Taiseer-ul-Quran - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
آپ ان سے کہئے کہ : سب طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار 57 ہے اور اس کے ان بندوں پر سلامتی ہو جنہیں اس نے برگزیدہ 58 کیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ اس کا شریک بنا رہے 59 ہیں ؟
57 ویسے تو ہر حال میں اللہ کی تعریف بین کرنا چاہئے اور اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ لیکن اہل عرب اس جملہ کا استعمال عموماً اس وقت کرتے ہیں۔ جب فریق مخالف یا مخاطب پر دلائل کے ساتھ اتمام محبت کردی جائے۔ اور اس کے پاس ان دلائل کا کوئی معسول جواب نہ ہو یا اسے کوئی معقول جواب میسر نہ آئے۔ یہاں بھی تین انبیاء کا ذکر کرنے اور منکرین حق کا ایک ہی جیسا انجام بتلانے کے بعد یہ جملہ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 58 برگزیدہ لوگوں سے مراد انبیاء علیہم السلیم ہیں جن کے ساتھ ان کے ان متبعین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن کی اللؤہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، انھیں کافروں کے مظالم سے نجات دلائی اور ان پر نازل کردہ عذاب سے انھیں بچا کر ان پر رحمت فرمائی۔ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے جملہ کا حکم عام ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں پر ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی رہتی ہے۔ 59 یعنی اللہ تو وہ ہے جو مجرموں کو سزا دے کر اپنے بندوں کو ان کے مظالم سے بچا لیتا ہے اور ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ سوائے مشرکین مکہ یا اب تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ ایسی قورتوں والا اللہ بہتر ہے یا تمہارے وہ معبود جو دوسروں کو کوئی فائدہ یا نقصان تو کیا پہنچائیں گے۔ اپنی حفاظت تک کے لئے وہ تمہارے محتاج ہیں۔
Top