Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 33
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّكَ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
هَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْ : یہ کہ تَاْتِيَهُمُ : ان کے پاس آئیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے اَمْرُ : حکم رَبِّكَ : تیرا رب كَذٰلِكَ : ایسا ہی فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے وَ : اور مَا ظَلَمَهُمُ : نہیں ظلم کیا ان پر اللّٰهُ : اللہ وَلٰكِنْ : اور بلکہ كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
یہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں تو اس بات کے سوا اور کونسی بات اب باقی رہ گئی ہے کہ فرشتے ان پر اتر آئیں یا تیرے پروردگار کا کلمہ ظہور میں آجائے ؟ ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے تھے
مشرک لوگ اب کس چیز کے انتظار میں ہیں کیا ان کے پاس فرشتے آئیں گے ؟ : 39۔ اے پیغمبر اسلام ! آپ نے ان کو سمجھانے میں اب کونسی کسر چھوڑی ہے جس کو کوئی دوسرا آکر پورا کرے گا ، کیا روشن دلائل نے انکے شک وشبہ کی ساری تاریکیوں کا خاتمہ نہیں کہا ؟ جب نبوت کا آفتاب ہدایت جگمگا رہا ہے تو یہ لوگ پھر کیوں ایمان نہیں لاتے کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ موت کا فرشتہ آئے اور ان کی روح نکال کرلے جائے یا عذاب الہی اترے اور ان کو خاک سیاہ بنا کر رکھ دے کتنے نادان ہیں یہ لوگ جو اب بھی ہدایت کو قبول نہیں کرتے ، سچ ہے کہ ” لاتوں کے بھوت باتوں کو نہیں مانتے “۔ جو یہ کہہ رہے ہیں ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کہا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں : 40۔ یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں کوئی نئی بات نہیں بالکل ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کہا تھا جو ان سے پہلے تھے پھر کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا انجام کیا ہوا تھا ؟ ان پر اللہ نے تو ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ کود ہی تو اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے ، لوگوں کا یہ کہنا آج سے نہیں بلکہ ایک مدت سے ہے کہ اگر اسلام سچا ہے تو ہم جو اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں تو پھر ہم تباہ وبرباد کیوں نہیں ہوتے ؟ ان کا یہ سوال و جواب پیچھے سورة بقرہ کی 210 آیت میں گزر چکا ہے ، وہاں فرمایا تھا کہ (آیت) ” ان یاتیھم اللہ فی ضلل من الغمام “۔ اور اس جگہ فرمایا گیا ہے کہ (آیت) ” اویاتی امر ربک “۔ اور ان الفاظ نے کہ (آیت) ” کذلک فعل الذین من قبلھم “۔ اس کی اور بھی تشریح کردی ہے کہ اس طرح پہلے لوگوں نے بھی کہا کیونکہ پہلے لوگ بھی حق کی مخالفت کر کے عذاب استیصال مانگتے تھے یہ مانگنا ان کا منہ سے ہو یا اپنے افعال سے ظاہر ہے کہ اللہ کے آنے سے مراد اس کا خود آنا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ آنے جانے سے پاک ہے بلکہ اس کے آنے سے مراد اس کی سزا کا آنا ہے جس سے کفار کی کوششیں اسلام کے خلاف نیست ونابود ہوجائیں اور مسلمان مظفر ومنصور ہوں جیسا کہ سورة الحشر میں ہے کہ (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا “۔ (الحشر 59 : 2) اللہ ان کے پاس ایسی طرف سے آیا جدھر سے اس کو گمان بھی نہ تھا حالانکہ وہاں ذکر سزائے استیصال کا ہے جیسا کہ پہلے الفاظ سے ظاہر ہے ، اسی طرح اس آیت میں یہود کے مدینہ سے نکالے جانے کو یعنی استیصال اور اسلام کے خلاف ان کی کوشش کے نابود کردینے کو اللہ کے آنے سے تعبیر کیا ہے اور یہی مراد اس جگہ بھی ہے یعنی اللہ کے آنے سے مراد اس امر الہی کا آنا ہے جو ان کی مخالفت کا استیصال کلی کردے (آیت) ” وما ظلمھم اللہ “ ان پر اللہ نے ظلم نہیں کیا تھا (آیت) ” ولکن کانوا انفسھم یظلمون “۔ بلکہ وہ آپ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے کہ انہوں نے کفر وعناد پر اصرار کیا تھا جس کے عوض میں انہیں بھی سزا ملنا ضروری تھی اور وہ مل کر ہی رہی ۔
Top