Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 124
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں جُعِلَ : مقرر کیا گیا السَّبْتُ : ہفتہ کا دن عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَيَحْكُمُ : البتہ فیصلہ کریگا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
{ سَبَت } منانے کا حکم تو صرف انہیں لوگوں کو دیا گیا تھا جو اس بارے میں اختلاف کرنے لگے تھے اور بلاشبہ تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا کہ جن جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے
سبت میں اختلاف کرنے والوں کا فیصلہ اب قیامت کے روز ہی ہوگا : 138۔ سبت والوں سے مراد کیا ہے ؟ اس سے مراد یہود ہیں اور اس امر کی وضاحت خود قرآن کریم نے دوسری جگہ کردی ہے تفصیل اس کی سورة الاعراف کی آیت 163 میں ہے اگرچہ اس کا مختصر بیان سورة البقرہ کی آیت 65 میں اور سورة النساء کی آیت 48 اور 154 میں اور سورة الاعراف کی آیت 163 میں اور زیر نظر آیت میں موجود ہے ۔ (السبت) سبت کے اصل معنی قطع عمل کے ہیں اور امام راغب نے یہی مراد لئے ہیں کہ ترک العمل فیہ ” اس دن کام کا ترک کرنا “ اور پھر اس کے معنی مدت یا زمانہ کے بھی لئے گئے ہیں خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ۔ اس جگہ اس کے ذکر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پیچھے حلت و حرمت کا ذکر چل رہا تھا اور قرآن کریم کا دعوی یہ تھا کہ میں وہی پیغام ہوں جو اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) دے چکے اور اس پر اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ پیغام اور دعوت ایک ہی ہے تو یہود بھی ملت ابراہیمی ہی کے دعویدار ہیں جب یہود کے لئے سبت کے دن کا شکار منع اور حرام ہے تو پھر قرآن کریم اس سے نہیں روکتا ؟ گویا ایک طرح یہ سوال کرنے والوں کا اعتراض تھا کہ اگر یہ دعوت وہی دعوت ہوتی جیسا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا کہنا ہے اور قرآن کریم اس سلسلہ میں تصریح کرتا ہے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس دن کے شکار یا دوسرے کاروبار زندگی کو اسلام نے منع نہ کیا گویا یہ دعوی باطل ہے ، قرآن کریم ان کی تفہیم کرانا چاہتا ہے کہ یہ تم لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے بات کچھ ہے اور تم اس کو کچھ سمجھ رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کو جو اس سے روکا گیا تھا تو اس لئے نہیں کہ سبت کے دن اگر حلال جانور کا شکار کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے بلکہ یہ ان کے اختلاف اور عدم اطاعت کی ایک سزا تھی اس کی مثال یوں سمجھو کہ اسلام نے دن رات میں مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور ان کے فرضوں کی تعداد بھی مقرر کردی ہے اور اوقات بھی بتا دئیے ہیں لیکن ان سب کی وضاحت قرآن کریم میں بیان نہیں کی گئی بلکہ اس کو پیغام دینے والے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ پر چھوڑ دیا گیا ہے اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ نماز کا مفہوم ہی بدل کر کچھ اور کر دے اور اوقات کو بھی اس طرح تسلیم نہ کرے ‘ ادائیگی کا طریقہ بھی نہ مانے اور اپنے آپ کو نماز کا پابند بھی قرار دے تو اس کو کیا کہیں گے ؟ اور اس کو کوئی سزا بھی نہ دی جائے گی تو آخر کیوں ؟ یہی بات یہود کی تھی وہ فی نفسہ السبت کو مانتے تھے لیکن اس کی عجیب طریقہ سے تاویل کرتے تھے اور اس تاویل کے باعث ان پر شکار ممنوع کیا گیا گویا یہ ان کو ان کے فعل کی سزا دی گئی اور جو بات یا کام سزا کے طور پر کیا جائے وہ فرائض کے ضمن میں نہیں آتا جو سارے معاشرے کے لئے ضروری قرار دیئے گئے ہوں بلکہ اس ممانعت کی ایک علت ہوتی ہے اور جب وہ علت نہ رہے تو اس کا حکم خودبخود ختم ہوجاتا ہے ، ان کو جواب دیا جا رہا ہے کہ یہود نے جب احکام سبت کی تعمیل نہ کی اور حیلے بہانے نکال کر شکار کرنے لگے تو سزاء ان پر سبت کے شکار کا گوشت ممنوع قرار دیا گیا نہ کہ فی نفسہ اس گوشت کو حرام ٹھہرایا گیا چناچہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ یہ ان لوگوں کے اختلاف کے باعث ہے حالانکہ اس اختلاف کی کوئی دلیل ان کے پاس موجود نہیں تھی اور جس اختلاف پر کسی کے پاس کوئی دلیل بھی موجود نہ ہو اور وہ اپنے اختلاف کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو گویا وہ نہ دلیل دیتا ہے اور نہ ہی کسی کی دلیل کو قبول کرتا ہے تو اس اختلاف کے ختم ہونے کی کوئی صورت ہے ؟ ہرگز نہیں نہ کوئی صورت اس وقت تھی نہ آج ہے اور نہ رہتی دنیا تک اس کی کوئی صورت بنے گی ۔ اسلام نے ہمیشہ جو حکم دیا ہے اس پر دلیل بھی پیش کی ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیا جس کی دلیل وہ نہ رکھتا ہو اور اسی لئے جو لوگ کوئی کام اور عمل کرتے ہیں ان سے وہ دلیل طلب کرتا ہے لیکن ان کے پاس کوئی دلیل ہو تو وہ پیش کریں ان کی دلیل تو صرف یہ ہے کہ یہ کام اور یہ عمل ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے اور ان کی اس دلیل کو کبھی قرآن کریم نے دلیل تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کو باور کرایا کہ بیوقوفو ! یہ بھی کوئی دلیل ہے کسی کا باپ دادا چور ہو تو کیا اس کے لئے چوری جائز ہوجائے گی اور کسی کا باپ دادا ڈاکو ہو تو کیا اس کے لئے ڈاکہ جائز قرار پائے گا ، جس کا باپ دادا نماز نہ پڑھے کیا اس کے لئے نماز پڑھنا حرام قرار پائے گی علی ہذا القیاس ان کو کہا گیا کہ یہ دلیل تمہاری کوئی دلیل نہیں دلیل اس کو کہتے ہیں کہ تمہارے پاس تورات ہے اہل انجیل کے پاس انجیل ہے دوسرے صحائف ہیں ان میں سے کسی نبی نے کوئی ایسا حکم دیا ہے کسی نبی ورسول کو کبھی اللہ نے ایسا حکم دیا تھا تو بطور دلیل پیش کرو اگر یہ نہیں تو کم از کم عقل وفکر کی بات تو کرو تاکہ اس کسوٹی پر اس کو پرکھ لیا جائے لیکن انکے پاس نہ دلیل تھی نہ انہوں نے پیش کی اور نہ ہی اپنے فعل وعمل سے باز آئے اس لئے ان کو کہا گیا کہ اچھا اس کا فیصلہ پھر قیامت ہی کے روز کیا جائے گا اگرچہ وہ کسی فریق کے لئے بھی مفید ثابت نہ ہو اور تم کو پتہ چل جائے گا کہ ایسی من گھڑت باتوں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔
Top