Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 139
وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَا١ۚ وَ اِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَآءُ١ؕ سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَا : جو فِيْ بُطُوْنِ : پیٹ میں هٰذِهِ : اس الْاَنْعَامِ : مویشی (جمع) خَالِصَةٌ : خالص لِّذُكُوْرِنَا : ہمارے مردوں کے لیے وَمُحَرَّمٌ : اور حرام عَلٰٓي : پر اَزْوَاجِنَا : ہماری عورتیں وَاِنْ : اور اگر يَّكُنْ : ہو مَّيْتَةً : مردہ فَهُمْ : تو وہ سب فِيْهِ : اس میں شُرَكَآءُ : شریک سَيَجْزِيْهِمْ : وہ جلد ان کو سزا دے گا وَصْفَهُمْ : ان کا باتیں بنانا اِنَّهٗ : بیشک وہ حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور کہتے ہیں ان چارپایوں کے پیٹ میں سے جو زندہ بچہ نکلے وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے ہماری عورتوں کیلئے حلال نہیں اور اگر وہ مردہ ہو تو پھر سب اس میں شریک ہیں ، قریب ہے کہ اللہ انہیں ان کی ان تقسیموں کی سزا دے ، بلاشبہ وہ حکمت رکھنے والا اور جاننے والا ہے
اللہ تعالیٰ کی حلت و حرمت میں ان کی دخل اندازی کی ایک عام مثال : 214: ان مشرکین کی من جملہ جہالتوں میں سے ایک مروجہ جہالت یہ بھی تھی کہ بعض مادہ جانوروں کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ان کے پیٹ میں جو دودھ یا بچہ ہے اس کا استعمال ہمارے مردوں کے لئے حلال اور عورتوں کے لئے حرام ہے اور اگر اس مادہ جانور کے شکم سے مروہ بچہ پیدا ہوا تو وہ مردوں اور عورتوں کے لئے حلال ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ مردہ جانوروں کو بڑے شوق سے کھاتے تھے اور نبی کریم ﷺ پر پھبتیاں کستے تھے کہ اس آدمی کا نعوذ باللہ دماغ خراب ہے کہ جس جانور کو اللہ مارتا ہے اس کو حرام کہتا ہے اور جس جانور کو خود قتل کرلیتا ہے یعنی ذبح کرلیتا ہے اس کو حلال کہتا ہے اور آج کل بھی اس طرح کی پھبتیاں لوگ کستے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ دیکھو دودھ ہمارا ، چاول ہمارے ، چینی ہماری ، پکانے کے برتن ہمارے ، آگ ہم نے جلائی ، ڈوئی ہم نے چلائی ، اب یہ گیارہویں شریف کی نیاز حرام کیسے ہوگئی ؟ دیکھو ان لوگوں کا دماغ خراب ہے کتنی حلال چیزوں کو انہوں نے حرام کردیا ہے۔ ذبیحہ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ فاسد کون جانور کے جسم سے خارج ہوجائے جو انسانی صحت کے لئے نہایت حد تک مضر ثابت ہے اور جو فاسد خون اس جانور کے اندر ہی رہ گیا وہ جانور حرام قرار دیا گیا تاکہ اس مفاسد سے وہ بچ جائیں اور انہوں نے اس بات کا مذاق اڑایا گویا دراصل بات ان کی اپنی سمجھ میں نہ آئی اور ان بےسمجھوں نے سمجھداروں کو بیوقوف کہہ دیا۔ ان ساری چیزوں کو جن سب کا پیدا کرنے والا ایک اور صرف ایک اللہ تھا ان کم بختوں نے غیر اللہ کی طرف نسبت دے کر جنہوں نے ان میں سے ایک چیز کو پیدا نہیں کیا تھا اپنے فاسد عقیدہ کے تحت حرام کرلیا اور ان حرام کردہ چیزوں کو حرام کہنے والوں پر پھبتیاں کسیں اور ان کو بیوقوف سمجھا۔ فرمایا ” قریب ہے کہ اللہ انہیں ان کی ان تقسیمات کا مزا دے بلاشبہ وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ “
Top