Tafseer Ibn-e-Kaseer - Hud : 56
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ١ؕ وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ١ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! ضُرِبَ : بیان کی جاتی ہے مَثَلٌ : ایک مثال فَاسْتَمِعُوْا : پس تم سنو لَهٗ : اس کو اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَنْ يَّخْلُقُوْا : ہرگز نہ پیدا کرسکیں گے ذُبَابًا : ایک مکھی وَّلَوِ : خواہ اجْتَمَعُوْا : وہ جمع ہوجائیں لَهٗ : اس کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّسْلُبْهُمُ : ان سے چھین لے الذُّبَابُ : مکھی شَيْئًا : کچھ لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ : نہ چھڑا سکیں گے اسے مِنْهُ : اس سے ضَعُفَ : کمزور (بودا ہے) الطَّالِبُ : چاہنے والا وَالْمَطْلُوْبُ : اور جس کو چاہا
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
کم عقل پجاری اللہ کے ماسوا جن کے عبادت کی جاتی ہے ان کی کمزوری اور ان کے پجاریوں کی کم عقلی بیان ہو رہی ہے کہ اے لوگو یہ جاہل جس جس کی بھی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں، رب کے ساتھ یہ جو شرک کرتے ہیں، ان کی ایک مثال نہایت عمدہ اور بالکل واقعہ کے مطابق بیان ہو رہی ہے ذرا توجہ سے سنو۔ کہ ان کے تمام کے تمام بت، بزرگ وغیرہ جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں، جمع ہوجائیں اور ایک مکھی بنانا چاہیں تو سارے عاجز آجائیں گے اور ایک مکھی بھی پیدا نہ کرسکیں گے۔ مسند احمد کی حدیث قدسی میں فرمان الٰہی ہے اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری طرح کسی کو بنانا چاہتا ہے۔ اگر واقعہ میں کسی کو یہ قدرت حاصل ہے تو ایک ذرہ، ایک مکھی یا ایک دانہ اناج کا ہی خود بنادیں۔ بخاری ومسلم میں الفاظ یوں ہیں کہ وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادیں۔ اچھا اور بھی ان کے معبودان باطل کی کمزوری اور ناتوانی سنو کہ یہ ایک مکھی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے وہ ان کا حق ان کی چیز ان سے چھینے چلی جارہی ہے، یہ بےبس ہیں، یہ بھی تو نہیں کرسکتے کہ اس سے اپنی چیز ہی واپس لے لیں بھلا مکھی جیسی حقیر اور کمزور مخلوق سے بھی جو اپنا حق نہ لے سکے اس سے بھی زیادہ کمزور، بودا ضعیف ناتوان بےبس اور گرا پڑا کوئی اور ہوسکتا ہے ؟ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں طالب سے مراد بت اور مطلوب سے مراد مکھی ہے۔ امام ابن جریر ؒ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور ظاہر لفظوں سے بھی یہی ظاہر ہے دوسرا مطلب یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ طالب سے مراد عابد اور مطلوب سے مراد اللہ کے سوا اور معبود۔ اللہ کی قدروعظمت ہی ان کے دلوں میں نہیں رچی اگر ایسا ہوتا تو اتنے بڑے توانا اللہ کے ساتھ ایسی ذلیل مخلوق کو کیوں شریک کرلیتے۔ جو مکھی اڑانے کی بھی قدرت نہیں رکھتی جیسے مشرکین قریش کے بت تھے۔ اللہ اپنی قدرت وقوت میں یکتا ہے تمام چیزیں بےنمونہ سب سے پہلی پیدائش میں اس نے پیدا کردی ہیں کسی ایک سے بھی مدد لیے بغیر پھر سب کو ہلاک کرکے دوبارہ اس سے بھی زیادہ آسانی سے پیدا کرنے پر قادر ہے۔ وہ بڑی مضبوط پکڑ والا، ابتدا اور اعادہ کرنے والا، رزق دینے والا، اور بےانداز قوت رکھنے والا ہے، سب کچھ اس کے سامنے پست ہے، کوئی اس کے ارادے کو بدلنے والا، اس کے فرمان کو ٹالنے والا اس کی عظمت اور سلطنت کا مقابلہ کرنے والا نہیں، وہ واحد قہار ہے۔
Top