Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠   ۧ
وَاَمَّا : اور رہی الْجِدَارُ : دیوار فَكَانَ : سو وہ تھی لِغُلٰمَيْنِ : دو بچوں کی يَتِيْمَيْنِ : دو یتیم فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں۔ کے وَكَانَ : اور تھا تَحْتَهٗ : اس کے نیچے كَنْزٌ : خزانہ لَّهُمَا : ان دونوں کے لیے وَكَانَ : اور تھا اَبُوْهُمَا : ان کا باپ صَالِحًا : نیک فَاَرَادَ : سو چاہا رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ يَّبْلُغَآ : کہ وہ پہنچیں اَشُدَّهُمَا : اپنی جوانی وَيَسْتَخْرِجَا : اور وہ دونوں نکالیں كَنْزَهُمَا : اپنا خزانہ رَحْمَةً : مہربانی مِّنْ رَّبِّكَ : سے تمہارا رب وَمَا فَعَلْتُهٗ : اور یہ میں نے نہیں کیا عَنْ : سے اَمْرِيْ : اپنا حکم (مرضی) ذٰلِكَ : یہ تَاْوِيْلُ : تعبیر (حقیقت) مَا : جو لَمْ تَسْطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
اور وہ جو دیوار درست کردی گئی تو وہ اس گاؤں کے دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ گڑا ہوا ہے ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا پس تمہارے پروردگار نے چاہا کہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ محفوظ پا کر نکال لیں یہ ان لڑکوں کے حال پر ان کے پروردگار کی طرف سے ایک مہربانی تھی جو اس طرح ظہور میں آئی اور میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں کیا ، یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے
رہی وہ دیوار تو اس کے متعلق بھی تم سمجھ لو کہ اس کی حقیقت کیا تھی : 88۔ دیوار بلا اجرت جو بنائی گئی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ اس بستی کے لوگ تو اچھے نہ نکلے اور انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا لیکن دیوار ساری بستی والوں کی تو نہیں تھی وہ تو دو یتیم بچوں کی تھی جو بلا باپ زندگی بسر کر رہے تھے حالانکہ ان کا والد ماجد ایک نہایت نیک سیرت آدمی تھا اور یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ اس کا خزانہ اس دیوار کے نیچے محفوظ ہے اور اگر یہ دیوار گر جاتی تو نہ معلوم اس کا کیا ہوتا اب ہم نے اس کو احسانا درست کیا ہے اور ان یتیموں کے گھر سے کھانا کھانا اور ان سے مزدوری طلب کرنا تو ظاہر ہے کہ انسانیت ہی کے خلاف تھا ہم چودہویں ‘ پندرہویں صدی کے ملاں تو نہیں ہیں کہ ہمیں حلال و حرام میں بھی تمیز کرنا نہ آتا اور بستی والوں کے سلوک کی سزا ہم ان بچوں کو تو نہیں دے سکتے تھے ، بستی کے لوگوں کا معاملہ اپنی جگہ اور ان یتیم بچوں کا معاملہ اپنی نوعیت کا تھا اور ہم اپنے پیٹ کی بھوک دوزخ کی آگ سے بجھا ہی نہیں سکتے تھے اور تیرے رب کا حکم یتیموں کے متعلق یہی ہے کہ وہ جس نیک سلوک کے مستحق ہیں ان کے ساتھ بغیر کسی لالچ کے وہ نیک سلوک کیا جائے ، ہم ان کی پہلے بھی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور انشاء اللہ العزیز آئندہ بھی رکھیں گے اور جب تک یہ جوان نہ ہوجائیں ان کا وہ خزانہ جو ان کے باپ کا ہے اور ان کی ملکیت اور حق ہے اور انکی بلاغت کے بعد جب ہم ان کو بتائیں گے تو وہ نکال لیں گے اور اس طرح اس کے والد کے ساتھ جو ایک نیک آدمی تھا ہم اپنا وعدہ پورا کردیں گے اور دوستی کا یہ حق آخرت میں یقینا ہمارے کام آئے گا ، اور اب آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا یہ جو کچھ میں نے کیا اپنی مرضی اور اپنی ذاتی خواہش سے نہیں کیا بلکہ ایک حکومت کی نمائندگی میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس کو سرانجام دیا اس میں جو کچھ میں نے اپنی ذاتی صوابدید اور ذاتی تعلقات کے باعث کیا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق سرانجام دیا اور جو حکومت وقت کے حکم وآرڈر سے سرانجام دیا وہ بھی اللہ کے قانون اور اس کی حمایت میں سرانجام دیا اور جو کچھ کیا اور مجھ سے ہوا وہ بھی میرا کمال نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے خاص فضل و کرم اور اس کی رضا کی طلب میں اس کے حکم کے مطابق ہو پایا ورنہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا ، یہ ان کاموں کی حقیقت تھی جو میں نے سرانجام دئیے اور جس پر آپ نے اتنی جلدی کی میرے کہنے کے باوجود آپ صبر نہ کرسکے اور ان ہدایت میں مشیت ایزادی نے جو آپ کے لئے بھلائیاں رکھی ہیں ان کو وہی جانتا ہے اور اس پورے واقعہ کے اندر جو نصیحتیں اور عبرتیں انسان زندگی کے لئے مخفی ہیں ان کو بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ جس جس کو چاہے گا اس سے سبق حاصل کرا دے گا کہ ہر انسان کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ خلاصہ الکلام مع تنقیح واقعہ خضر و موسیٰ (علیہ السلام) : 1۔ یہ واقعہ کب پیش آیا ؟ ہمارے مفسریں نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی سوائے اس کے کہ سب متفق ہیں کہ یہ واقعہ نبوت کے بعد پیش آیا ، لیکن قرآن کریم ، صحیح حدیث اور تاریخ تینوں سے کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ واقعہ نبوت کے بعد پیش آیا اس لئے ہم اس نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے اور ہم ایقان سے یہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب جوان ہوئے اور آپ کی وہ فطری ہدایت اجاگر ہوئی جو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخصوص طور پر رکھی تھی تو اس دور میں مصر اور مضافات مصر کے واقعات سے آپ کو دلچسپی یقینا تھی اور اسی دور میں آپ نے کسی مضافاتی حکومت کے کارہائے نمایاں کے متعلق سن رکھا تھا اور آپ کے علم میں یہ بات بھی تھی کہ (مجمع البحرین) کی دوسری طرف وہ حکومت قائم ہے اور حقیقت اس کی اسی مقام سے واضح ہو سکتی ہے ۔ اتفاق دیکھئے کہ یہ وہی وقت تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) سے مصر میں اتفاق قتل ہوگیا اور پھر یہ راز کھلتے بھی کچھ زیادہ دیر نہ لگی کہ قتل کرنے والے موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ۔ فرعون جو پہلے ہی کوئی بہانہ تلاش کر رہا تھا جب اس کو معلوم ہوا تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑنے اور قتل کردینے کا آرڈر دے دیا اور یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) تک بھی پہنچا دی گئی اور مشورہ دینے والوں فورا یہاں سے نکل جانے کا فیصلہ دیا ، موسیٰ (علیہ السلام) ایک طرح کے شہزادہ بھی تھے اور سروسامان کی فراوانی اور اعوان وانصار کی کثرت بھی تھی ، آپ خفیہ طور پر وہاں سے جب نکلے تو اپنے ساتھیوں میں ایک متعمد خاص کو اپنے ساتھ لے لیا اور اس کو اپنا عزم واضح کردیا کہ ہم کو (مجمع البحرین) کی طرف جانا ہے خواہ ہم کو کتنی ہی مدت کیوں نہ چلنا پڑے ۔ 2۔ (مجمع البحرین) کیا ہے اور کہاں ہے ؟ کیا ہے اس کا جواب تو اس کے نام ہی کے اندر موجود ہے کہ وہ دو پانیوں کے ملنے کی جگہ ہے اور کہاں ہے میں مفسرین کا بہت اختلاف ہے ، مجاہد (رح) وقتادہ (رح) کا بیان ہے کہ بحر فارس اور بحر روم کے ملنے کی جگہ ہے لیکن نقشہ یہ کہتا ہے کہ یہ دونوں کہیں ملتے ہیں نہیں ، بعض نے کہا ہے کہ یہ آرمینیا میں دو دریا ہیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کا وہاں جانا ثابت نہیں ۔ ابی ؓ کہتے ہیں کہ وہ افریقہ میں ہے اور ظاہر ہے کہ افریقہ میں ہے تو یہ دریائے نیل ہی کی دو بڑی شاخوں کے ملنے کی جگہ ہے جن کو بحر ابیض اور بحر اسود کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور یہ جگہ ” خرطوم “ میں ہے جہاں دریائے نیل کی یہ دونوں شاخیں آپس میں ملتی ہیں ، اب اس مقام پر پہنچنے کا طریقہ کیا ہے ؟ ایک سادہ طریقہ یہی جو اس وقت استعمال کیا جاسکتا تھا کہ مصر سے نکلتے ہی دریا کے کنارے کنارے چلیں اور جہاں بھی اور جب بھی وہ مقام آجائے یہی ایک طریقہ تھا اور اسی کو آپ نے اختیار فرمایا ۔ (مجمع البحرین) پر بحث کرتے ہوئے ہمارے مفسرین ‘ مفکرین ‘ صوفیائے کرام اور علمائے عظام نے بڑے بڑے عجیب و غریب انکشافات کئے ہیں لیکن یہ سب کچھ ان کو مبارک ہو جو یہ محنت فرماتے رہے ہم نہ مفکر ہیں ‘ نہ صوفی اور نہ ہی ان نام کے علمائے کرام میں ہمارا شمار ہے اس لئے ہم اتنی ہی بات کہہ سکتے ہیں جو بظاہر قرآن کریم سے واضح ہوتی ہے اور اس دنیا میں وہ دیکھی یا پائی جاسکتی ہے جس میں موسیٰ (علیہ السلام) نے سفر کیا تھا ۔ 3۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ ساتھی کون تھا ؟ قرآن کریم ‘ احادیث اور تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دوست و احباب اس وقت بنی اسرائیل اور مصریوں دونوں گروہوں میں موجود تھے اور اگر مصریوں میں سے کسی کو موسیٰ (علیہ السلام) نے ساتھ لیا ہے تو یہی تھا اور اگر وہ بنی اسرائیل میں سے ہے تو اس کا نام یوشع بن نون ہے جو بعد میں موسیٰ (علیہ السلام) کا جانشین بھی ہوا لیکن ہمارے خیال میں اس کی تلاش کی کوئی ضرورت نہیں قرآن کریم نے اس کو (فتی) کہا ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی ‘ خادم ‘ دوست تھا اب اس کا نام کچھ ہو اور وہ کوئی ہو اس میں اختلاف ہوجائے تو کوئی نقصان نہیں جو بات دل مان جائے وہی آپ کہہ سکتے ہیں جن باتوں میں قرآن کریم نے اور صحیح حدیث نے کچھ نہیں کہا ان میں مغز مارنے کی آخر ضرورت ؟ 4۔ (مجمع البحرین) پر کون تھا ؟ ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر اور مصر کے اردگرد کے ممالک کے حالات کی جستجو تھی اسی جستجو میں آپ نے سنا تھا کہ اس علاقہ کی حکومت عدل و انصاف میں ضرب المثل ہے اور اس بادشاہ کے اعوان وانصار بھی نیک سیرت ونیک کردار ہیں اور یہی جستجو آپ کو اس طرف لے گئی تھی اور وہی سے وہ مدین کی طرف چلے گئے تھے ، لیکن روایات میں اس کا شخص کا نام ” خضر “ آیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو کسی نے پوچھ لیا کہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ ” میں “ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی تو اللہ نے وحی بھیجی کہ اے موسیٰ ! تم سے زیادہ عالم میرا ایک اور بندہ ہے جو دو سمندروں کے سنگم پر رہتا ہے ، بس یہی وجہ ہوئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کی تلاش میں نکلے ، اس کے پیش نظر یہ بحث چلی کہ خضر کیا تھے ؟ پھر قیاس آرائیاں شروع ہوئیں اور اپنے اپنے دلائل لوگوں نے پیش کئے ، کسی نے کہا کہ وہ ” ولی اللہ ‘ ‘ تھے ، بعض نے کہا کہ وہ ” نبی غیر مرسل “ تھے اور بعض نے کہا نہیں ” نبی ورسول “ تھے ، پھر یہ بھی کہا گیا کہ وہ انسان نہیں تھے بلکہ ایک ” فرشتہ “ تھے ۔ کسی نے کہا وہ آدم کی پیٹھ سے نکلے ہوئے ان کے ” حقیقی فرزند “ تھے ، کسی نے انکو ” قابیل کا بیٹا “ تحریر کیا اور کسی نے ” ارمیاہ “ یا ” الیسع “ قرار دیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ” فرعون کا بیٹا “ تھا اور کسی نے ” اس کی بیٹی کا بیٹا “ بھی لکھا اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور یہ کہ ان کا قبضہ پانیوں پر ہے اور یہ بھی بیان ہوا کہ وہ زندہ ہیں اور رہیں گے یہاں تک کہ ” دجال “ پیدا ہوگا اور وہ اس کی تکذیب کریں گے ۔ اس طرح بات سے بات نکلتی چلی گئی اور جو کسی کے منہ میں آیا وہ کہتا گیا اور آی یہ سب کچھ کتب تفاسیر سمجھ کر ہم کو بتایا جاتا ہے اور جو ان باتوں کو قصہ گوئی قرار دے اس کو ہمارے علمائے کرام پہلی ہی جست میں ” کافر “ کا نام دے کر ملت اسلامیہ سے خارج کردیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ ایسا کہہ کر کہیں ہم خود ہی تو اس ملت اسلامی سے خارج نہیں ہوگئے ؟ اس پر بڑی بڑی بحثیں اٹھائی گئی ہیں کہ ولی و امام کا رتبہ بڑا ہے یا نبی ورسول کا اور ان بحثوں کا نتیجہ یہ بھی نکالا گیا ہے کہ امامت وولایت کا درجہ نبوت و رسالت سے بہت بڑا ہے اور پھر ” خضر “ کی وجہ تسمیہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ جہاں بیٹھتے ہیں زمین ہری بھری ہوجاتی ہے اور یہی ان کی پہچان ہے جس کی بنا پر ان کو خضر کہا جاتا ہے اور چونکہ وہ ولی اللہ تھے ، اس لئے اب بھی انکی ملاقات ولیوں سے ثابت کی جاتی ہے ہم نے صرف اشارات دیئے ہیں تاکہ قارئین کو واقفیت حاصل ہوجائے ۔ 5۔ مچھلی کا معجزہ کا ہے ؟ روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے عالم ہونے کا بیان دیا تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ایک بڑے عالم کا نام بتایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی اے اللہ ! مجھے ان کا کوئی پتہ ونشان بتائیں تاکہ میں انکے پاس جاؤں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور (مجمع البحرین) کی طرف سفر کرو جس جگہ پہنچ کر یہ مچھلی گم ہوجائے بس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی اور چل دیئے ان کے ساتھ ان کا خادم یوشع بن نون بھی تھا دوران سفر ایک پتھر کے پاس پہنچ کر اس پر سررکھ کر لیٹ گئے اس جگہ اچانک یہ مچھلی حرکت میں آئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی ، پھر بعض نے کہا یہ مچھلی بھنی ہوئی اور تلی ہوئی تھی ، بعض نے کہا کہ صرف اس کو نمک لگایا گیا تھا تاکہ بود باس نہ آئے اور بعض نے کہا کہ وہ صرف مری ہوئی تھی ، گویا کہ مری ہوئی ‘ بھنی یا تلی ہوئی یا صرف نمک مرچ لگی ہوئی مچھلی دوبارہ زندہ ہو کر پانی میں غائب ہوئی تو یہ معجزہ کے طور پر ہوا اور یہی وہ مچھلی کا معجزہ ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص ان حضرات سے یہ پوچھ لے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کا ذکر جو اپنے ساتھی سے کیا تھا تو وہ محض غذا کے لئے کیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مچھلی انہوں نے غذا کے لئے رکھی تھی نہ کہ بطور نشان ، کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں کہ انہوں نے اپنے نوجوان سے فرمایا (لفتہ اتنا غداء نا) ” لاؤ ہمارا ناشتہ “ اگر یہ مچھلی بطور نشان رکھی تھی تو ان کو صرف یہ کہنا چاہئے تھا کہ دیکھو مچھلی ابھی پٹارے میں ہے یا نکل گئی ہے کیونکہ ہم تو چل چل کر ہلکان ہو رہے ہیں اور ابھی معلوم نہیں ہمارا سفر کتنا ہے ؟ تو علمائے کرام وہی شور کریں گے کہ دیکھو یہ ہے ” معجزات کا منکر کافر “ دیکھو یہ مچھلی کے معجزہ کو نہیں مانتا پھر یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مچھلی خود بھی معجزہ تھی اور اس مچھلی نے زندہ ہو کر بڑے بڑے معجزات دکھائے تھے مثلا یہ کہ جہاں مچھلی رکھی تھی وہاں قریب ہی میں آب حیات کا چشمہ تھا اس میں یوشع بن نون نے وضو کیا اور اس کے چند قطرے اس پٹارہ پر پڑے جس میں مچھلی تھی اور اس سے مچھلی زندہ ہوگئی ، پھر جہاں جہاں سے یہ مچھلی گزرتی گئی پانی جمتا چلا جاتا تھا یا پتھر کی طرح ہوتا جاتا تھا ، نہیں بلکہ واقعی پتھر ہوگیا تھا ۔ آگے آگے مچھلی بھاگتی گئی اور پیچھے پیچھے موسیٰ (علیہ السلام) اپنے عصا کی مدد سے بھاگتے جا رہے تھے یہاں تک کہ ایک جزیرہ تک پہنچ گئے اور وہیں خضر سے ملاقات ہوگئی ، یہ اور اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں جو اس مچھلی کے متعلق بیان کی جاتی ہیں ، اب چاہے تم یہ تسلیم کرو کہ چونکہ یہ سفر دریا کے کنارے کنارے تھا اس لئے دونوں ساتھیوں نے بطور غذا مچھلی پکڑی تھی اور ضرورت کے مطابق بھونی اور کھائی تھی جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور چاہے اس پٹارہ کی مچلی کے زندہ وجاوید معجزہ کو تسلیم کرو ۔ ہماری تفہیم کے مطابق تو یہ واقعہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے کا ہے اور مچھلی غذائی ضرورت کے لئے پکڑی اور کھائی جاتی رہی تھی اور اسی مقصد کے لئے آپ نے اس کو زنبیل میں رکھا تھا اور مچھلیاں ایسی آج بھی پائی جاتی ہیں جو پکڑنے کے بعد گھنٹوں تک زندہ رہتی ہیں اور کسی طرح پانی کے قریب ہوجائیں تو پانی میں گھس جاتی ہیں جس سے زندگی کی رمق ان کو دوبارہ صحت یاب کردیتی ہے ، ہاں ! موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ غذا کی مچھلی جہاں بھول جاؤ رؤیا میں دکھایا گیا ہو تو ممکن ہے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کا فرمانا (ماکنا نبغ) اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے پچھلے مقام پر سستاتے وقت کوئی رویا دیکھا ہو جس کی تعبیر انکو مچھلی گم ہونے کی خبر سن کر معلوم ہوئی ہو ۔ اور اگرچہ وہ نبی نہیں تھے تاہم رویا میں ایسی باتوں کا آنا آج بھی پایا جاتا ہے کیونکہ ان کا مفہوم بعد میں متعین کیا جاتا ہے اور یہ باقاعدہ ایک علم ہے جو نبوت ہی کی شاخ سے تعلق رکھتا ہے اور یہ سارے انسانوں میں پایا جاتا ہے اس بحث کو ہم نے سورة یوسف میں بیان کردیا ہے ۔ 6۔ کشتی کو عیب دار کرنے اور نوجوان کو قتل کرنے سے موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا کسی اور نے کوئی اعتراض کیوں ؟ بعض مفسرین نے سوال کو درج کرکے چھوڑ دیا اور جواب نہیں دیا اور اکثر نے اس کا بیان ہی نہیں کیا اور بعض نے اس کا جواب بھی دیا ، جن لوگوں نے جواب دیا ان کا جواب یہ ہے کہ ” خضر (علیہ السلام) ایک ایسا انسان تھا جسے عام آنکھیں نہیں دیکھتی تھیں فقط موسیٰ (علیہ السلام) ہی دیکھتے تھے وہ بھی اس لئے کہ وہ نبی ورسول تھے ورنہ دوسرے لوگ بھی مزاحمت کرتے لیکن کسی دوسرے نے آخر مزاحمت کیوں نہ کی اور خصوصا قتل کرنا تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس پر تو ایک ہنگامہ بپا ہونا چاہئے تھا ، بعض نے کہا کہ دراصل خضر انسان نہ تھے بلکہ فرشتہ تھے اس لئے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا کسی اور کو نظر ہی نہ آئے اور بعض نے کہا کہ صورت حال ظاہری طور پر نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک مکاشفہ کا بیان ہے اور ہم نے اوپر اصل مقام پر عرض کردیا ہے کہ دراصل کشتی کو جو عیب دار کیا گیا تو وہ کشتی بانوں کی افہام و تفہیم سے ایسا کیا گیا اور چونکہ ایسے سفروں پر وہ آتے جاتے رہتے تھے اور اس بادشاہ کو جو مہم درپیش تھی اور جہاں کشتیاں پکڑ کر وہ لے جانا چاہتا سب ان کے علم میں تھا اس لئے انہوں نے کشتی والوں سے کہہ دیا ہوا تھا کہ جب وہ وقت آئے گا کہ بادشادہ اپنی ضرورت کے لئے کشتیاں پکڑے تو آپ کی کشتی کو داغ دار یا عیب دار کردیا جائے گا تاکہ وہ غصب نہ کرے اور آپ کا کام چلتا رہے اور عیب دار کرنے اور توڑنے میں بہت فرق ہے اور قتل کا معاملہ جہاں پیش آیا وہاں کے لوگ اس کے اشتہاری ہونے کی خبر سن چکے تھے اور یہ بھی کہ وہ لوگ ان صاحب سے اچھی طرح واقف تھے کہ وہ حکومت کے کارندہ تھے اور ان کا یہ کام تھا کہ حکومت کے احکام کی پابندی کریں اور لوگوں سے پابندی کرائیں چناچہ نووی نے ” تہذیب الاسماء “ میں نقل کیا ہے کہ خضر بادشاہ کے خاندان سے تھے اور ممکن ہے کہ وہ کسی علاقہ کے یا ریاست کے خود مختار حکمران قرار پائے ہوں اور وہاں کے لوگوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم بھی ہو ۔ 7۔ قتل کیا جانے والا (غلام) تھا اور (غلام) بچہ ہی کو کہا جاتا ہے ؟ ہم نے اس آیت کے مقام پر اس کی وضاحت کردی ہے کہ وہ بچہ نہیں تھا بلکہ نوجوان تھا اور یہ بھی کہ (غلام) کا لفظ نوجوان اور معمر شخص پر بھی بولا جاتا ہے آپ ہی بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب معراج ہوئی تو کیا آپ ﷺ بچے تھے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو حدیث معراج میں مشکوۃ المصابیح کے اندر بحوالہ بخاری شریف مرفوعا آیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے نبی اعظم وآخر ﷺ کے متعلق بیان فرمایا کہ ” لان غلاما بعث بعدی یدخل الجنۃ من امتہ اکثر ممن یدخلھا من امتی “۔ ” اس غلام کی امت جو میرے بعد نبی ہو کر مبعوث ہوا ہے میری امت کی نسبت جنت میں زیادہ جائے گی ۔ “ اور ایک صحابی کے متعلق حدیث میں ہے کہ قد علم ھذا الغلام علما لم یعلمہ احد ” یہ نوجوان آدمی بہت بڑا عالم وفاضل ہے “ اور ایک نوجوان کے متعلق رب ھذا الغلام “۔ کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ (اس نوجوان کے رب کی قسم) اس لئے جن لوگوں نے (غلام) سے ایک نابالغ بچہ کا تصور کیا ہے وہ صحیح نہیں اور روایات میں جو غلاما یلعب مع الغلمان کے الفاظ آئے ہیں اس سے چھوٹے بچوں کا تصور لینا بھی ضروری نہیں کیونکہ کھیل کھیل ہی ہے اگرچہ وہ نوجوان کھیلتے ہوں اور نوجوانون کا کھیلنا کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ تصور لیا جائے کہ نوجوان نہیں کھیلا کرتے بلکہ نابالغ بچے ہی کھیلتے ہیں ، اب تو نابالغوں سے زیادہ بالغ بلکہ بڑے بڑے سرکش اور غالی قسم کے نوجوان بھی کھیلتے ہیں ‘ اب اس بات پر تعجب کیوں ؟ پھر بخاری ومسلم میں صاف موجود ہیں کہ واما الغلام کافرا ، کہ وہ نوجوان کافر تھا کیونکہ کفر واسلام کا اطلاق بلاغت کے بعد ہی ہوتا ہے اور درمنثور میں اس کو بیس سالہ نوجوان لکھا ہے اور مواہب الرحمن میں حسن بصری سے منقول ہے کہ یہ طفل نہیں بلکہ نوجوان تھا ‘ زنا کرتا اور لوگوں کا مال چھین لیتا تھا اور والدین کو تنگ کرتا تھا اور ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا ۔ پھر تفسیری روایات خواہ ہو معتبر کتب ہی میں کیوں نہ ہوں یہ روایات زیادہ تر بالمعنی ہی ہوتی ہیں جو بیان کرنے والے کے اپنے تخیل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں پھر ایک واقعہ جو مکہ میں نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا اس کے برسوں بعد اسلام لانے والے جب بیان کریں گے تو وہ بھی معاملہ مخدوش ہوگا پھر یہ بھی کہ احادیث کا قرآن کریم کی عبارت کے صریح مطلب لینا کبھی جائز و درست نہیں ہوسکتا راوی کو غلطی لگ سکتی ہے لیکن قرآن کریم میں اس کا امکان محال ہے ۔ 8۔ علم لدنی کیا ہے ؟ صوفیوں کی اصطلاح میں علم لدنی اور ہے ‘ علمائے اسلام کی اصطلاح میں اور تشریحات و تمثیلات اس کی اس قدر ہیں کہ ان کو بیان کرنے کے لئے نہ وقت ہے نہ کاغذ اور دوات۔ چونکہ صاحب موسیٰ کے پاس ” علم لدنی “ سمجھا گیا ہے اس لئے ” علم لدنی “ والوں کی دنیا ہی الگ بنا دی گئی ہے وہ نہ کتاب وسنت کے پابند ہوتے ہیں اور نہ ظاہری شریعت کے بلکہ وہ اس سب کچھ کو ایک بکھیڑا سمجھتے ہیں ، حلال و حرام اور جائز وناجائز کی بحث ان کے ہاں نہیں ہوتی ۔ ان کا جو جی چاہے وہ بن سکتے ہیں اور بن بیٹھتے ہیں ، کائنات ارضی کی ہرچیز ان کے قبضہ قدرت میں سمجھی جاتی ہے وہ چاہیں سورج طلوع ہونے دیں چاہیں نہ ہونے دیں اور چڑھے ہوئے کو غروب کردیں اور غروب ہوئے کو واپسی کا حکم صادر کردیں ، جس چیز کو وہ چاہیں ہر ابھرا کردیں اور چاہیں تو جلا کر خاکستر کردیں ، لیکن ہمارے جیسے سرسڑے بھی ” علم لدنی “ کو مانتے آرہے ہیں اس لئے صوفیوں کی باتیں وہ جانیں اور علمائے کرام کی علمائے کرام ۔ ہم اپنی بات کریں گے سو گزارش ہے کہ ارشاد الہی ہے (آیت) ولقد اتینک من لدنا ذکر “۔ (طہ 20 : 99) ” اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک (ذکر) عطا کیا ہے ۔ “ اور فرمایا (آیت) کتاب احکمت ایاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر “۔ (ہود 11 : 1) ” یہ کتاب ہے جس کی آیتیں مضبوط ہیں اور کھول کھول کر واضح کردی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہیں جو حکمت والا ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے ۔ “ بلاشبہ یہ وحی الہی کی بات ہے لیکن قرآن کریم ہم کو بتاتا ہے کہ اس کا عرفی وحی اور الہام ہونا کوئی ضروری نہیں بلکہ عقلمندانہ روش پر کسی کام کو سرانجام دنیا بھی علم الہی ہے جیسے کہ ارشاد الہی ہے (آیت) ” ولا یاب کاتب ان یکتب کماعلمہ اللہ فلیکتب) (البقرہ : 2 : 282) ” جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہے اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہئے ۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ “۔ (المائدہ 5 : 4) ” اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو اللہ کو دیئے ہوئے علم سے تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو۔ “ اس طرح جو امور اسباب سے پیدا ہوں وہ بھی ” لدنی “ کہلاتے ہیں جیسے (آیت) ” فھب لی من لدنک ولیا “۔ (مریم 19 : 5) ” پس تو اپنے خاص فضل سے مجھے ایک وارث بخش دے ۔ “ اور اسی طرح فرمایا ۔ (آیت) ” وجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا “۔ (النساء 4 : 75) ” اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہماری مددگاری کے لئے کھڑا کردے ۔ “ اس طرح انسان جو کام بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اور اللہ اور اس کے رسول کی رضا جوئی کے لئے کرے گا وہ یقینا اللہ ہی کی طرف ہوں گے اور ہر ہر کام کے لئے ساتھ ساتھ وحی نہیں ہوتی رہے گی اور اس طرح جو کچھ انسان کرتا ہے ‘ کماتا ہے ‘ کھاتا ہے ‘ خرچ کرتا ہے سب ” علم لدنی “ کے تحت ہی ہوتا ہے اور یہ علم کسی خاص انسان کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ہر صلاحیت رکھنے والا انسان اس ضمن میں آجاتا ہے ۔ 9۔ (الغلام الذی قتلہ الخضر طبع یوم طبع کافرا “۔ کا مطلب کیا ہے ؟ یہ الفاظ بخاری ‘ مسلم ‘ ابو داؤد اور ترمذی میں مرفوعا آئے ہیں اس کا ترجمہ مترجمین نے اس طرح کیا ہے ” وہ بچہ جو خضر (علیہ السلام) نے قتل کیا تھا روز اول ہی سے کافر پیدا ہوا تھا ۔ “ لیکن یہ مطلب یا ترجمہ ہرگز ہرگز صحیح بلکہ صحیح مطلب اور ترجمہ یہ ہے کہ ” ہر انسان کے لئے جو کفر اور اسلام سے مطبوع ہونے کا دن مقرر ہے اس دن سے وہ لڑکا جس کو خضر نے قتل کیا تھا کفر ہی سے مطبوع ہوا تھا “۔ گویا یہ کہ اس لڑکے کو صحبت اور مجلس اچھی نہ ملی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن جو سب کے لئے بلوغت کا دن ہوتا ہے حالت کفر ہی پر آیا اور وہ بدستور اسی حالت پر قائم رہا ، اس نے اپنے والدین کی طرف کبھی خیال ہی نہ کیا کہ میں کیسے والدین کا بیٹا ہوں اور یہ کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے ؟ حالانکہ عقل وفکر اور بلوغ و شعور آجانے کے بعد ہر انسان کا حق ہے کہ وہ حق اور ناحق میں امیتاز کرے اور صحیح اور غلط کی پہچان کرے ، بلکہ احادیث میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی کہ ” ہر مولود فطرتا اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے اور اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے والدین اسے یہودی ‘ عیسائی اور مجوسی بنا لیتے ہیں اور ابو داؤد ص 293 جلد 2 میں حماد بن سلمہ سے جو بیان ہوا ہے وہاں سے ملاحظہ کریں اس میں اس کی پوری وضاحت مل جائے گی ۔ اور (الست بربکم) کی تفسیر ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں ۔ 10۔ کیا دیوار صاحب ارادہ چیز ہے ؟ قرآن کریم میں ہے کہ (آیت) ” فوجدا فیھا جدارایرید ان ینقض “۔ ” پس ان دونوں نے دیکھا کہ اس گاؤں میں ایک پرانی دیوار گرا چاہتی ہے “۔ دیوار بلاشبہ صاحب ارادہ چیز نہیں اس لئے اس کی ہئیت کذائی کے پیش نظر ایسا فرمایا ہے اور اس طرح کا کلام ہر زبان اور ہر لغت میں موجود ہے ، بےجان چیزوں ‘ ناسمجھ اور غیر ذوی العقول سب کے لئے اس کا استعمال جائز اور درست ہے ، جانوروں کا بولنا ، شکایت کرنا ، کھنڈرات کا بتانا کہ عمارت عجیب تھی ، بےزبانوں کا بولنا ، بچوں کا باتیں کرنا ‘ اپنے اپنے حال کے مطابق صحیح اور درست ہے ، قرآن کریم میں پہاڑوں ، زمینوں اور آسمانوں پر امانت کا رکھنا اور ان کا انکار کرنا احادیث میں درختوں اور پتھروں کا سلام پیش کرنا ، اس طرح کے بیسیوں اشارات پائے جاتے ہیں ، جو سب کے سب صحیح اور درست ہیں اس دیوار کا ارادہ کرنا اس کی ہئیت کذائی کا بیان ہے لیکن چالاک وہوشیار لوگ ان باتوں سے کچھ کا کچھ مطلب نکالتے اور اپنی عیاریوں اور مکاریوں کو ان میں چھپاتے رہتے ہیں اور اسی طرح دانا اور سمجھدار لوگ اپنے اپنے وقت میں اس کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں لیکن ادہام پرست اپنے وہم و گمان کی پیروی میں ان پر سب وشتم کرتے رہے ہیں کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان سے گھبرا کر حقیقت سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور حق کو بیان کرتے ہی رہنا چاہئے یہی راہ صحیح ہے ۔
Top