، یا اس کے خفیف سے اثر، یا اس کے محض قرب، یا اس کے ذرا سی دیر رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں اَلَمَّ بَالْمَکَانِ ، وہ شخص فلاں جگہ تھوڑی دیر ہی ٹھہرا، یا تھوڑی دیر کے لیے ہی وہاں گیا۔ اَلَمَّ بالطَّعَامِ ، اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ بِہ لَمَمٌم اس کا دماغ ذرا سا کھسکا ہوا ہے، یا اس میں کچھ جنون کی لٹک ہے۔ یہ لفظ اس معنی میں بولتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک فعل کا ارتکاب تو نہیں کیا مگر ارتکاب کے قریب تک پہنچ گیا۔ فَرّاء کا قول ہے کہ میں نے عربوں کو اس طرح کے فقرے بولتے سنا ہے ضربہ مالمم القتل، فلاں شخص نے اسے اتنا مارا کہ بس مار ڈالنے کی کسر رہ گئی۔ اور اَلَمّ یفعل، قریب تھا کہ فلاں شخص یہ فعل کر گزرتا۔ شاعر کہتا ہے اَلَمت فحیّت ثم قامت فودعت، " وہ بس ذرا کی ذرا آئی سلام کیا، اٹھی اور رخصت ہوگئی "۔ ان استعمالات کی بنا پر اہل تفسیر میں بعض نے لمم سے مراد چھوٹے گناہ لیے ہیں۔ بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آدمی عملاً کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جائے مگر اس کا ارتکاب نہ کرے۔ بعض اسے کچھ دیر کے لیے گناہ میں مبتلا ہونے اور پھر اس سے باز آجانے کے معنی میں لیتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی گناہ کا خیال، یا اس کی خواہش، یا اس کا ارادہ تو کرے مگر عملاً کوئی اقدام نہ کرے۔ اس سلسلے میں صحابہ وتابعین کے اقوال حسب ذیل ہیں زید بن اسلم اور ابن زید کہتے ہیں، اور حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معاصی ہیں جن کا ارتکاب اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں لوگ کرچکے تھے، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ ابن عباس کا دوسرا قول یہ ہے، اور یہی حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاض، مجاہد، حسن بصری اور ابوصالح کا قول بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ یا کسی فحش فعل میں کچھ دیر کے لیے، یا احیاناً مبتلا ہوجانا اور پھر اسے چھوڑ دینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور مسروق اور شعبی فرماتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی معتبر روایات میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جانا اور اس کے ابتدائی مدارج تک طے کر گزرنا مگر آخری مرحلے پر پہنچ کر رک جانا ہے۔ مثلاً کوئی شخص چوری کے لیے جائے، مگر چرانے سے باز رہے۔ یا اجنبیہ سے اختلاط کرے، مگر زنا کا اقدام نہ کرے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر، عِکرمہ، قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کے لیے دنیا میں بھی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے اور آخرت میں بھی جن پر عذاب دینے کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی ہے۔ سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے گناہ کا خیال دل میں آنا مگر عملاً اس کا ارتکاب نہ کرنا۔ یہ حضرات صحابہ وتابعین کی مختلف تفسیریں ہیں جو روایات میں منقول ہوئی ہیں۔ بعد کے مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہ آیت اور سورة نساء کی آیت 31 صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرمائے گا۔ اگرچہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے۔ لیکن جیسا کہ امام غزالی نے فرمایا ہے، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس قسم کے گناہ صغیرہ اور کس قسم کے کبیرہ ہیں، تو اس معاملہ میں جس بات پر ہمارا اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ " ہر وہ فعل گناہ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت کی کسی نصّ صریح نے حرام قرار دیا ہو، یا اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو، یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ہو، یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہو، یا اس کے مرتکبین پر نزول عذاب کی خبر دی ہو "۔ اس نوعیت کے گناہوں کے ماسوا جتنے افعال بھی شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہیں وہ سب صغائر کی تعریف میں آتے ہیں۔ اسی طرح کبیرہ کی محض خواہش یا اس کا ارادہ بھی کبیرہ نہیں بلکہ صغیرہ ہے۔ حتیٰ کہ کسی بڑے گناہ کے ابتدائی مراحل طے کر جانا بھی اس وقت تک گناہ کبیرہ نہیں ہے جب تک آدمی اس کا ارتکاب نہ کر گزرے۔ البتہ گناہ صغیرہ بھی ایسی حالت میں کبیرہ ہوجاتا ہے جبکہ وہ دین کے استحقاق اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں استکبار کے جذبہ سے کیا جائے، اور اس کا مرتکب اس شریعت کو کسی اعتناء کے لائق نہ سمجھے جس نے اسے ایک برائی قرار دیا ہے۔ سورة النَّجْم 33 یعنی صغائر کے مرتکب کا معاف کردیا جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ صغیرہ گناہ، گناہ نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ نظری اور خوردہ گیری کا معاملہ نہیں فرماتا۔ بندے اگر نیکی اختیار کریں اور کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے رہیں تو وہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اپنی رحمت بےپایاں کی وجہ سے ان کو ویسے ہی معاف کر دے گا۔
Top