Tafseer-e-Haqqani - Al-Anfaal : 27
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
مسلمانو ! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کیا کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم (خوب) جانتے ہو کہ خیانت بری چیز ہے
ترکیب : وتخونوا یجوزان یکون مجزوما عطفا علی الفعل الاول اے لاتخونوا امانتکم وان یکون نصباً علی الجواب بالواو وانتم تعلمون جملہ حال ہے فاعل لاتخونوا سے وان اللّٰہ معطوف ہے انما اموالکم پر ‘ معطوف اور معطوف علیہ اعلموا کے مفعول ہیں ان تتقوا شرط یجعل لکم جواب۔ تفسیر : ان آیات میں اپنی نعمت اور مسلمانوں کی پہلی حالت جتلا کر جو اطاعت و توکل پر محرک ہے اللہ اور اس کے رسول کی اور آپس کی خیانت سے منع فرماتا ہے جو باہمی اتفاق اور محبت میں خلل انداز اور اسلام کی جماعت میں خلل پیدا کرنے والی چیز ہے اور خیانت کا باعث بیشتر اولاد اور مال کی محبت ہوتی ہے۔ سو اس کو فتنہ قرار دیتا ہے اور دار آخرت میں اجر عظیم کا وعدہ فرماتا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں سے خطاب کرکے فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے۔ کفر و شرک و کبائر سے بچو گے تو ہم تمہارے لئے تین باتیں کریں گے : اول تم میں اور کافروں میں فرق کردیں گے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں دنیا میں بھی۔ تمہارے دل منور ‘ چہرے روشن ‘ مکارم اخلاق ‘ فتح مندی غلبہ دیں گے۔ آخرت میں نجات ‘ جنت اور ان کے لئے اس کے برخلاف۔ فرقان کے معنی مجاہد نے دنیا اور آخرت کی رستگاری اور مقاتل بن حیان نے دینی شبہات سے چھٹکارا اور عکرمہ نے نجات پانا خوفناک چیزوں سے بیان کئے ہیں۔ یہ مصدر ہے جیسا کہ رجحان۔ دوم تمہاری برائیاں چھپاویں گے۔ سوم آخرت میں معاف کردیں گے اور واللّٰہ ذوالفضل العظیم میں دنیا اور آخرت کی نعماء جلیلہ کی طرف اشارہ ہے۔ لاتخونوا اللّٰہ الخ میں کسی خاص خیانت اور کسی شخص کا نام نہیں بلکہ عموماً ہر قسم کی خیانت کی ممانعت ہے۔ خواہ مال کی ہو خواہ غنیمت کے مال کی خواہ آبرو اور کسی راز کی۔ مگر مفسرین نے اس کو بعض اشخاص کی خیانت اور ان کے واقعہ کیطرف بھی لگایا ہے۔ چناچہ سدی نے کہا کہ اس میں منافقوں اور بعض دیگر شخصیتوں کی طرف اشارہ ہے جو مشرکین سے میل و محبت رکھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی باتیں جو جنگ سے متعلق ہوتی تھیں ان کے پاس پہنچا دیتے تھے۔ زہری اور کلبی کہتے ہیں کہ اس میں ابی لبابۃ رفاعۃ بن عبدالمنذر انصاری کی طرف خطاب ہے کہ انہوں نے یہود بنی قریظہ 1 ؎ کو اپنے حلق کی طرف اشارہ کرکے ان کا قتل کیا جانا بتلا دیا تھا جس کے جرم میں انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا تھا کہ جب میری توبہ قبول ہوگی تو آنحضرت ﷺ خود کھول دیں گے۔ چناچہ سات روز کے بعد توبہ قبول ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے کھولا۔ بعض نے کہا ہے کہ حاطب بن ابی بلتعۃ کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اہل مکہ کو آنحضرت ﷺ کے ارادہ سے مطلع کردینا چاہا تھا کہ آپ ان پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ واللہ اعلم 1 ؎ بنی قریظہ یہود کا ایک قبیلہ مدینہ کے پاس رہتا تھا۔ انہوں نے باوجود معاہدے کے جنگ احزاب میں جبکہ مشرکوں نے مدینہ کا آکر محاصرہ کرلیا تھا۔ حضرت ﷺ سے سخت بدعہدی کی تھی مشرکین کے جانے کے بعد آنحضرت ﷺ نے بنی قریظہ کا محاصرہ کیا۔ اکیس روز محاصرہ رہا۔ جب وہ تنگ آئے تو آپ نے ابی لبابہ کو بھیجا جو انہیں کی گڑھی میں رہتے تھے کہ باہر نکلو ہم تم سے کوئی اقرار نہیں کرتے۔ ابی لبابہ ؓ نے اشارہ سے آپ کا ارادہ انہیں بتلا دیا ٗ یہ خیانت تھی۔ 12 منہ
Top