Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠ ۧ
وَاَمَّا
: اور رہی
الْجِدَارُ
: دیوار
فَكَانَ
: سو وہ تھی
لِغُلٰمَيْنِ
: دو بچوں کی
يَتِيْمَيْنِ
: دو یتیم
فِي الْمَدِيْنَةِ
: شہر میں۔ کے
وَكَانَ
: اور تھا
تَحْتَهٗ
: اس کے نیچے
كَنْزٌ
: خزانہ
لَّهُمَا
: ان دونوں کے لیے
وَكَانَ
: اور تھا
اَبُوْهُمَا
: ان کا باپ
صَالِحًا
: نیک
فَاَرَادَ
: سو چاہا
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ يَّبْلُغَآ
: کہ وہ پہنچیں
اَشُدَّهُمَا
: اپنی جوانی
وَيَسْتَخْرِجَا
: اور وہ دونوں نکالیں
كَنْزَهُمَا
: اپنا خزانہ
رَحْمَةً
: مہربانی
مِّنْ رَّبِّكَ
: سے تمہارا رب
وَمَا فَعَلْتُهٗ
: اور یہ میں نے نہیں کیا
عَنْ
: سے
اَمْرِيْ
: اپنا حکم (مرضی)
ذٰلِكَ
: یہ
تَاْوِيْلُ
: تعبیر (حقیقت)
مَا
: جو
لَمْ تَسْطِعْ
: تم نہ کرسکے
عَّلَيْهِ
: اس پر
صَبْرًا
: صبر
اور دیوار کی بات یہ ہے کہ وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں رہتے تھے۔ اس دیوار کے نیچے ان کے لئے خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا۔ لہذا آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کو پہنچ کر اپنا
70
خزانہ نکال لیں۔ یہ جو کچھ میں نے کیا، سب آپ کے پروردگار کی رحمت تھی۔ میں نے اپنے اختیار
71
سے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ ہے ان باتوں کی حقیقت جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔
70
یعنی اگر دیوار کسی وقت گر پڑتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا بدنیت لوگ اس پر قبضہ کرلیتے یا اٹھا لے جاتے اور ان یتیموں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگتا۔ اب یہ بڑے ہو کر خود اپنے باپ کی دفن شدہ دولت نکال کر اپنے استعمال میں لاسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اللہ ہی جانتا ہے :۔ مندرجہ بالا تینوں واقعات سے دراصل مشیئت الٰہی کے کاموں میں پوشیدہ حکمتوں پر روشنی پڑتی ہے پہلا کام یہ تھا کہ کشتی والوں نے سیدنا موسیٰ و سیدنا خضر دونوں کو پردیسی سمجھ کر ان سے کرایہ نہیں لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ جس کے صلہ میں سیدنا خضر نے ایسا کام کیا جو بظاہر غلط معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں سیدنا خضر نے ان سے بہت بڑی خیر خواہی کی اور ان کے احسان کا اس طرح بدلہ چکایا کہ انھیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیا اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کسی نقصان پر بےصبر نہ ہونا چاہیے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نقصان میں بھی اللہ نے اس کے لیے کون سے اور کتنے بڑے فائدے کو پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ صدمہ کے لحاظ سے پہلے واقعہ سے شدید تر ہے لیکن اس میں جو اللہ کی مصلحت پوشیدہ تھی وہ بھی منفعت کے لحاظ سے پہلے واقعہ کی نسبت بہت زیادہ تھی اور دونوں واقعات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مصائب پر ایک مسلمان کو صبر کرنا چاہیے اور اللہ کی مشیئت پر راضی رہنا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جتنی مصیبت پر صبر کیا تھا اسی کے مطابق اللہ اس کا اجر اور نعم البدل عطا فرماتا ہے۔ تیسرے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک آدمی کی رفاقت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اس کا اچھا بدلہ اس کی اولاد کو دیا کرتا ہے۔ مرنے والا چونکہ نیک انسان تھا لہذا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس کا مدفون خزانہ یا ورثہ دوسرے لوگ نہ اڑا لے جائیں، بلکہ اس کی اولاد کے ہی حصہ میں آئے۔
71
خضر کون تھے ؟ یہ سوال مختلف فیہ رہا ہے کہ سیدنا خضر کون اور کیا تھے ؟ بعض علماء انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں بعض ولی اور بعض ولی بھی نہیں سمجھتے بلکہ ایک فرشتہ سمجھتے ہیں جن کا شمار مدبرات امر میں ہوتا ہے اب ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ ان میں کون سی بات درست ہوسکتی ہے۔ ہمارے خیال میں سیدنا خضر نبی نہیں تھے اور اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ بخاری کی طویل روایت کے مطابق سیدنا خضر، سیدنا موسیٰ سے خود فرما رہے ہیں کہ موسیٰ ! دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہذا تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا موسیٰ کو نبوت اور شریعت کا علم سکھایا گیا تھا جسے سیدنا خضر نہیں جانتے تھے لہذا وہ نبی نہ ہوئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی آیات کی رو سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ انبیاء کا علم ابتدا سے ایک ہی رہا ہے اور چونکہ سیدنا خضر کا علم اس علم سے متصادم تھا لہذا وہ نبی نہیں تھے۔ اب اگر انھیں ولی تسلیم کرلیا جائے تو یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں (بقول صوفیائ) کشف والہام سے غیب کے حالات سے مطلع کردیا ہو لیکن ولی کو یہ کب اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علم غیب سے اطلاع کی بنا پر کسی دوسرے کی مملوکہ چیز کو تباہ کر دے یا کسی انسان کو قتل بھی کر ڈالے۔ ولی بھی آخر انسان ہے جو احکام شریعت کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں یہ گنجائش کہیں نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس کی خلاف ورزی کا حکم ملا ہے یا بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔ صوفیاء کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے بھی جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔ لہذا سیدنا خضر نہ نبی تھے نہ ولی بلکہ وہ انسان کی جنس سے بھی نہ تھے ایک ظالم اور فاسق انسان ہی ایسے کام کرسکتا ہے مگر وہ تو اللہ کی ایک برگزیدہ شخصیت تھے۔ اب لامحالہ ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ان فرشتوں میں سے تھے جو تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں اور اس پر کئی دلائل ہیں پہلی دلیل تو ان کا اپنا یہ قول کہ ( مافعلتہ عن امری) کہ یہ کام میں نے اپنی مرضی یا اختیار سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے ہیں۔ گویا وہ خود اعتراف کررہے ہیں کہ وہ خود مختار نہیں اور یہ وہی بات ہے جسے اللہ نے فرشتوں کی صفات کے سلسلہ میں فرمایا کہ وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہ کچھ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے (
66
:
6
) اور وہ نافرمانی کر بھی نہیں سکتے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ایسے فرشتے جب انسانی شکل میں آکر انسانوں سے ہمکلام ہوتے ہیں تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ سیدنا جبرئیل انسانی شکل میں سیدہ مریم کے سامنے آئے تو کہا (لاِھَبِ لَکِ غُلاَمًا زِکِیًّا) (
9
:
19
) (تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ سیرت لڑکا عطا کروں) اور یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکا عطا کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کا کام نہیں اور فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ جملہ جو سیدنا جبرئیل نے کہا اسی لحاظ سے کہا کہ آپ اللہ کی طرف سے تدبیر امور کائنات میں سے ایک امر پر مامور تھے۔ بالکل اسی طرح سیدنا خضر بھی جب ان واقعات کی تاویل بتاتے ہیں تو کبھی کسی کام کو براہ راست اپنی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کو اللہ کی طرف اور کسی کو دونوں کی طرف۔ پہلے واقعہ کے متعلق فرمایا : (فَاَرْدَتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا) یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اس کشتی کو عیب دار بنادوں حالانکہ آخر میں کہا کہ میں نے اپنے ارادہ و اختیار اور مرضی سے کچھ نہیں کیا اور دوسرے واقعہ کے متعلق فرمایا : ( فَاَرْدْنَا اَنْ یُبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا) یعنی ہم نے ارادہ کیا کہ ان والدین کا پروردگار انھیں اس لڑکے کا نعم البدل عطا فرمائے۔ یہاں ارادہ کی نسبت میں سیدنا خضر اور اللہ تعالیٰ دونوں مشترک ہیں اور تیسرے واقعہ کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ : ( فَاَرَادَ رَبُّکَ ) یعنی آپ کے پروردگار نے چاہا۔ یہ بحث الگ ہے کہ پہلے واقعہ کی نسبت سیدنا خضر نے صرف اپنی طرف، دوسرے میں دونوں کی طرف اور تیسرے میں صرف اللہ کی طرف کیوں کی ؟ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ خدائی صفات کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ان فرشتوں کا کام ہوسکتا ہے جو تدابیر امور کائنات پر مامور ہیں کسی نبی یا ولی کے لیے ایسی نسبت کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ مندرجہ بالا توجیہ میں چند اشکالات بھی پیش آتے ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا خضر کے لیے (عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا) کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبد کا لفظ فرشتوں کے متعلق بھی ایسے ہی استعمال ہوتا ہے جیسے انسانوں کے متعلق، جیسے فرمایا (وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَاد الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا) (
43
:
19
) دوسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث بالا میں سیدنا خضر کے لیے رجل کا لفظ آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتے جب بھی انسانی شکل میں آئے تو ہمیشہ مردوں ہی کی شکل میں آتے ہیں۔ اور تیسرا اشکال یہ ہے کہ کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی کشتی پر سوار کرلیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشتی کے مالکوں نے پہلے سیدنا خضر کو کہیں دیکھا تھا اور وہ ان کی نظروں میں قابل احترام بھی تھے اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ سیدنا خضرکا نام خضر اس لیے پڑگیا تھا کہ وہ جہاں بیٹھتے وہاں سبزہ اگ آتا تھا۔ شاید ان کشتی والوں نے کوئی ایسا منظر دیکھ لیا ہو۔ بہرحال یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سیدنا خضر اس علاقے کے باشندے نہ تھے ورنہ صرف اس کشتی کے مالک تو درکنار سب لوگ ہی ایسی عجوبہ روزگار شخصیت کو پہچاننے کی بجائے ٹھیک طرح جانتے ہوتے۔ (واللہ اعلم بالصواب) سیدنا خضر اور متصوفین :۔ اس واقعہ سے صدیوں بعد سیدنا خضر کے متعلق عجیب عجیب قسم کے عقائد رائج ہوگئے۔ ہمارے صوفیاء نے ان کو ولی قرار دے کر سیدنا موسیٰ کا استاد اور ان سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوششیں اس وقت شروع ہوئیں جب ان میں یہ عقیدہ رائج ہوا کہ ولایت نبوت سے افضل ہے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ لوگ سیدنا خضر کو ایک زندہ جاوید ہستی تسلیم کرکے ان سے ہر وقت رہبری کے خواہاں رہتے ہیں جب تک انھیں سیدنا خضر سے ملاقات اور رہبری حاصل نہ ہو ان کی ولایت مکمل ہی نہیں ہوتی پھر سیدنا خضر کی فرضی شخصیت کے متعلق طرح طرح کے افسانے تراشے گئے جو اتنے عام ہوئے کہ ہمارے شعر و ادب میں بھی داخل ہوگئے مثلاً ایک شاعر کہتا ہے۔ تہیدستان قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔۔ کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را یہ شعر تو سیدنا خضر کے فیض سے متعلق تھا اب دوسرا شعر ان کی رہبری، رہنمائی اور ہدایت سے متعلق ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال کہتا ہے : تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی۔۔ رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے سیدناخضر کے متعلق عجیب و غریب عقائد :۔ البتہ علمائے حق نے اس قسم کی اوہام پرستی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے چناچہ دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر عنوان طریقت جلد
12
صفحہ
460
پر درج ہے۔ کہ راسخ القیدہ فقہا نے اہل تصوف کے استاد الہامی (سیدنا خضر) کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے جس کی بنا پر سلسلہ تصوف کو ایک ایسی مقدس ہستی (سیدنا خضر) کے مظاہر سے فیضان حاصل ہوتا ہے جو پراسرار اور غیر فانی ہے یعنی الخضر جن کی ہادی طریقت کی حیثیت سے سب فرقے توقیر و تعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا موسیٰ کے رہنما اور صوفی کی روح کو حقیقت علیا سے آشنا کرانے کے اہل ہیں یہ عقیدہ غالباً تصوف کی کسی مستند کتاب میں نہیں پایا جاتا پھر اسی دائرۃ المعارف میں خواجہ خضر کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ہندوستان میں انھیں (سیدنا خضر کو) کنوؤں اور چشموں کی روح کا روپ سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے آرپار انھیں دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے سیدنا خضر کی خانقاہ سندھ کے ایک جزیرے میں بھکر کے پاس ہے جہاں ہر مذہب کے عقیدت مند زیارت کو جاتے ہیں۔ (ایضاً جلد
5
ص
22
) اس طرح سیدنا خضر کے نام سے شرک کا ایک دروازہ کھل گیا اور اب تو سیدنا خضر کی نماز بھی پڑھی جانے لگی ہے جس کی برکت سے سیدنا خضر سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی ص
240
) اور بعض لوگ خواجہ خضر خواج کی نیاز دریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر و عافیت کنارے پر لگ جائے گویا ایسے مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔
Top