Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 99
اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيْسَ : نہیں لَهٗ : اسکے لیے سُلْطٰنٌ : کوئی زور عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَلٰي رَبِّهِمْ : اور اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : وہ بھروسہ کرتے ہیں
جو لوگ ایمان والے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان پر اس کا زور چلے
اللہ پر بھروسہ رکھنے والوں پر شیطان کا غلبہ نہیں ہو سکتا : 113۔ زیر نظر آیت نے یہ بات واضح کردی کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ایسی قوت نہیں دی کہ وہ کسی بھی انسان کو برائی پر مجبور اور بےاختیار کر دے بلکہ انسان خود اپنے اختیار وقدرت یا کسی غرض نفسانی سے استعمال نہ کرے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے اس لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے اعمال واحوال میں اپنی نفس و خواہشات کی بجائے رضائے الہی کے طالب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہی ہر خیر کی توفیق اور ہر شر سے بچانے والا ہے اور یہی لوگ ہیں کہ ان پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا ، اس جگہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ کیا چیز ہے ؟ بھروسہ توکل کا معنی ہے اگرچہ وہ توکل کا لفظ بھی اردو زبان میں استعمال ہوتا ہے تاہم توکل ہی کا دوسرا نام بھروسہ سمجھنا چاہئے ، اس لئے جو معنی ومفہوم ” توکل “ کے ہیں وہی بھروسہ کے ہوں گے ، اس جگہ لفظ (متوکلون) استعمال ہوا ہے جو متوکل کی جمع ہے یعنی توکل اختیار کرنے والے ، قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ لفظ اکثر بولا گیا ہے ، عام لوگ اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں یا ان کو یہ معنی سمجھائے گئے ہیں کہ کسی کام کے لئے کوئی جدوجہد اور کوشش نہ کی جائے بلکہ چپ چاپ ہاتھ پاؤں توڑے کسی حجرہ یا خانقاہ میں بیٹھ رہا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اللہ میاں کو جو کچھ کرنا ہے وہ خود ہی کر دے گا اور تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا ‘ اسباب اور تدبیر کی کوئی ضرورت نہیں ‘ لیکن یہ سراسر وہم ہے اور مذہبی اپاہجوں اور کو ڑھوں کا دل خوش کن فلسفہ ہے جس کو اسلام سے ذرہ بھر بھی کوئی تعلق یا نسبت نہیں۔ توکل کے لفظی معنی بھروسہ کرنے کے ہیں اور اصلاح میں اللہ پر بھروسہ کرنے کو کہتے ہیں لیکن کسی بات میں بھروسہ کرنا ‘ کسی کام کے نہ کرنے میں ؟ جھوٹے صوفیوں اور مولویوں نے ترک عمل ‘ اسباب اور تدبیر سے بےپروائی اور خود کرکے دوسرے کے سہارے جینے کا نام توکل رکھا ہے حالانکہ نام ہے کسی کام کو پورے ارادہ وعزم اور تدبیر و کوشش کے ساتھ انجام دینے اور یقین رکھنے کا کہ اگر اس کام میں بھلائی ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں ضروری ہم کو کامیاب فرمائے گا ، اگر تدبیر اور جدوجہد اور کوشش کا ترک ہی توکل ہوتا تو دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو مبعوث نہ کرتا اور ان کو دینی تبلیغ رسالت کے لئے جدوجہد اور سعی و کوشش کی تاکید فرماتا اور نہ اس راہ میں جان ومال کی قربانی کا حکم دیتا ‘ نہ بدر واحد اور خندق وحنین میں سواروں ‘ تیراندازوں ‘ زرہ پوشوں اور تیغ آزماؤں کی ضرورت پڑتی اور نہ رسول کو ایک ایک قبیلہ کے پاس جا جا کر حق کا پیغام سنانے کی حاجت ہوتی ۔ یاد رہے کہ توکل مسلمانوں کی کامیابی کا اہم راز ہے حکم ہوتا ہے کہ جب لڑائی یا کوئی مشکل کام پیش آئے تو سب سے پہلے اس کے متعلق لوگوں سے مشورہ لے لو ‘ مشورہ کے بعد جب رائے ایک نقطہ پر ٹھہر جائے تو اس کے انجام دینے کا عزم کرلو اور اس عزم کے بعد کام کو پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ کرنا شروع کر دو اور اللہ پر بھروسہ اور توکل رکھو کہ وہ تمہارے کام کا حسب خواہ نتیجہ پیدا کرے گا اگر ایسا نتیجہ نہ نکلے تو اس کو اللہ کی حکمت ومصلحت اور مشیت الہی سمجھو اور اس سے مایوس ہرگز نہ ہو اور جب نتیجہ خاطر خواہ نکلے تو یہ غرور نہ ہو کہ یہ تمہاری تدبیر اور جدوجہد کا نتیجہ ہے بلکہ یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل و کرم ہوا اور اسی نے تم کو کامیاب اور بامراد کیا اس کی تفصیل ہم سورة آل عمران کی آیت 17 میں اور سورة النساء کی آیت 81 میں کر آئے ہیں وہاں ملاحظہ کریں ۔
Top