Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 14
اِقْرَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ
اِقْرَاْ : پڑھ لے كِتٰبَكَ : اپنی کتاب (نامہ اعمال) كَفٰى : کافی ہے بِنَفْسِكَ : تو خود الْيَوْمَ : آج عَلَيْكَ : اپنے اوپر حَسِيْبًا : حساب لینے والا
اپنا نامہ اعمال پڑھ لے ، آج کے دن خود تیرا وجود ہی تیرے احتساب کے لیے بس کرتا ہے
انسان کا ہر عمل وفعل صحیفہ عالم پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوجاتا ہے : 18۔ نامہ اعمال کیا ہے ؟ اعمال کے نتیجہ کا دوسرا نام ہے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو چیز بھی ایک دفعہ پیدا ہوتی ہے پھر وہ مکمل طور پر فنا نہیں ہوتی اسی طرح افعال و اعمال بھی جو انسان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں وہ فنا نہیں ہوتے ، موجودہ سائنس جس نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے کہ دنیا میں کوئی حرکت بھی پیدا ہو کر فنا نہیں ہوتی یہاں تک کہ فضا میں ہر آواز ہر صدا جو کبھی بلند ہوئی ہے آج موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اگر ہم اس کو پکڑ پائیں تو سن سکتے ہیں ۔ وہ افعال و اعمال کے دوام ووجود سے اسلامی عقیدہ کو قبول کرنے میں پس وپیش نہیں کرسکتی ‘ دنیا کے ریکارڈ میں انسان کا ہر عمل وفعل ہمیشہ کے لئے بھرا گیا ہے جو ہمیشہ محفوظ رہے گا ، قرآن کریم میں متعدد جگہ متعدد طریقوں سے یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مثلا ۔ ” پس اس دن ہر آدمی جان لے گا کہ جو کچھ پہلے کرچکا ہے اس کی حقیقت کیا تھی ؟ سب اللہ کے حضور کہ ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور حقیقت کے خلاف جس قدر افتراء پردازیاں کرتے رہے ہیں سب ان سے کھوئی جائیں گی ۔ “ (یونس 1 : 30) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ہر شخص اپنے اعمال کی پاداش میں گرفتار ہوگا ۔ “ (الطور 52 : 21) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ہر شخص اپنے اعمال کے وبال میں مبتلا ہے ۔ “ (المدثر 74 : 38) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پس جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہوگی وہ (بھی) اسے دیکھ لے گا ۔ “ (الزلزال 99 : 7 ، 8) ” جس دن ہر انسان دیکھے گا کہ جو کچھ اس نے نیک عمل کیا تھا اس کے سامنے موجود ہے اور جو کچھ برائی کی تھی وہ بھی اس کے سامنے ہے “ (آل عمران 3 : 30) ایک جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا کہ : ” جب دو لینے والے داہنے اور بائیں بیٹھے لیتے جاتے ہیں ۔ انسان کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا مگر یہ کہ اس کے پاس ایک نگہبان تیار رہتا ہے ۔ (ق 50 : 17 ، 18) زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ” کسی اور کو ضرورت ہی نہیں کہ تجھے تیرے اعمال گنا دے اپنا نامہ خود پڑھ لے اور آج تو اپنا حساب کرنے کے لئے خود ہی کافی ہوگا ۔ “ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے کئے پر خود ہی نگاہ ڈالتا رہے اور پھر اپنے ہی دل سے پوچھے کہ اس میں تو نے کتنا غلط کیا اور کتنا صحیح کیا پھر جس کے غلط ہونے پر دل گواہی دے اس کی اصلاح کرتا رہے تاکہ آنے والے کل اس کو شرمندگی نہ ہو ۔ اقبال مرحوم نے کیا ہی پرایہ بیان اختیار کیا ہے اگر آپ کو خلاف ادب نہ لگے ۔ روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل : آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر : مزید تفیلش کے لئے سورة یونس کی آیت 30 اور آیت 61 عروۃ الوثقی جلد چہارم ملاحظہ فرمائیں ۔
Top