Taiseer-ul-Quran - An-Nahl : 102
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں نَزَّلَهٗ : اسے اتارا رُوْحُ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرئیل مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ لِيُثَبِّتَ : تاکہ ثابت قدم کرے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے (مومن) وَهُدًى : اور ہدایت وَّبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں کے لیے
آپ ان سے کہئے کہ اس قرآن کو روح القدس 106 نے آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ بتدریج نازل کیا ہے۔ تاکہ ایمان لانے 107 والوں کے ایمان کو مضبوط بنا دے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے
106 روح القدس سے مراد ؟ پاکیزہ روح یا پاکیزگی کی روح اور اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں جو ہر طرح کی بشری کمزوریوں سے پاک ہیں۔ وہ نہ خائن ہیں نہ کذاب ہیں اور نہ مفتری۔ نہ وہ اللہ کے نازل کردہ کلام میں سے کچھ حذف کرتے ہیں اور نہ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ نہ ترمیم و تنسیخ کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کا کلام جوں کا توں نبی کے دل پہ نازل کرتے ہیں۔ 107 نزول قرآن میں تدریج کے فائدے :۔ قرآن اتارنے میں جو حالات کے تقاضوں کے تحت تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ تکرار احکام سے ایمان میں بتدریج پختگی واقع ہوتی رہتی ہے اور ان میں ثبات و استقلال پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جو کفار مکہ آئے دن مسلمانوں پر ناجائز مظالم اور سختیاں کرتے رہتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی بار بار تسلی دینے، مصائب میں ثابت قدم رہنے۔ اس دنیا میں بھی سیدھی راہ پر گامزن رکھنے پر اور مصائب کی برداشت پر اور جنت کی خوشخبری دینے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ (احکام میں تدریج اور تبدیلی کے سلسلہ میں سورة بقرہ کی آیت نمبر 106 کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے)
Top