Taiseer-ul-Quran - Hud : 78
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ١ؕ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ١ؕ اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
وَجَآءَهٗ : اور اس کے پاس آئی قَوْمُهٗ : اس کی قوم يُهْرَعُوْنَ : دوڑتی ہوئی اِلَيْهِ : اس کی طرف وَ : اور مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے السَّيِّاٰتِ : برے کام قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنَاتِيْ : میری بیٹیاں هُنَّ : یہ اَطْهَرُ : نہایت پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَا تُخْزُوْنِ : نہ رسوا کرو مجھے فِيْ ضَيْفِيْ : میرے مہمانوں میں اَلَيْسَ : کیا نہیں مِنْكُمْ : تم سے (تم میں) رَجُلٌ : ایک آدمی رَّشِيْدٌ : نیک چلن
اور اس کی قوم کے لوگ دوڑتے ہو ان کے ہاں آگئے۔ وہ پہلے سے ہی بدکاری کیا کرتے تھے۔ لوط نے انھیں کہا : اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں 88 ہیں جو تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں۔ لہذا اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھی بھلا مانس نہیں ؟
88 مشٹنڈوں کا گھس آنا اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کی پیش کش :۔ ان مہمانوں کی آمد کی اطلاع پاتے ہی کچھ مشٹنڈے گھر کی دیواریں پھاند کر وہاں پہنچ گئے اور سیدنا لوط سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے حوالہ کردو یہی وہ لمحہ تھا جو سیدنا لوط کے لیے سوہان روح بنا ہوا تھا۔ چناچہ سیدنا لوط نے مہمانوں کا دفاع کرنے کی خاطر کہا کہ یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں میں تم سے ان کا نکاح کردیتا ہوں اور یہی تمہارے لیے پاکیزہ تر راستہ ہے اور مہمانوں کا مجھ سے مطالبہ نہ کرو۔ نہ ہی ان کے سامنے مجھے رسوا کرو اور یہ بات آپ نے اس لیے کہی کہ یہ لوگ آپ سے آپ کی بیٹیوں کے رشتہ کا مطالبہ کرچکے تھے لیکن آپ نے ان کی بری حرکات دیکھ کر ان کو رشتہ سے جواب دے دیا تھا اب مہمانوں کی اور اپنی عزت بچانے کی خاطر ان کا یہ مطالبہ بھی منظور کرلیا اور انھیں یہ عار بھی دلائی کہ کیا تم شرم و حیا اور بدکرداری کی سب حدیں پھاند گئے ہو اور تم میں کوئی بھی ایسا بھلامانس آدمی موجود نہیں رہا جو دوسروں کو سمجھا سکے یا میری بات مان لے۔ بیٹیوں سے مراد :۔ بعض مفسرین یہ بھی کہتے ہیں کہ میری بیٹیوں سے مراد قوم کی سب بیٹیاں ہیں کیونکہ نبی پوری قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے اور قوم کی بیٹیاں اس کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے مگر موقعہ کی نزاکت اسی شرح کا مطالبہ کرتی ہے جو پہلے پیش کی گئی ہے اور قرآن کے ظاہری الفاظ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔
Top