Tafseer-al-Kitaab - Hud : 78
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ١ؕ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ١ؕ اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
وَجَآءَهٗ : اور اس کے پاس آئی قَوْمُهٗ : اس کی قوم يُهْرَعُوْنَ : دوڑتی ہوئی اِلَيْهِ : اس کی طرف وَ : اور مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے السَّيِّاٰتِ : برے کام قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنَاتِيْ : میری بیٹیاں هُنَّ : یہ اَطْهَرُ : نہایت پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَا تُخْزُوْنِ : نہ رسوا کرو مجھے فِيْ ضَيْفِيْ : میرے مہمانوں میں اَلَيْسَ : کیا نہیں مِنْكُمْ : تم سے (تم میں) رَجُلٌ : ایک آدمی رَّشِيْدٌ : نیک چلن
اور (جب انہوں نے اجنبیوں کے آنے کی خبر سنی تو) قوم لوط کے لوگ دوڑے دوڑے لوط کے پاس آئے۔ اور وہ پہلے ہی سے بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ لوط (ان کو آتا دیکھ کر) بولا کہ اے میری قوم (کے لوگو، ) یہ میری بیٹیاں (موجود) ہیں۔ یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں، کچھ اللہ کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں ؟
[43] بیٹیوں سے مراد قوم کی لڑکیاں بھی ہوسکتی ہیں کہ نبی اپنی امت کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوط (علیہ السلام) کا اشارہ خود اپنی لڑکیوں کی طرف ہو۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو لڑکیوں سے زنا کرنے کے لئے کہا ہوگا کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں ایسا مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ لوط (علیہ السلام) کا منشا یہ تھا کہ اپنی شہوانی خواہش کو نکاح کے ذریعے جائز طریقے سے پورا کرو۔
Top