Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 99
اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيْسَ : نہیں لَهٗ : اسکے لیے سُلْطٰنٌ : کوئی زور عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَلٰي رَبِّهِمْ : اور اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : وہ بھروسہ کرتے ہیں
کہ جو مومن ہیں اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اُن پر اس کا کچھ زور نہیں چلتا
ان لیس لہ سلطن علی الذین امنوا وعلی ربھم یتوکلون یقیناً شیطان کا قابو ان لوگوں پر نہیں جو ایمان دار ہیں اور اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ پر بھروسہ رکھنے والے مؤمن احکام شیطانی پر نہیں چلتے ‘ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ہاں ‘ کبھی غفلت کی حالت میں بعض معمولی حقیر وسوسے ان کے دلوں میں پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ ان وسوسوں کو قبول بھی کرلیتے ہیں ‘ اسی لئے ان کو تعوذ کا حکم دیا گیا۔ آیت بالا میں تعوذ کا حکم دیا تھا جس سے یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ شیطان کو اہل ایمان پر کوئی تسلط حاصل ہے ‘ اس خیال کی نفی اس آیت میں کردی ہے۔ کذا قال البیضاوی۔ میں کہتا ہوں : یہ آیت گزشتہ آیت کی علت بھی ہوسکتی ہے۔ مؤمن اللہ ہی سے استعاذہ اسلئے کرتے ہیں کہ ان کا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہوتا ہے ‘ اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اسی کی پناہ میں دے دیتے ہیں۔ اللہ کی طرف رجوع اور اسی پر بھروسہ رکھنا مؤمن مخلص کا خصوصی وصف ہے جو ہر مؤمن کے ساتھ ہر وقت رہتا ہے۔ زبان سے تعوذ کرنے کا حکم تو سنت دعا کی تکمیل کیلئے ہے تاکہ ظاہر بھی باطن کے موافق ہوجائے اور شیطان سے پوری پوری امان حاصل ہوجائے۔
Top