Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠ ۧ
وَاَمَّا
: اور رہی
الْجِدَارُ
: دیوار
فَكَانَ
: سو وہ تھی
لِغُلٰمَيْنِ
: دو بچوں کی
يَتِيْمَيْنِ
: دو یتیم
فِي الْمَدِيْنَةِ
: شہر میں۔ کے
وَكَانَ
: اور تھا
تَحْتَهٗ
: اس کے نیچے
كَنْزٌ
: خزانہ
لَّهُمَا
: ان دونوں کے لیے
وَكَانَ
: اور تھا
اَبُوْهُمَا
: ان کا باپ
صَالِحًا
: نیک
فَاَرَادَ
: سو چاہا
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ يَّبْلُغَآ
: کہ وہ پہنچیں
اَشُدَّهُمَا
: اپنی جوانی
وَيَسْتَخْرِجَا
: اور وہ دونوں نکالیں
كَنْزَهُمَا
: اپنا خزانہ
رَحْمَةً
: مہربانی
مِّنْ رَّبِّكَ
: سے تمہارا رب
وَمَا فَعَلْتُهٗ
: اور یہ میں نے نہیں کیا
عَنْ
: سے
اَمْرِيْ
: اپنا حکم (مرضی)
ذٰلِكَ
: یہ
تَاْوِيْلُ
: تعبیر (حقیقت)
مَا
: جو
لَمْ تَسْطِعْ
: تم نہ کرسکے
عَّلَيْهِ
: اس پر
صَبْرًا
: صبر
اور وہ جو دیوار تھی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی (جو) شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے۔ اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے۔ یہ ان باتوں کا راز ہے جن پر تم صبر نہ کرسکے
واما الجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ وکان تحتہ کنز لہما اور دیوار کا قصہ یہ تھا کہ وہ بستی کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا۔ بغوی نے لکھا ہے ان دونوں لڑکوں کا نام اصرم اور صریم تھے۔ کنز کا ترجمہ عکرمہ نے مال کیا ہے حضرت ابو درداء ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سونے چاندی کا خزانہ تھا یہ حدیث بخاری نے تاریخ میں اور حاکم نے بیان کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے۔ طبرانی نے اس آیت کی تشریح میں حضرت ابو درداء ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ان کے لئے کنز (نامعلوم دفینے) حلال کردیئے گئے تھے اور مال غنیمت حرام کردیا گیا تھا اور ہمارے لئے کنز حرام کردیئے گئے اور مال غنیمت حلال کردیا گیا (حضرت مفسر نے فرمایا) میں کہتا ہوں ہمارے لئے کنز حرام کردیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ سونا چاندی بغیر زکوٰۃ ادا کئے جمع کر کے رکھنا ہمارے لئے حرام کردیا گیا ہے اللہ نے فرمایا ہے والَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کو خرچ نہیں کرتے ان کو دکھ والے عذاب کی خوشی خبری دے دو ۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز نہیں ہے ‘ خواہ اس کو دفینہ بنا کر ہی رکھا جائے اور جس مال کی زکوٰ ادا نہ کی گئی ہو وہ کنز ہے خواہ اس کو زمین میں دفن نہ کیا گیا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی والوں پر زکوٰۃ فرض نہ تھی جب ہی تو حضرت ابودرداء نے فرمایا کہ ان کے لئے مال کو کنز بنا کر رکھنا حلال کردیا گیا تھا۔ بغوی نے سعید بن جبیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ کنز کچھ صحیفوں کی شکل میں تھا جس میں علم تھا (گویا علمی خزانہ تھا) حاکم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ کنز سونے چاندی کا نہ تھا بلکہ علمی صحیفے تھے۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس کا بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ بروایت بغوی حضرت ابن عباس ؓ : کا دوسرا قول آیا ہے کہ وہ سونے کی ایک تختی تھی جس میں تحریر تھا ‘ تعجب ہے کہ جس کا موت پر یقین ہو وہ خوش کیسے ہوتا ہے ‘ تعجب ہے کہ جس کا تقدیر پر یقین ہو وہ رنجید کیونکر ہوتا ہے۔ تعجب ہے کہ جس کو رزق (مقدر) ملنے کا یقین ہو وہ (تلاش رزق میں) تھکتا کیوں ہے (کیوں کمائی کے لئے سرگرداں پھرتا ہے) تعجب ہے کہ جس کو (آخرت کے) حساب پر یقین ہے وہ غافل کیسے رہتا ہے ‘ تعجب ہے کہ جو زوال دنیا کا یقین رکھتا ہے وہ (حاصل شدہ) دنیا پر مطمئن ہو کر کیسے بیٹھ جاتا ہے لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ محمد رسول اللّٰہتختی کے دوسری طرف لکھا تھا میں ہی اللہ ہوں میں اکیلا ہوں میرا کوئی ساجھی نہیں۔ میں نے خیر و شر کو پیدا کیا خوشی ہے اس شخص کے لئے جس کو میں نے خیر کے واسطے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں سے خیر کو جاری کرایا اور ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس کو میں نے شر کے لئے پیدا کیا اور شر کو اس کے ہاتھوں سے جاری کیا۔ بزار نے یہ حدیث ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابوذر کی روایت سے مرفوعاً بیان کی ہے ابن مردویہ نے بھی حضرت علی ؓ : کی روایت سے اس کو مرفوع قرار دیا ہے لیکن خرابطی نے قمع الحرص میں اس کو حضرت ابن عباس ؓ : کا قول کہا ہے۔ زجاج نے کہا لفظ کنز اگر بےقید (بغیر مضاف الیہ کے) بولا جاتا ہے تو اس سے مالی خزانہ مراد ہوتا ہے اور قید (مضاف الیہ) کے ساتھ بولا جاتا ہے تو دوسری چیزوں کا خزانہ بھی مراد ہوتا ہے جیسے کنز العلم علم کا خزانہ اور تختی میں دونوں باتیں تھیں (وہ سونے کی بھی تھی اور وہ علم کا خزانہ بھی تھی) وکان ابوہما صالحاً اور ان دونوں یتیموں کا باپ نیک تھا۔ بعض اہل علم نے اس شخص کا نام شح بیان کیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا باپ کی نیکی کی وجہ سے (اللہ کی طرف سے) دونوں یتیموں کی حفاظت کی گئی یعنی باپ کی نیکی کی وجہ سے یتیموں کی حفاظت کے لئے اللہ نے دیوار درست کردینے کا حکم خضر کو دیا محمد بن منکدر کا قول ہے کہ بندہ کے نیک ہونے کے سبب اللہ اس کی اولاد ‘ اولاد کی اولاد ‘ کنبہ ‘ خاندان اور ہمسایوں کی بھی حفاظت فرماتا ہے۔ سعید بن مسیب نے بیان کیا میں نماز پڑھتا ہوں اور اولاد کا خیال آجاتا ہے تو نماز اور بڑھا دیتا ہوں (تا کہ میری نماز کی وجہ سے اولاد کی حفاظت رہے) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مرد صالح دونوں یتیموں کا باپ نہیں تھا بلکہ ساتواں دادا تھا (یعنی سات نسلوں تک ایک شخص کی نیکی کا اثر باقی رہا) ابن ابی حاتم نے سلیمان بن سلیم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ توریت میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کسی نیک کی نیکی کی وجہ سے سات صدیوں تک (اس کی نسل اور قوم کی) حفاظت کرتا اور (کسی کی بدکرداری کی وجہ سے) سات صدیوں تک تباہی قائم رکھتا ہے۔ آیت دلالت کر رہی ہے کہ صلحاء کی اولاد کی رعایت اور ان کے فائدے کے لئے امکانی کوشش مسلمانوں پر لازم ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کافر اور اللہ سے سرکش نہ ہوں اگر کافر یا سرکش ہوں تو وہ زیادہ سزا کے مستحق ہیں دوسرے لوگوں کی سرکش اولاد سے صلحاء کی طاغی اولاد پر زیادہ سختی کی جائے حضرت خضر کا اس لڑکے کو قتل کردینا جس کے آئندہ کافر ہونے اور ماں باپ پر وبال پڑنے کا اندیشہ تھا اس قول کی تائید کر رہا ہے۔ فاراد ربک ان یبلغا اشدہما پس آپ کے رب نے چاہا کہ وہ اپنی بھرپور جوانی کو پہنچ جائیں۔ اَشْد کا معنی ہے پوری پوری سوجھ بوجھ (کمال رشد) اور قوت۔ کہا گیا ہے کہ اشد کی عمر 18 سال ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ظاہر قول یہ ہے کہ پچیس کی عمر میں آدمی حدّ اشد (کمال رشد) کو پہنچ جاتا ہے (یعنی اس کے بعد کمال رشد کو پہنچنے کی امید نہیں رہتی اگر پچیس سال تک کوئی کمال رشد کو نہیں پہنچا تو پھر اس سے زیادہ عمر میں بھی اس کو پورا رشد حاصل نہیں ہوگا) اس لئے اگر کسی سادہ لوح سبک سر کی عمر پچیس سال ہوجائے (سمجھا جائے گا کہ اس کو جتنی سمجھ بوجھ ملنی تھی مل گئی آئندہ انتظار غیر ضروری ہے) اس کا مال اس کو دے دیا جائے گا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ ۔ حضرت مفسر نے فرمایا میرے نزدیک چالیس سال کی عمر میں آدمی حدَِّ اشد کو پہنچتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سِنَۃً ۔ ویستخرجا کنزہما رحمۃ من ربک اور اپنا دفینہ نکال لیں اور میں نے یہ سارے کام آپ کے رب کی مہربانی (یعنی الہام یا وحی) سے کئے ہیں۔ بیضاوی نے لکھا ہے حضرت خضر نے کشتی کو عیب دار بنانے کے ارادے کی نسبت صرف اپنی ذات کی طرف کی ‘ کیونکہ عیب دار بنانا انہی کا فعل تھا ‘ اپنے فعل کا ارادہ خود انہوں نے ہی کیا تھا اس کے بعد اردنا کہنے میں اپنے ساتھ اللہ کو بھی فاعل ارادہ قرار دیا کیونکہ ہلاک یعنی قتل کرنا حضرت خضر کا فعل تھا ‘ قتل کے فاعل وہ خود تھے اور مقتول لڑکے کی جگہ دوسری اولاد کو پیدا کرنا اللہ ہی کا کام تھا اور اللہ کے کام کا ارادہ اللہ کے سوا کون کرسکتا ہے اسی لئے تیسری جگہ فَاَرَادَ رَبُّکَمیں ارادہ کی نسبت صرف اللہ کی طرف کی کیونکہ یتیم لڑکوں کے بالغ اور جوان ہونے میں اللہ کے ارادہ کے علاوہ کسی اور کا دخل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ یا یوں کہا جائے کہ کشتی توڑنا فی نفسہٖ شر ہے (اگر اس میں خیر تھی تو اضافی تھی) اس لئے اپنی ذات کی طرف نسبت کی اور تیسرا فعل سراسر خیر ہے اس لئے اس کی نسبت اللہ کی طرف کی اور دوسرے فعل میں شر اور خیر مخلوط تھی اس لئے اپنے ساتھ اللہ کی طرف بھی نسبت کی۔ یا یوں کہا جائے کہ اسباب و وسائط کی طرف توجہ کرنے میں عارف کا حال مختلف ہوتا ہے (کبھی خالص وسائط کی طرف توجہ ہوتی ہے کبھی وسائط سے بالکل منہ موڑ لیتا ہے ‘ کبھی مخلوط التفات ہوتی ہے) وما فعلتہ عن امری اور (جو کچھ آپ نے دیکھا) میں نے اس میں سے کوئی حرکت اپنی رائے سے نہیں کی۔ بلکہ اللہ کے حکم سے کی۔ ذلک تاویل مالم تسطع علیہ صبرا یہ تشریح ہے ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہیں کرسکتے تھے۔ بغوی کا بیان ہے کہ جب حضرت موسیٰ حضرت خضر سے جدا ہونے لگے تو فرمایا مجھے کچھ نصیحت کیجئے حضرت خضر نے کہا علم کی طلب لوگوں سے بیان کرنے کے لئے نہ کرنا بلکہ عمل کرنے کے لئے علم کی طلب کرنا۔ بیضاوی نے لکھا ہے اس قصہ سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آدمی کو اپنے علم پر غرور نہ کرنا چاہئے اور جو بات پسند نہ آئے اور صحیح نہ معلوم ہو اس کے انکار میں عجلت نہ کرے ممکن ہے اس کی تہ میں ایک ایسی پوشیدہ حقیقت ہو جس سے یہ شخص ناواقف ہو۔ میں کہتا ہوں جس شخص کی بات کو صحیح نہ سمجھا جا رہا ہو ‘ اگر وہ عالم ہو دیندار ہو اور متقی ہو تب تو اس کے فعل کا فوری انکار کردینا اور بھی نامناسب ہے۔ اس سے برابر سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ‘ معلم کا ادب کیا جائے گفتگو میں تہذیب رکھی جائے۔ قصور وار کو اس کے قصور پر متنبہ کرنا اور پھر معاف کردینا چاہئے اور جب اس سے بار بار قصور سرزد ہو تو اس سے جدائی اختیار کرلی جائے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے اس قصہ سے ان تمام امور کی تعلیم مستفاد ہو رہی ہے۔ کیا حضرت خضر اب بھی زندہ ہیں ؟ بغوی نے لکھا ہے اس سلسلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض کا خیال ہے خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں ہر سال حج میں دونوں کی ملاقات ہوتی ہے خضر نے آب حیات پی لیا تھا ذوالقرنین جب آب حیات کی تلاش میں ظلمات میں داخل ہوا تو خضر کو اپنے ساتھ لے گیا خضر ہر اوّل دستہ میں آگے آگے تھے ‘ چلتے چلتے خضر چشمے پر پہنچ گئے اتر کر انہوں نے چشمہ کے پانی سے غسل کیا اور کچھ پی لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا ذوالقرنین راستہ بہک گیا اور نامراد واپس آگیا۔ (اکثر) علماء کا خیال ہے کہ خضر وفات پا چکے ‘ اللہ نے فرمایا ہے وَمَاجَعْلَنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ آپ سے پہلے ہم نے کسی انسان کو بقاء دوامی نہیں دی۔ ایک رات عشاء کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے تمہاری یہ رات دکھا دی گئی (یعنی خواب میں شب قدر دکھا دی گئی یا یہ رات جو سامنے ہے اس میں مجھے یہ بات دکھا دی گئی) اب سے (آئندہ سو برس) کی انتہا تک ہر وہ شخص جو اس وقت روئے زمین پر زندہ ہے (مر جائے گا) زندہ نہیں رہے گا۔ مؤلف حصن حصین نے التعزیہ میں یہ حدیث نقل کی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ : ﷺ کی وفات کے بعد ایک (اجنبی) شخص آگیا سپید داڑھی کھلتا ہوا رنگ جسامت میں بھاری آتے ہی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آگے بڑھ گیا اور رونے لگا ‘ پھر صحابہ کی طرف رخ کر کے کہا ہر مصیبت کی تسلی اور ہر فوت شدہ کا عوض اور ہر مرنے والے کا جانشین اللہ ہی کے پاس ہے ‘ اسی کی طرف رجوع کرو ‘ وہ تمہاری اس مصیبت میں تم کو دیکھ رہا ہے تم انتظار کرو دکھ ایسے شخص کا ہے جس کی تلافی نہیں ہوسکتی اس کے بعد وہ آدمی واپس چلا گیا حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت علی ؓ نے فرمایا ‘ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے۔ حضرت خضر سے اولیاء کرام کی ملاقات اور تحصیل فیض کی حکایتیں تو مشہور ہی ہیں۔ یہ روایات بتاتی ہیں کہ خضر زندہ ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ خضر اگر زندہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ : کی صحبت سے کنارہ کش نہ رہتے۔ حضور ﷺ : کی بعثت تو سب ہی لوگوں کے لئے تھی۔ خضر کیسے مستثنیٰ ہوسکتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ‘ اگر موسیٰ میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو میری اتباع کئے بغیر ان کے لئے بھی کوئی چارہ نہ ہوتا (رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان عن جابر بن عبداللہ) آسمان سے اترنے کے بعد حضرت عیسیٰ بھی امت اسلامیہ ہی کے ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھیں گے (یعنی امام مہدی کی اقتدا کریں گے) رواہ مسلم عن ابی ہریرۃ و جابر بن عبداللہ۔ اس مسئلہ کا واحد حل حضرت مجدد (رح) کے بیان سے ہوسکتا ہے ‘ حضرت مجدد صاحب سے جب حضرت خضر کے زندہ یا مردہ ہونے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے اللہ کی طرف توجہ کی اور بارگاہ قدس سے اس کا جواب ملنے کی دعا کی ‘ چناچہ عالم مراقبہ میں آپ نے دیکھا کہ خضر سامنے آگئے ہیں۔ حضرت مجدد صاحب نے حضرت خضر سے خود ان کی حالت دریافت کی۔ حضرت خضر نے فرمایا میں اور الیاس دونوں زندہ نہیں ہیں لیکن اللہ نے ہماری روحوں کو ایسی طاقت عطا فرما دی ہے کہ ہم جسم کا لباس پہن کر بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتاتے اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں اگر اللہ چاہتا ہے (بعض لوگوں کو) علم لدنی بھی تعلیم کرتے اور نسبت بھی عطا کرتے ہیں ہم کو اللہ نے قطب مدار کا مددگار بنایا ہے ‘ قطب مدار کو اللہ نے مدار عالم بنایا ہے انہی کی برکت سے یہ عالم قائم ہے ہم ان کی مدد کرتے ہیں اس زمانہ میں ان کا مسکن ملک یمن ہے وہ فقہ شافعی کے پیرو ہیں ہم بھی قطب مدار کے ساتھ شافعی فقہ کے موافق نماز پڑھتے ہیں۔
Top