Tafseer-e-Baghwi - Al-Hashr : 17
فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَاۤ اَنَّهُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
فَكَانَ : پس ہوا عَاقِبَتَهُمَآ : ان دونوں کا انجام اَنَّهُمَا : بیشک وہ دونوں فِي النَّارِ : آگ میں خَالِدَيْنِ : وہ ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا ۭ : اس میں وَذٰلِكَ جَزٰٓؤُا : اور یہ جزا، سزا الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں
منافقوں کی مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہتا رہا کہ کافر ہوجا۔ جب وہ کافر ہوگیا تو کہنے لگا کہ مجھے تجھ سے کچھ سروکار نہیں مجھ کو تو خدائے رب العالمین سے ڈر لگتا ہے
16 ۔” کمثل الشیطان “ منافقین کے غرور کی مثال اور بنو نضیر کی مثال شیطان کے رسواہونے کی طرح ہے۔ ” اذقال للانسان اکفر فلما کفر قال انی بری منک “۔ ایک راہب کا قصہ اور کفر پر اس کا انجام ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ایام فطرت (انقطاع نبوت کا زمانہ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سے رسول اللہ ﷺ کی بعثت تک تھا) میں ایک راہب (تارک الدنیا درویش) تھا جس کو برصیصا کہا جاتا ہے۔ ستر برس تک یہ راہب اپنے عبادت خانہ میں اللہ کی عبادت کرتارہا، کبھی ایک لمحہ کے لئے اللہ کی نافرمانی نہیں کی اس کے سلسلہ میں ابلیس اپنی ساری تدبیریں کرکے عاجز آگیا مگر اس کو نہیں بہکا سکا۔ آخر ایک دن اس نے تمام خبیث شیطانوں کو جمع کیا اور کہنے لگا مجھے کوئی بھی اب تک ایسا نہ ملا جو برصیحا کے معاملہ میں میرا کام پورا کردیتا۔ حاضرین میں ایک شیطان ابیض (گورا شیطان) بھی تھا۔ یہ شیطان وہی تھا جو انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ لگارہتا تھا اور جبرئیل (علیہ السلام) کی شکل میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بھی آیا تاکہ برطریق وحی حضور ﷺ کے دل میں وسوسہ پیدا کرسکے۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے اس کو دھکے دے کر ہندوستان کے آخری حصہ تک بھگا دیا تھا۔ اس گورے شیطان نے ابلیس سے کہا میں آپ کا کام پورا کردوں گا۔ چناچہ وہ اس مجلس سے چلا اور راہبوں جیسا لباس پہنا اور وسط سر کے بال مونڈ کر برصیصا کے عبادت خانہ تک جا پہنچا اور (نیچے سے) برصیصا کو آواز دی، برصیصا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ برصیصا دس دن میں صرف ایک دن نماز سے فارغ اور دس ہی دن میں صرف ایک دن روزناغہ کرتا تھا۔ گورے شیطان نے جب دیکھا کہ برصیصا نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا تو برصیصا کی خانقاہ کے نیچے ہی عبادت میں مشغول ہوگیا۔ عبادت سے (مقررہ وقت پر) فارغ ہوکر جب برصیصا نے اپنے عبادت خانے سے جھانک کر دیکھا تو گورے شیطان کو بہترین راہبانہ ہیئت میں نماز میں کھڑا ہوا پایا۔ یہ صورت دیکھ کر اس کا جواب نہ دینے پر اپنے دل میں پشیمانی ہوئی اور کہنے لگے آپ نے مجھے پکارا تھا مگر میں آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوا، آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ؟ گورے شیطان نے کہا : میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کے ساتھ مل کر عبادت کروں اور آپ کے علم و عمل سے بہرہ اندوزہوں اور ہم دونوں عبادت میں لگ جائیں۔ آپ میرے لئے دعا کریں اور میں آپ کے لئے دعا کروں اور میں آپ کے لئے دعا کروں۔ راہب نے کہا میں تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوسکتا اگر تم مومن ہو تو میں عام مومنوں کے لئے جو دعا کرتا ہوں اگر وہ دعا خدا قبول فرمائے گا تو تم کو بھی ان میں شامل کردے گا۔ یہ کہہ کر برصیصا پھر نماز میں متوجہ ہوگیا اور گورے شیطان کو چھوڑدیا۔ گورا شیطان بھی نماز میں مشغول ہوگیا۔ برصیصا نے چلیس روز تک اس کی طرف کوئی التفات نہیں کیا (نماز میں مشغول رہا) چالیس روز کے بعد جب نماز سے فارغ ہوا تو گورے شیطان کو نماز میں کھڑا پایا۔ آخر شیطان کی اتنی سخت کوشش دیکھ کر برصیصا نے پوچھا تمہارا کیا مطلب ہے ؟ گورے شیطان نے کہا، میرا مقصد یہ ہے کہ آپ مجھے اجازت دے دیں۔ میں بھی اوپر آپ کے پاس آجائوں۔ برصیصا نے اجازت دے دی۔ گورا شیطان اوپر برصیصا کے پاس خانقاہ میں آگیا اور اس کے ساتھ ایک سال تک عبادت میں مشغول رہا۔ پورا چلہ ختم ہونے سے پہلے روزہ افطار (ناغہ) نہیں کرتا تھا اور نہ چالیس روز پورے ہونے سے پہلے نماز ختم کرتا تھا اور اکثر دو چلے بھی یونہی گزر جاتے تھے۔ برصیصا نے جب (عبادت میں) اس کی یہ محنت دیکھی تو خود اپنی ذات اس کو حقیر معلوم ہونے لگی اور شیطان کی حالت پر اس کو تعجب ہوا ۔ سال پورا ہوگیا تو گورے شیطان نے برصیصا سے کہا : اب میں جارہا ہوں کیونکہ آپ کے علاوہ میرا ایک ساتھی ہے تو میں اس کے پاس جائوں گا میرا خیال تو یہ تھا کہ آپ اس سے زیادہ عبادت گزار ہوں گے لیکن آپ کے متعلق جو کچھ میں نے سنا تھا آپ کی حالت اس سے غیر پائی۔ یہ بات سن کر برصیصا کو (اپنی محنت کے کم ہونے کی) شدید تکلیف ہوئی اور چونکہ شیطان امراض کی شدید ریاضت دیکھ چکا تھا اس لئے اسکی جدائی راہب پر شاق گزری۔ رخصت ہوتے وقت گورے شیطان نے برصیصا سے کہا مجھے کچھ دعائیں آتی ہیں، میں آپ کو وہ سکھاتا ہوں جس مشغلہ میں آپ ہیں وہ دعائیں اس سے بہتر ہیں۔ آپ ان کو پڑھ کر اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ بیمار کو شفا عطا کرے گا۔ دکھی کو سکھی کردے گا اور آسیب زدہ کو ٹھیک کردے گا۔ رصیصا نے کہا : مجھے یہ مرتبہ پسند نہیں، میرے لئے اپنا ہی مشغلہ (بہت کافی) ہے، مجھے ڈر ہے کہ جب لوگ اس کی خبر پائیں گے تو میری عبادت میں خلل انداز ہوجائیں گے، گورا شیطان برابر اصرار کرتا رہا۔ آخر راہب کو وہ دعائیں سکھا کے چھوڑا۔ اس کے بعد چلا گیا اور ابلیس سے جاکر کہا واللہ ! میں نے اس شخص کو تباہ کردیا، پھر یہاں سے واپس چلا گیا، راستہ میں ایک آدمی ملا۔ اس شیطان نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور طبیب کی ہیئت میں اس شخص کے گھر والوں سے جاکر کہا تمہارے ساتھی کو آسیب (یاجنون کا دورہ) ہے، کیا میں کا علاج کردوں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ! جاکر مریض کو دیکھا اور بولا اس پرچڑیل (جنات کی عورت) کا اثر ہے میں اس پر قابو نہیں پاسکتا، البتہ تم کو ایک ایسے آدمی کا پتہ بتاتا ہوں جو اللہ سے دعا کرکے اس کو اچھا کرسکتا ہے۔ غرض اس نے برصیصا کا پتہ بتادیا اور کہا تم اس کے پاس جائو۔ اس کے پاس اسم اعظم ہے جب وہ اسم اعظم لے کر دعا کرتا ہے تو اللہ قبول کرلیتا ہے۔ لوگ برصیصا کے پاس گئے اور اس سے دعا کرنے کی درخواست کی، اس نے انہی الفاظ سے دعا کردی جو گورے شیطان نے اس کو سکھائے تھے، فوراً مریض پر جس شیطان کا تسلط تھا وہ شیطان بھاگ گیا۔ گورے شیطان نے بہت سے لوگوں سے ایسی ہی حرکت کی اور برصیصا کا پتہ بتاتا رہا اور لوگ اچھے ہوتے رہے۔ ایک بار شیطان ابیض بنی اسرائیل کی کسی شہزادی پر اثر انداز ہوا۔ اس لڑکی کے تین بھائی تھے اور باپ بادشاہ تھا۔ بادشاہ مرگیا اور اپنے بھائی کو اپنا جانشین بنا گیا، لڑکوں کا چچا بادشاہ ہوگیا تو گورا شیطان اس شہزادی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو سخت اذیت دی اور گلا گھونٹ دیا، پھر اس کے بھائیوں کے پاس طبیب کی شکل میں آیا اور بولا : کیا تم چاہتے ہو کہ میں اس کا علاج کردوں ؟ ان لوگوں نے کہا : ہاں ! کہنے لگا ایک بڑا خبیث اس کے درپئے آزار ہے اور مجھ میں اس کو دور کرنے کی طاقت نہیں۔ البتہ ایک شخص کا میں پتہ بتاتا ہوں جس پر تم اعتماد رکھتے ہو، لڑکی کو اس کے پاس لے جائو، جب اس پر وہ خبیث آئے گا اور وہ شخص اس کے لئے دعا کرے گا تو لڑکی اچھی ہوجائے گی۔ تم کو یہ بات معلوم ہوجائے گی اور لڑکی کو بعافیت واپس لے آئو گے۔ لوگوں نے کہا : وہ کون شخص ہے ؟ گورے شیطان نے کہا برصیصا زاہد۔ شہزادوں نے کہا وہ ہماری بات کیسے مانیں گے ان کا مقام تو بہت بلند ہے، شیطان نے کہا اس کی خانقاہ کے برابر ایک اور عبادت خانہ تعمیر کرو ، اتنا اونچا کہ وہاں سے اس کی خانقاہ کے اندر جھانک سکو۔ پھر وہاں سے اپنا مقصد اس سے کہو۔ اگر مان لے تو خیر، نہ مانے تو اپنے تعمیر کردہ عبادت خانہ میں لڑکی کو چھوڑ آئو اور برصیصا سے کہہ دو ، یہ (تمہاری نگرانی میں) ہماری امانت ہے۔ بغرض ثواب اس کی نگرانی رکھنا۔ الحاصل شہزادے برصیصا کی طرف گئے اور اس سے درخواست کی لیکن اس نے انکار کردیا۔ شیطان کے مشورے کے مطابق شہزادوں نے راہب کی خانقاہ کے برابر ایک عبادت خانہ تعمیر کرادیا اور لڑکی کو اس میں رکھ دیا اور راہب سے کہا : یہ ہماری امانت ہے بغرض ثواب اس کی نگرانی رکھنا۔ یہ کہہ کہ واپس آگئے۔ جب (مقررہ ایام گزرنے کے بعد) برصیصا نے نماز ختم کی تو ایک حسین لڑکی پر نظر پڑی اور ایسی نظر پڑی کہ وہ لڑکی اس کے دل نشین ہوگئی اور اس پر بڑی مصیبت آگئی اس کے بعد شیطان نے آکر اس لڑکی کا گلا گھونٹ دیا۔ برصیصا نے اس کے لئے گورے شیطان کی بتائی ہوئی دعائیں کیں، شیطان اتر گیا۔ برصیصا نماز میں مشغول ہوگیا، شیطان نے آکر پھر اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس مرتبہ بیہوشی میں وہ اپنا ستر بھی کھولنے لگی، گورے شیطان نے آکر برصیصا سے کہا، اب تو اس پر جاپڑ، پھر توبہ کرلینا، اللہ گناہ معاف کرنے والا ہے، معاف کردے گا اور تیر ا مقصد پورا ہوجائے گا۔ ردوکد کے بعد برصیصا لڑکی پر جاپڑا اور اس کے بعد مسلسل لڑکی کے پاس جاتا رہا، آخر لڑکی حاملہ ہوگئی اور اس کا حمل نمایاں ہوگیا تو شیطان اس کے پاس آیا اور کہنے لگا : ارے برصیصا تو رسوا ہوگیا، اب مناسب یہ ہے کہ تو لڑکی کو قتل کردے، پھر توبہ کرلینا، اگر وہ لوگ پوچھیں تو کہنا اس کا جن اس کو لے گیا، مجھ میں بچانے کی قدرت نہیں تھی، برصیصا نے لڑکی کو قتل کردیا۔ پھر (رات کو) لے جاکر پہاڑی کے کنارے دفن کردیا۔ دفن کرتے وقت شیطان نے آکر لڑکی کی چادر کا ایک کونہ پکڑلیا۔ اس طرح چادر ایک گوشہ قبر کی مٹی سے باہر رہ گیا۔ برصیصا اپنی خانقاہ میں لوٹ آیا اور نماز میں مشغول ہوگیا، لڑکی کے بھائی اپنی بہن کی خبر گیری کے لئے آئے اور وہ دریافت حال کے لئے آتے رہتے تھے۔ انہوں نے آکر دریافت کیا، برصیصا ہماری بہن کیا ہوئی ؟ برصیصا نے جواب : شیطان آکر اس کو اڑا لے گیا اور مجھ میں بچانے کی قدرت نہیں تھی۔ ان لوگوں نے برصیصا کی بات پر یقین کرلیا، سب لوٹ آئے ۔ شام ہوئی تو بھائی غم زدہ تو تھے ہی سوتے میں شیطان نے بڑے بھائی سے خواب میں کہا کہ برصیصا نے تمہاری بہن کے ساتھ یہ حرکتیں کیں، پھر اس کو فلاں جگہ دفن کردیا۔ اس بھائی نے اپنے دل میں کہا یہ خواب ہے اور شیطانی خیال ہے برصیصا تو بہت بزرگ آدمی ہے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ تین رات برابر شیطان اس کو یہی خواب دکھاتا رہا لیکن اس نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ آخر شیطان خواب میں منجھلے بھائی کے پاس گیا اور اسے بھی یہی بات کہی مگر اس نے بھی وہی خیال کیا جو بڑے بھائی نے کیا تھا اور کسی سے کچھ بیان نہیں کیا۔ آخر میں تیسرے بھائی کے پاس خواب میں جاکر شیطان نے یہی بات کہی اس نے اپنے دونوں بھائیوں سے یہ خواب بیان کردیا۔ منجھلے اور بڑے نے بھی اپنے خواب ظاہر کردیئے۔ پھر تینوں برصیصا کے پاس گئے اور کہا برصیصا ! ہماری بہن کیا ہوئی ؟ برصیصا نے کہا میں تو تم کو پہلے ہی بتاچکا ہوں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم مجھے تہمت زدہ کرنا چاہتے ہو۔ یہ بات سن کر شہزادوں کو اس سے شرم آئی اور کہنے لگے : ہم آپ کو تہمت نہیں دھرتے، یہ کہہ کر لوٹ آئے ، شیطان نے پھر (خواب میں آکر) ان سے کہا : ارے تمہاری بہن تو فلاں مقام پر دفن ہے اور اس کی چادر کا ایک گوشہ قبر کی مٹی سے اوپر نظر آرہا ہے، ان لوگوں نے جاکر دیکھا تو جیسا خواب میں دیکھا تھا ویسا ہی پایا، پھر تو مزدوروں اور غلاموں کو لے کر کسیوں اور کدالوں سے ان لوگوں نے برصیصا کی عبادت خانہ ڈھادیا اور اس کو عبادت خانہ سے اتار کر مشکیں کس کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ ادھر گورے شیطان نے برصیصا سے کہا (تو انکار نہ کرنا) اگر تو نے انکار کیا تو تجھ پر دو جرم عائد ہوجائیں گے ، قتل کا اور پھر انکار قتل کا، برصیصا نے اقرار کرلیا تو بادشاہ نے اس کو قتل کرنے اور سولی چڑھانے کا حکم دے دیا۔ سولی پر چڑھاتے وقت وہی گورا شیطان آیا اور برصیصا سے کہا : کیا تو مجھے پہچانتا ہے ؟ برصیصا نے کہا نہیں، بولا میں وہی ہوں جس نے تجھے دعائیں سکھائی تھیں اور تیری دعائیں قبول ہوئیں، امانت میں خیانت کرتے تجھے خدا سے ڈر نہیں لگا۔ تیرا تو دعویٰ تھا کہ میں تمام بنی اسرائیل سے بڑھ کر عبادت گزار ہوں مگر تجھے شرم نہیں آئی۔ اسی طرح برابر شرم دلاتا رہا۔ پھر آخر میں کہنے لگا کیا جو کچھ تونے کیا وہی کافی نہ تھا کہ تونے اقرار جرم کرلیا اور خود اپنے کو بھی رسوا کیا اور اپنے جیسے دوسرے (عبادت گزار) لوگوں کو بھی رسوا کیا، اگر تو اسی حالت پر مرگیا تو تیری مثال دوسرے (عابد، زاہد) لوگ کبھی فلاح یاب نہیں ہوں گے (ہر ایک عابد کو لوگ مکار، دھوکہ باز کہیں گے) برصیصا نے پوچھا : تو اب میں کیا کروں ؟ کہنے لگا میری ایک بات مان لے اگر وہ بات مان لے گا تو میں تجھے موجودہ حالات سے بچا کرلے جائوں گا۔ میں لوگوں کی نظر بندی کردوں گا اور تجھے اس جگہ سے نکال لے جائوں گا۔ برصیصا نے پوچھا وہ کیا بات ہے ؟ کہنے لگا : بس مجھے سجدہ کرلے۔ برصیصا نے کہا : میں ایسا کرتا ہوں۔ شیطان نے کہا : برصیصا میرا مقصد پورا ہوا میں یہی چاہتا تھا، تیرا انجام یہی ہوا کہ تو کافر ہوگیا، اب میرا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔ ” انی اخاف اللہ رب العلمین “ میں اللہ سے جو رب العالمین ہے ڈرتا ہوں، شیطان نے یہ بات محض دکھاوے کے لئے کہی (سچے دل سے نہیں کہی) کیونکہ خدا کا خوف شیطانوں کی سرشت میں ہی نہیں رکھا گیا ہے۔ اہل تفسیر کے بعض اقوال میں آیا ہے کہ الانسان سے جنس انسان مراد ہے اور جس طرح آمر اپنے مامور کو حکم دے کر کسی کام پر آمادہ کرتا ہے اسی طرح شیطان انسان کو کفر پر برانگیختہ کرتا ہے اور اس اندیشہ سے کہ انسان کے ساتھ (اغوا کرنے کا) اس پر عذاب نہ ہو قیامت کے دن یہ بات کہے گا۔
Top