Urwatul-Wusqaa - Hud : 117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے رَبُّكَ : تیرا رب لِيُهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے وَّاَهْلُهَا : جبکہ وہاں کے لوگ مُصْلِحُوْنَ : نیکو کار
اور یاد رکھو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تھا کہ تمہارا پروردگار آبادیوں کو ناحق ہلاک کر دے اور اس کے باشندے سنوارنے والے ہوں
تمہارا پروردگار کبھی بھی کسی بستی کو ناحق ہلاک نہیں کرتا ۔ 146 فرمایا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تمہارے رب نے کبھی کسی بستی کو ناحق ظلماً ہلاک کیا ہو ، نہ ایسا ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا کہ آپ کا رب شہروں اور بستیوں کو ظلم سے ہلاک کرے جب کہ ان کے بسنے والے نیکو کار ہوں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ظلم و جور کا کوئی امکان نہیں جن کو ہلاک کیا گیا یا آئندہ ہلاک کیا جائے گا وہ اس ہلاکت کے مستحق ہوتے ہیں اور اگر ظلم سے مراد شرک ہو تو آپ اس کو اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محض شرک و کفر کے باعث کبھی کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا جب کہ وہ لوگ معاملات و اخلاق اچھے رکھتے ہوں ، کسی کو نقصان و ایذا نہ پہنچاتے ہوں ، جھوٹ نہ بولتے ہوں ، دھوکا نہ دیتے ہوں اور مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کا عذاب کسی قوم پر محض ان کے مشرک و کافر ہونے کی وجہ سے نہیں آتا جب تک کہ وہ اخلاق و اعمال میں بھی ایسے کام نہ کرنے لگیں جن سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ پچھلی جتنی قوموں پر عذاب آئے ان کے خاص خاص اعمال بد اس کا سبب بنے غور کرو کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے نوح (علیہ السلام) کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں۔ قوم شعیب نے ناپ تول میں کمی کر کے فساد پھیلایا۔ قوم لوط نے بدترین قسم کی بدکاری کو شیوہ بنایا اور اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے بھی اپنے رسولوں پر بےانتہا ظلم ڈھائے۔ قرآن کریم نے دنیا میں ان پر عذاب آنے کا سبب انہی اعمال و اعفال کو بتایا ہے ، نرے کفر و شرک کی وجہ سے دنیا میں عذاب نہیں آتا اس لئے کہ اسکی سزا تو جہنم کی دائمی آگ ہے اسی لئے کہا اجتا ہے کہ ملک و سلطنت کفر و شرک کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن ظلم و جور کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن ایک بات مزید یاد رکھیں کہ کبھی پوری قوم کی قوم یا اس کے سارے وہ لوگ جو ملک و سلطنت چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ظالم ہوجاتے ہیں اور مظلوم خود بھی ان ظالموں کے ظلم میں شریک ہوتے ہیں اس لئے ظاہری طور پر نظام چلتا رہتا ہے کیونکہ اس قوم میں سے جو بھی آے گا وہ ظالم ہی ہوگا اس لئے ایک ظالم کو ہٹا کر دوسرے ظالم کو لانے میں مہلت دی جاتی ہے کہ ظلم تو جاری وساری رہے گا اگرچہ ظالم بدل بھی گیا کیونکہ ظالم کے بدلے میں ظالم ہی آئے گا اس حالت کو اسلام کی زبان میں ” عذاب “ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کسی قوم کو عذاب دینے کے لئے ان پر ظالم حکمران بھیجے جاتے ہیں جو حالت اس وقت اس ملک عزیز کے باسیوں کی ہے کہ اس ملک کے باشندوں کو ان کے کئے کی سزا دینے کے لئے جو حکمران بھی سامنے آتا ہے وہ جانے والے سے زیادہ ظلم کرنے والا ہوتا ہے اور ان ظالموں کا تسلط قوم کو عذاب دینے کے لئے ہے جو عین سنت اللہ کے مطابق ہے۔ کاش کہ یہ بات اس مظلوم قوم ہی کی سمجھ میں آجائے جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ نہ سہی تو کم از کم ترقی پذیر تو کہتی اور سمجھتی ہے۔ ظلم کرنے والے اس راہ پر چلے جس کو انہوں نے آسان پایا ۔ 145 ظلم کرنے والے تو اس راہ پر چلے جس میں انہوں نے اپنی نفس پرستیوں کی آسودگی پائی تھی اور وہ سب احکام حق کے مجرم تھے۔ یعنی ظالموں کو عیش و عشرت کے جو اسباب میسر تھے انیں میں وہ مگن رہے ، انہیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ انہیں ایک دن بزم طرب کو الوداع کہنا ہوگا۔ وہ ان فانی اور ناپائیدار مسرتوں میں ایسے کھوئے رہے اور اس فرحت و سرور کے سلسلہ کو دراز کرنے میں اتنے منہمک رہے کہ انہیں اپنی موت کا دن کبھی یاد نہ آیا اور پھر اچانک اپنے جرموں کی پاداش میں دھر لئے گئے اب ان کی آنکھیں کھلیں لیکن ان کے کھلنے کا کوئی صلہ ان کو نہ ملا۔
Top