Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 31
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کے لیے ہے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ : اور جو کچھ زمین میں ہے لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : تاکہ بدلہ دے ان لوگوں کو اَسَآءُوْا : جنہوں نے برا کیا بِمَا عَمِلُوْا : ساتھ اس کے جو انہوں نے کام کیے وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : اور جزا دے ان لوگوں کو اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى : جنہوں نے اچھا کیا ساتھ بھلائی کے
اور زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے 28۔۔۔۔ 29 تاکہ اللہ بُرائی کرنے والوں کو اُن کے عمل کا بدلہ دے اور اُن لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویّہ اختیار کیا ہے
سورة النَّجْم 28 بالفاظ دیگر کسی آدمی کے گمراہ یا بر سر ہدایت ہونے کا فیصلہ نہ اس دنیا میں ہونا ہے نہ اس کا فیصلہ دنیا کے لوگوں کی رائے پر چھوڑا گیا ہے۔ اس کا فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہی زمین و آسمان کا مالک ہے، اور اسی کو یہ معلوم ہے کہ دنیا کے لوگ جن مختلف راہوں پر چل رہے ہیں ان میں سے ہدایت کی راہ کون سی ہے اور ضلالت کی راہ کون سی۔ لہٰذا تم اس بات کی کوئی پروا نہ کرو کہ یہ مشرکین عرب اور یہ کفار مکہ تم کو بہکا اور بھٹکا ہوا آدمی قرار دے رہے ہیں اور اپنی جاہلیت ہی کو حق اور ہدایت سمجھ رہے ہیں۔ یہ اگر اپنے اسی زعم باطل میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو انہیں مگن رہنے دو۔ ان سے بحث و تکرار میں وقت ضائع کرنے اور سر کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سورة النَّجْم 29 یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہوجاتا ہے جو اوپر سے چلا آ رہا تھا۔ گویا جملہ معترضہ کو چھوڑ کر سلسلہ عبارت یوں ہے " اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے "۔
Top