Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 39
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ١ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ١ۖ٘ وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
قُوْلُوْا : کہہ دو اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَمَا : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَا : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلٰى : طرف اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل وَاِسْحَاقَ : اور اسحاق وَيَعْقُوْبَ : اور یعقوب وَالْاَسْبَاطِ : اور اولاد یعقوب وَمَا : اور جو أُوْتِيَ : دیا گیا مُوْسٰى : موسیٰ وَعِيسٰى : و عیسیٰ وَمَا : اور جو أُوْتِيَ : دیا گیا النَّبِيُّوْنَ : نبیوں کو مِنْ : سے رَبِّهِمْ : ان کے رب لَا نُفَرِّقُ : ہم فرق نہیں کرتے بَيْنَ اَحَدٍ : کسی ایک کے درمیان مِنْهُمْ : ان میں سے وَنَحْنُ لَهٗ : اور ہم اسی کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں بیشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے وہ تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے
الذین یجتنبون کبرا الاثم والفواحش الاللمم اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : الذین یجتنبون کبیر الاثم والفواحش الا اللم یہ محسنین کی صفت ہے یعنی وہ بڑے گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے جو شرک ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ اعمش، یحییٰ بن وثاب، حمزہ اور کسائی نے کبیر پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : اس سے مراد شرک ہے۔ الفواحش سے مراد زنا ہے۔ اس بارے میں گفتگو سورة نسئا میں گزر چکی ہے، پھر اس سے مستثنیٰ مقنطع کی صورت میں استثناء کی۔ مسئلہ نمبر 2۔ فرمایا : الا اللمم اس سے مراد گناہ صغیر ہیں ایسے فاعال سے کوئی بھی محفوظ نہیں مگر اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت فرمائے۔ اس کے معنی میں اختلاف کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس اور امام شعبی نے کہا : اللمم سے مراد زنا سے کم درجہ کے اعمال مراد ہیں (1) مقاتل بن سلیمان نے کہا، یہ آیت ایسے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جسے نیہان تمار کہا اجتا (2) اس کی ایک دکان تھی جس میں وہ خشک کھجوریں بیچا کرتا اس کے پاس ایک عورت آئی وہ اس سے کھجوریں لینا چاتہی اس مرد نے اس عورت سے کہا، دکان کے اندر اس سے بہتر کھجوریں ہیں جب وہ دکان میں داخل ہوئی تو اس نے عورت کو بہلانا چاہا تو اس عورت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وہ عورت واپس چلی گئی نیہان شرمندہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کی : یا رسول اللہ ! جماع کے علاوہ آدمی جو کرتا ہے میں نے وہ کچھ کیا ہے ؟ کہا، شاید اس کا خاوناد مجاہد ہغے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ واقعہ سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ حضرت ابن مسعود، حضرت ابو سعید خدرمی، حضرت حذیفہ اور مسروق نے اسی طرح کا قول کیا ہے کہ لمم سے مراد وطی سے کم درجہ کا فعل ہے جس طرح بوسہ لینا، غمزہ کرتا، دیکھنا اور لیٹنا (3) مسروق نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت نقل کی ہے، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے، پائوں کا زنا چلنا ہے، شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا اس کی تکیذب کرتی ہے۔ اگر وہ آگے بڑھے تو زنا ہے اگر پیھچے ہٹ جائے تو لمم ہے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے حضتر ابوہریرہ نے جو کہا میں نے اس سے زیادہ لمم کے کسی شی کو زیادہ مشابہ نہیں دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے انسان پر زنا کا حصہ لکھ دیا ہے وہ لامحالہ اس کو پائے گا۔ آنکھوں کا زنا دیکھنا، زبان کا زنا بولنا ہے، نفس تمنا کرتا ہے اور خواہش کرتا ہے، شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا اس کو جھٹلاتی ہے۔ “ مراد یہ ہے عظیم فاحشہ اور مکمل زنا جو دنیا میں حد اور آخرت میں عذاب کو ثابت کرتا ہے وہ شرمگاہ میں بدکاری کرنا ہے اس کے علاوہ گناہ میں ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ابوصالح کی روایت جو حضرت ابوہریرہ س مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’ دانسان پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ اسے ضرور پانے والا ہے آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا کلام ہے، ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پائوں کا زنا چلنا ہے، دل خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا اسے جھٹلاتی ہے۔ “ (4) امام مسلم نے اسے نقل کیا ہے۔ ثعلبی نے طائوس کی روایت نقل کی ہے جو انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے اس میں کان، ہاتھ اور پائوں کا ذکر ہے آنکھوں اور زبان کے بعد یہ زیادہ کیا :” ہونٹوں کا زنا بوسہ لینا ہے۔ “ یہ ایک قول ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہ بھی کہا : آدمی گناہ کا ارادہ کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے۔ کہا : کیا تو نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : ان یغفر اللہ یغفر جما وای عبد لک لا الما (5) اگر اللہ تعالیٰ بخشنے کا ارادہ کرے تو سب گناہ بخش دیتا ہے تیرا کون سا بندہ ہے جس سے لغزش نہیں ہوئی۔ عمرو بن دینار نے عطا سے اس نے حضرت ابن عباس سے اسے نقل کیا ہے۔ نحاس نے کہا، اس بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ صحیح ترین ہے اور ازروئے اسناد کے سب سے عظیم ہے۔ شعبہ نے منصور سے اس نے مجاہد سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے الا اللمم کے بارے میں یہ کہا کہ بندہ ایک دفعہ گناہ کر بیٹھتا ہے پھر دوبارہ اس طرح نہیں کرتا۔ شاعر نے کہا ، ان تغفر اللہ تغفر جما وای عبداللک لا الما (1) اے اللہ ! اگر تو بخشے تو سب گناہ بخش دے تیرا کون سا بندہ ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ مجاہد اور حسن بصری نے یہی کہا ہے کہ وہ کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے پھر دوبارہ ایسا گناہ نہیں کرتا (2) اسی کی مثل زہری سے مروی ہے، کہا : لمم یہ ہے کہ وہ بدکاری کرے پھر توبہ کرے اور دوبارہ ایسا عمل نہ کرے۔ وہ چویر کرے یا شراب پئے پھر توبہ کرے اور دوبارہ ایسا نہ کرے اس تاویل کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : والذین اذا فعلوا ا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکرو اللہ فاستغفروالذنوبھم (آل عمران : 135) پھر فرمایا : اولئک جزآء ھم مغفرۃ من ربھم (آل عمران : 136) ان کے لئے مغفرت کی ضمانت دی جس طرح اللمم کے بعد فرمایا۔ ان ربک واسع المغفرۃ اس تاویل کی صورت میں الا اللمم مستثنیٰ متصل ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نے کہا، اللمم سے مراد جو شرک کے علاوہ ہو (3) ایکق ول یہ کیا گیا ہے : اللمم سے مراد ایسا گناہ ہے جو دو وحدوں کے درمیان ہو جو دنیا میں اس پر حد کو جاری نہیں کرتا اور نہ ہی آخرت میں عذاب کو لازم کرتا ہے پانچویں نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں، یہ ابن زید، عکرمہ ضحاک اور قتادہ نے کہا ہے، یہی عفوی اور حکم بن عتیبہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ کلبی نے کہا، اللمم کی دو صورتیں ہیں۔ ہر وہ گناہ اللہ تعالیٰ نے جس پر دنیا میں حد کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی آخرت میں عذاب کا ذکر کیا۔ (4) یہی وجہ ہے پانچ نمازیں ان کو مٹا دیی ہیں جب تک وہ کبائر اور فواحش تک نہ پہنچیں۔ دوسری توجیہ یہ ہے وہ عظیم گناہ ہے جسے انسان یکے بعد دیگرے کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ اور حضتر زید بن ثابت سے یہ بھی مروی ہے : مراد دور جاہلیت میں جو گناہ ہوئے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا، تم کل ہمارے ساتھ یہ عمل کیا کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی !ٖ یہ زید بن اسلم اور ان کے بیٹے نے قول کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس زمانے کی طرح ہے : وان تجمعوابین الاختین الا ما قدسلف (النسائ : 23) ایکق ول یہ کیا گیا ہے : اللمم سے مراد ہے کہ وہ کوئی گناہ کرے جو اس کی عادت نہ ہو، یہ نفطویہ نے قول کیا ہے۔ کہا، عرب کہتے ہیں ما یاتینا الا لما مایعین وہ کبھی کبھی ہمارے پاس آتا تھا۔ کہا : اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ ارادہ تو کرے اور عمل نہ کرے کیونکہ عرب یہ نہ کہتے تھے الم بنا مگر اسی وقت کہتے جب کوئی انسان عمل کرتا نہ کہ اس صورت میں کہ وہ قصد کرے اور عمل نہ کرے۔ صحاح میں ہے، الم الرجل یہ لمم سے مشتق ہے اس سے مراد چھوٹے گناہ ہیں۔ کہا اجتا ہے : وہ معصیت کے قریب ہے مگر اس میں واقع نہیں ہوا۔ جوہری کے علاوہ نے یہ شعر پڑھا : بریسب المم قبل ان یرحل الرکب زینب کے قریب ہوجا قبل اس کے کہ قافلہ کوچ کر جائے۔ عطاء بن ابی رباح نے کہا، لمم سے مراد نفس کی عادت ہے جو وقفہ وقفہ سے ہوتی ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا، جو دل میں کھٹکے۔ محمد بن حنفیہ نے کہا : بھلائی یا برائی میں سے جس کا توقصد کرے تو وہ لمم ہوگا۔ اس تاویل کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے : ان للشیطان لمۃ وللملک لمۃ بیشک شیطان کی طر سے ایک خیال آتا ہے اور فرشتے کی جانب سے خیال آتا ہے۔ یہ روایت سورة بقرہ آیت 268 میں الشیطن یعدکم الفقر کے تحت گزر چکی ہے۔ ابو اسحاق زجاج نے کہا : لمم اور المامکا اصل معنی ہے انسان جب یکے بعد دیگرے کرتا ہے اس میں تعمق نہیں کرتا اور نہ ہی اس پر قائم رہتا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : الممت بہ۔ جب تو اس کی زیارت کرے اور اس سے پھر جائے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : مافعلتہ الا لمما والما ما یعنی میں نے اسے وقفے وقفے سے کیا۔ انما زیارتک المام تیری ملاقات وقفے وقفے سے ہوتی ہے، اسی سے خیال کا آنا ہے۔ اعشی نے کہا : الم خیال من قتیلۃ بعدما قتیلہ کی جانب سے خیال وقفے وقفے سے آیا۔ ایک قول یہ کیا ہے : الا، وائو کے معنی میں ہے فراء نے اس کا انکار کیا ہے کہا، معنی ہے چھوٹے گناہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لمم سے مراد ایسی نظر ہے جو اچانک ہو۔ میں کہتا ہوں : یہ قول حقیقت سے بعید ہے یہ تو ابتداء معاف ہے اس پر مواخذہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ قصد اور اختیار کے بغیر واقع ہوتی ہے۔ سورة نور میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ لمم کا معنی جنون کی ایک قسم ہے رجل ملموم جسے جنون ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے : اصابت فلانا لمۃ من الجن کا معنی مس کرنا اور تھوڑی چیز ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ ان ربک واسع المغفرۃ جو اپنے گناہ سے توبہ کرے اور بخشش کا طالب ہو اس کے لئے وسیع مغفرت والا ہے، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ ابو میسرہ عمرو بن شرحبیل نے کہا جو حضرت ابن مسعود کے فاضل اصحاب میں سے تھا : میں نے خواب میں دیکھا گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں کیا دیکھتا ہوں وہاں خیمے لگے ہوئے ہیں میں نے پوچھا، یہ کن کے لئے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا : یہ ذی کلدع اور حوشب کے لئے ہیں، یہ دونوں ان افراد میں سے تھے جنہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔ میں نے کہا : یہ کیسے ؟ لوگوں نے بتایا : دونوں نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تو اسے وسیع مغفرت والا پایا۔ ابو خالد نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ذی کلدع نے بارہ ہزار بچیوں کو آزاد کیا تھا۔ ھو اعلم بکم وہ تمہیں تمہاری ذاتوں سے بڑھ کر جانتا ہے اذا نشاکم من الارض مراد ہے تمہارے جد اعلیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور ضمیر جمع کی ذکر کی۔ ترمذی ابوعبداللہ نے کہا، ہمارے نزدیک یہ تعبیر نہیں بلکہ یہ پیدائش اس مٹی پر ہوئی جو زمین سے ابھری ہوئی تھی۔ ہم سب اس مٹی اور اسی کیچڑ پر ہیں پھر اس کیچڑ سے پانی پشتوں کی طرف نکلے ساتھ ہی ان میں نفوس پیدا کئے گئے جب کہ ان کی ہیتیں مختلف تھیں پھر مختلف ہیتوں کو ان کی پشتوں سے نکالا ان میں سے کچھ موتیوں کی طرح چمک رہے تھے کچھ ایک دوسرے سے زیادہ روشن تھے ان میں سے بعض کو ئلے کی طرح سیاہ تھے بعض ایک دوسرے سے زیادہ سیاہ تھے تو یہ انشاء (پیدائش) ہم پر اور اس پر واقع ہوئی۔ عیسیٰ بن حماد عسقلانی نے بشر بن بکر سے وہ اوزاعی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اس رات میرے اس حجرہ کے سامنے مجھ پر اولین و آخرین (اگلے پچھلے) پیشک آئے گئے۔ “ کسی کہنے والے نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ مخلوقات میں سے جو گزر چکے ہیں وہ بھی ؟ فرمایا :” ہاں، مجھ پر حضرت آدم اور ان کے علاوہ۔ “ کہا : ان کے علاوہ (1) بھی کسی کو پیدا کیا گیا ؟ لوگوں نے پوچھا : جو مردوں کی پشتوں اور مائوں کے رحموں میں ہیں ؟ فرمایا :” ہاں مٹی میں ان علاوہ (1) بھی کسی کو پیدا کیا گیا ؟ لوگوں نے پوچھا : جو مردوں کی پشتوں اور مائوں کے رحموں میں ہیں ؟ فرمایا :” ہاں مٹی میں ان کی مثالی شکلیں بنائی گئیں تو میں نے انہیں پہچان لیا جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) نے تمام نام جان لئے تھے۔ “ میں نے کہا : سورة الانعام کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ ہر انسان کو اس قطعہ زمین کی مٹی سے پیدا کیا جاتا ہے جس میں اسے دفن کیا جاتا ہے۔ واذا انتم اجنۃ یہ جنین کی جمع ہے اس سے مراد وہ بچہ ہے جب تک پیٹ میں ہوتا ہے۔ اسے جنین اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ مکحول نے کہا : ہم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین تھے تو ہم میں سے گرگیا جو گرگیا اور ہم باقی رہنے والوں میں سے ہیں پھر ہم دودھ پینے والے بچے ہوگئے تو ہم میں سے ہلاک ہوگیا جو ہلاک ہوگیا اور ہم باقی رہنے والوں میں سے ہوگئے پھر ہم قریب البلوغ ہوئے تو ہلاک ہوا جو ہلاک ہوا تو ہم باقی رہنے والوں میں سے ہوئے پھر ہم جوان ہوگئے تو ہلاک ہوا جو ہلاک ہوا اور ہم باقی رہنے والوں سے ہوئے پھر ہم بوڑھے ہوگئے تیرا باپ نہ رہے اس کے بعد ہم کس کا اتنظار کر رہے ہیں ؟ ابن لہیعہ نے حرث بن یزید سے وہ ثابت بن حرث انصاری سے روایت نقل کرتے ہیں : جب یہودیوں کا کوئی چھوٹا بچہ فوت ہوتا تو وہ کہتے : وہ صدیق ہے۔ یہ قول نبی کریم ﷺ تک پہچا فرمایا :” یہودیوں نے جھوٹا بولا ہے جس بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے تو وہ شقی ہوتا ہے یا سعید ہوتا ہے۔ “ (2) اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے بھی اسی کی مثل مروی ہے فلاتزکوا انفسکم ان کی مدح نہ کرو اس کی ثنا نہ کرو کیونکہ یہ طریقہ رہا سے دور اور خشوع کے زیادہ قریب ہے۔ ھو اعلم بمن اتقی۔ یہ عمل کو زیادہ خالص کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچانے والا ہے۔ یہ حضرت حسن بصری اور دوسرے علمئا سے مروی ہے۔ حضتر حسن بصری نے کہا، اللہ تعالیٰ ہر نفس کے بارے میں آگاہ تھا کہ وہ کیا عمل کرنے والا ہے اور کس طرف جانے والا ہے (3) ؟ سورة نساء میں اس آیت کے معنی کے بارے میں کلام گزر چکی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : الم تر الی الذین یزکون انفسھم (النسائ : 49) اسے وہاں پڑھ لیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اس امت کے کسی فرد کا میں تزکیہ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
Top