Urwatul-Wusqaa - Hud : 41
وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَقَالَ : اور اس نے کہا ارْكَبُوْا : سوار ہوجاؤ فِيْهَا : اس میں بِسْمِ اللّٰهِ : اللہ کے نام سے مَجْرٖ۩ىهَا : اس کا چلنا وَمُرْسٰىهَا : اور اس کا ٹھہرنا اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کہا نوح (علیہ السلام) نے اب کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ کے نام سے اسے چلنا ہے اور اللہ ہی کے نام سے ٹھہرنا ہے ، بلاشبہ میرا پروردگار بخشنے والا رحمت والا ہے
نوح (علیہ السلام) ، آپ (علیہ السلام) کے لوگ سوار ہوگئے اور کشتی اللہ کے نام سے چلنے لگی 57 ؎ اس سے ایک سوال پیدا ہونا ضروری تھا کہ آیا یہ طوفان پوری دنیا پر آیا ہے یا کسی ایک علاقہ میں ؟ پھر اس سے ایک سوال یہ نکلا کہ کیا آپ نے دنیا بھر کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا اپنے ساتھ لیا تھا یا وقتی ضرورت کی چیزوں کا ایک ایک جوڑا ؟ محققین کا جواب یہ ہے کہ طوفان صرف اس علاقہ میں آیا جہاں نوح (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی لیکن زیادہ تر مفسرین کا بیان طوفان کے عالمگیر ہونے کے متعلق ہی ہے لیکن کتاب و سنت سے کوئی ایسی نص پیش نہیں کی جاسکتی جس سے صراحتہ ً اس طوفان کا عالمگیر ہونا ثابت ہو ۔ ہاں ! بعض نے اس آیت سے استدلال کیا ہے ” رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا “ ( اے رب ! زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ) لیکن ” الارض “ سے مراد آپ (علیہ السلام) کی قوم کی زمین بھی مراد لی جاسکتی ہے جیسا کہ فرعون کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہے کہ ” وان فرعون لعال فی الارض “ الارض سے مراد ساری روئے زمین نہیں بلکہ ملک مصر مراد ہے۔ اس طرح ” الکافرین “ بھی حرف بالام ہے یعنی وہ مخصوص کافر جو آپ (علیہ السلام) کی قوم سے متعلق تھے اور آپ (علیہ السلام) ان کو ایک مدت مدیر تک ہدایت کی طرف بلاتے رہے۔ پھر قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی تصریح ملتی ہے کہ آپ (علیہ السلام) کی بعثت تمام عالم کیلئے نہیں تھی بلکہ صرف اپنی قوم کیلئے تھی جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” ولقد ارسلنا تو حا الی قومہ “ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ سر سید (رح) نے اس کی وضاحت نقل کی ہے اور علامہ سید آلوسی (رح) نے بھی لکھا ہے کہ والذی یمیل القلب الیہ ان الطوفان لم یکن عاما ( روح المانی) یعنی دل اس طرف مائل ہے کہ طوفان عام نہیں تھا۔ اس سے اس بات کی وضاحت خود بخود ہوگئی کہ نوح (علیہ السلام) کو دنیا بھر کے حیوانات کشتی میں لے جانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ جانور اپنے ہمراہ لئے ہوں گے جن کی کشتی میں ضرورت تھی یا کشتی سے اتر کر فوری طور پر ضرورت تھی اور جن کو دور دراز کے علاقوں میں سے جو طوفان کی زد سے محفوظ تھے لے آنا مشقت اور تکلیف کا موجب تھا اور امام فخر الدین رازی (رح) بھی سورة المومنون کی آیت 27 کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ای کل زوجین من الحیوان الذی یحضرہ فی الوقت اثنین الذکر الاثنی لکی لا ینقطع نسل ذلک الحوان ( کبیر) ” من کل “ کا لفظ بھی ضرورت ہی کی ہرچیز پر بولا گیا ہے اور اس کا استعمال بھی قرآن کریم میں عام ہے۔ زیر نظر آیت ہی میں کشتی یا سواری کے جانور یا سواری کی ہرچیز پر سوار ہوتے وقت اس کے آداب کی تعلیم بھی فرما دی کہ ” بسم اللہ مجرھا و مرسھا “ کہہ کر سوار ہونا چاہئے ” مجرے “ کے معنی جاری ہونے یا چلنے کے ہیں اور ” مرسیٰ “ کے معنی رکنا اور ٹھہرنا کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کشتی کا چلنا بھی حکم الٰہی سے ہے اور اس ٹھہرنا بھی اس کی قدرت کے تابع ہے اور یہ بھی کہ سواری چلانے والا اپنا کوئی کمال نہ سمجھے بلکہ یہ کمال الٰہی ہے کہ اس نے اس کو عقل بخشی جس سے کام لے کر وہ سواری کی چیز تیار کرسکا اور اس عقل کے ذریعہ اس کو چلا بھی سکا ۔ غور کرو کہ سواری کی چیز میں جو میٹریل استعمال ہوا وہ کس کا بنایا ہوا تھا ؟ یہ لوٹا ، لکڑی ، المونیم اور طرح طرح کی دھاتیں جن سے وہ کام لے رہا ہے کس نے بنائیں ؟ اور وہ کون ہے جس نے ان ساری چیزوں کو جوڑنے اور فٹ کرنے کی صلاحیت عطا کی ؟ یہ نجاری اور لوہار کا کام جو بہت ہی با برکت ہیں ان کی صلاحیت کس نے انسان میں رکھی ؟ ایک ایک سوال کرو اور پھر اپنے ہی ذہن و دماغ سے اس کا فیصلہ کرتے جائو تم کو معلوم ہوگا کہ سارا کمال تو اس ہی ذات رب العالمین کا ہے جس نے انسان کے عقل عطا فرما کر اشرف المخلوقات کا خطاب دیا۔
Top