Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 17
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس جو يَّخْلُقُ : پیدا کرے كَمَنْ : اس جیسا جو لَّا يَخْلُقُ : پیدا نہیں کرتا اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا۔ پس تم غور نہیں کرتے
پھر بتلاؤ کیا دونوں ہستیاں برابر ہیں ؟ وہ جو پیدا کرتی ہے اور وہ جو کچھ پیدا نہیں کرتی ؟ پھر کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں ؟
تفسیر : کیا پیدا کرنے والا اور نہ پیدا کرنے والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ : 22۔ (آیت) ” افمن یخلق “۔ کیا وہ شخص جو پیدا کرتا ہے (آیت) ” کمن لا یخلق “۔ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو پیدا نہیں کرتا۔ (آیت) ” خلق “۔ آفرینش ‘ پیدائش ‘ بنانا ‘ پیدا کرنا اصل میں تو (آیت) ” خلق “۔ کے معنی تقدیر مستقیم یعنی صحیح اندازہ ٹھہرانے کے ہیں اور اس کا استعمال کسی چیز کے بغیر نمونہ اور پیروی کے ایجاد کرنے کے ہیں جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” خلق السموت والارض “۔ اس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو “ اس جگہ (خلق) کا استعمال ابداع یعنی بےمثال اور بےنمونہ سابق بنانے کے لئے ہوا جیسا کہ (آیت) ” بدیع السموت والارض “۔ بغیر کسی میڑیل کے بنانے والا آسمانوں اور زمین کا “ اس بات پر دلالت کر رہی ہے نیز ایک شے کے دوسری شے سے بنانے اور ایجاد کرنے کے معنی میں آتا ہے جیسے (آیت) ” خلقکم من نفس واحدۃ “۔ ” اس نے تم کو نفس واحدہ سے پیدا کیا “ اور اسی طرح یہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” خلق الانسان من نطفۃ “۔ ” انسان کو اس نے نطفہ سے بنایا۔ “ (خلق) بمعنی ابداع ذات باری کی مخصوص صفت ہے اس میں کسی کو شریک کرنا باذن اللہ کہہ کر یا ایسے ہی ہر حال میں شرک ہے اور اس صفت میں ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” افمن تخلق کمن لا یخلق “۔ جو زیر نظر آیت میں آیا ہے ” کیا پس جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہوجائے گا جو کچھ پیدا نہیں کرتا ۔ “ اس آیت میں اس فرق کو واضح کیا گیا ہے اور عام لوگوں کے لئے جو (خلق) کا استعمال ہوتا ہے تو وہ صرف دو معنی ہی کے لئے ہوتا ہے ، ایک اندازہ کرنے کے لئے اور دوسرے جھوٹ گھڑنے کے لئے ، پہلے کی مثال (آیت) ” تخلق من الطین کھیئۃ الطیر “۔ ہے اور دوسرے کی مثال (آیت) ” وتخلقون افکا “۔ (العنکبوت : 17) سے دی جاسکتی ہے چناچہ کلام کی صفت میں جہاں (خلق) کا لفظ آئے گا اس سے جھوٹ ہی مراد ہوگا ۔ امام راغب لکھتے ہیں ۔ کہ ومن ھذا الوجہ امتنع کثیر من الناس من اطلاقہ لفظ الخلق علی القران اسی وجہ سے بہت سے لوگ قرآن کریم کے متعلق (خلق) کا لفظ استعمال کرنے سے رک گئے اور آیت کریمہ (آیت) ” فتبرک اللہ احسن الخالقین “۔ ” بڑی برکت والی ذات اللہ کی ہے جو سب سے بہتر بنانے والا ہے “۔ میں (خلق) کا استعمال اندازہ کرنے اور صورت گری کے معنی میں ہے ابداع ایجاد کے معنوں میں نہیں ہے اور آیہ کریمہ (آیت) ” ولا امرنھم فلیغیرن خلق اللہ “۔ اور میں ان کو حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی خلق کو بدلیں “ اس جگہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حسن بصری (رح) ، قتادہ (رح) ، سعید بن المسیب (رح) اور ضحاک (رح) نے (خلق اللہ) کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے یعنی دین کی وضع جو اللہ نے رکھی ہے اسے بدل کر وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیں گے اور عکرمہ (رح) اور بہت سے دوسرے مفسرین نے (خلق اللہ) کی تبدیلی سے صورت بدلنا مراد لیا ہے مثلا فقی کرنا یا ہونا ‘ بدن گودنا اور کان چیرنا (معالم التنزیل ج اول ص 499 طبع مصر) اس طرح (آیت) ” لا تبدیل لخلق اللہ “۔ ” اللہ کی پیدائش کو مت بدلو “ میں بعض نے (خلق اللہ) سے قضا وقدر الہی مراد لی ہے اور بعض نے احکام ملت اور بعض نے تبدیلی خلقت اور (خلق) کا استعمال بمعنی مخلوق بھی ہوتا ہے (خلق) اور (خلق) اصل میں دونوں ایک ہی ہیں جیسے شرب اور شرب اور صرم اور صرم مگر اتنا فرق ہے کہ (خلق) کا استعمال خلقت کے لئے مخصوص ہے اور (خلق) کا عادت وخصلت کے لئے ۔ ہم نے اس جگہ (خلق) کے سارے احتمالات بیان کردیئے ہیں جس سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ (خلق) کے مادہ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے سب کے سامنے آجائیں اور وہ اس کے معنی متعین کرنے میں غلطی نہ کریں اور خصوصا یہ کہ جو (خلق) غیر اللہ کے لئے ممنوع ہے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ (آیت) ” خلق کل شیء “ کہنے کے باوجود دوسروں کو اس کا شریک نہ ٹھہراتے رہیں خصوصا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو پرندوں اور چمگادڑوں کا خالق تصور کرتے ہیں اس سے پرہیز کریں اور جو معنی وہاں فٹ ہوتے ہیں ان سے تجاوز نہ کریں ، قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ : (آیت) ” الذی لہ ملک السموت والارض ولم یتخذ ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا واتخذوا من دونہ الھۃ لا یخلقون شیئا وھم یخلقون ولا یملکون لانفسھم ضرا ولا نفعا ولا یملکون موتا ولا حیوۃ ولا نشورا “۔ (الفرقان : 25 : 2 ‘ 3) ” اللہ وہ ذات ہے جو زمین میں اور آسمانوں میں بادشاہت کا مالک ہے ‘ جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے ، جس نے ہرچیز کو پیدا کیا ہے پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی ہے اور لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لئے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں جو خود اپنے لئے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں نہ مرے ہوؤں کو پھر اٹھا سکتے ہیں “۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ نہ تو اس سے کسی کا کوئی نسبی تعلق ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو اپنی متبنی بنایا ہے کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو ، اس کی ذات یکتائے محض ہے ‘ کوئی اس کا ہم جنس نہیں اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گئے ہوں ، اس لئے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں یا جنوں یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا ہو ، اس طرح وہ لوگ بھی نری جہالت وگمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے ” بیٹا بنا لینے “ کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہے ‘ کجا کہ یہ ایک امر واقعی ہو ، جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہی کی برتری کا تصور کرنے سے عاجز تھے ، انہوں نے اس ذات بےبہا وبے نیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں یا متبنی بنانے کی اس لئے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو ، یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تبنیت کا خیال پیدا ہوتا ہے اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے ۔ دوسری بات جو یہاں واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ، یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے اس لئے کہ انسان جس کو معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ، بےزور اور بےاثر ہستیوں کو ملجاوماوی بنانے کے لئے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا ، اب اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجزو ونیاز کے لئے جھکے گی ‘ نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لئے بڑھے گا ‘ نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا والتجا کے لئے کھلے گی اور نہ ہی دنیا کے کسی نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی اطاعت و بندگی بجا لائے یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ، اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ ” آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لئے ہے ۔ “ ” لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لئے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں ۔ “ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہرچیز کو وجود بخشا ہے بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لئے صورت ‘ جسامت ‘ قوت و استعداد ‘ اوصاف وخصائص ‘ کام اور کام کا طریق ‘ بقاء کی مدت ‘ عروج وارتقاء کی حد او دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں اور پھر اس نے عالم وجود میں وہ اسباب ووسائل اور مواقع پیدا کئے ہیں جن کی بدولت ہرچیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔ اس ایک ہی آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ کر رکھ دی گئی اور ان چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کے احاطہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ کان النبی ﷺ اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھذہ الایہ کہ نبی کریم ﷺ کا یہ قاعدہ تھا کہ آپ ﷺ کے خاندان میں جب کسی بچہ کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ ﷺ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ۔ (عبدالرزاق ‘ ابن ابی شہبن بروایت غمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ) بس آپ بھی صرف اس ایک آیت پر بار بار غور کریں کہ اس کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” اللہ کا بیٹا “ جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور ” جبرئیل کا بیٹا “ جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت کا خیال ہے اور پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کو پرندوں کا خالق قرار دینا جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے اور اس طرح باذن اللہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خالق قرار دینا جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت کا خیال ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا مردوں کو زندہ کرنا جیسا کہ عیسائیون کا خیال ہے اور مردوں کو باذن اللہ زندہ کرنا جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ کوئی گنجائش رہ جاتی ہے اور پھر تعجب ہے کہ ان آیات کو بھی مسلمان پڑھتے جاتے ہیں اور اس طرح کے عقائد کا بھی پرچار کئے جاتے ہیں اور اس طرح اسلام اور شرک کا ایک آمیزہ تیار کرکے قوم کے سامنے پیش کرتے اور قوم ہے کہ تقلیدا اس کو مانتی ہی چلی جاتی ہے ، اس کی تفصیل ہم قبل ازیں عروۃ الوثقی جلد دوم تفسیر سورة آل عمران کی آیت 49 میں حاشیہ 115 کے تحت بیان کرچکے ہیں ، وہاں ملاحظہ فرما لیں ۔
Top