Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ : جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اپنے اوپر (اپنے بڑے کو) وَلَا تَزِرُ : اور بوجھ نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : دوسرے کا بوجھ وَ : اور مَا كُنَّا : ہم نہیں مُعَذِّبِيْنَ : عذاب دینے والے حَتّٰى : جب تک نَبْعَثَ : ہم (نہ) بھیجیں رَسُوْلًا : کوئی رسول
جو سیدھے راستے چلا تو اپنے ہی لیے چلا اور جو بھٹک گیا تو بھٹکنے کا خمیازہ بھی وہی اٹھائے گا ، کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (ہر جان کو خود ہی اپنا بوجھ اٹھانا ہے) اور ہم کبھی ایسا نہیں کرتے کہ عذاب دیں مگر اس وقت جب کہ اس میں ایک رسول پیدا کر دیں
ہدایت کا نفع اور گمراہی کا نقصان اختیار کرنے والے ہی پر ہوگا : 19۔ اسلام کا یہ سنہری اصول آج خود اسلام کا نام لینے والوں کو یاد نہ رہا ۔ قرآن کریم کی تعلیم میں ہدایت وگمراہی کا تعلق کسی خاندان یا گروہ بندی کے ساتھ نہیں بلکہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا نفع ونقصان بھی صرف اور صرف اسی کو ہے جو اس کا اختیار کرتا ہے ۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو بار بار بیان کیا اور پوری وضاحت سے بیان کیا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے قبل یہود ونصاری نے ہدایت وگمراہی کا اصول مکمل طور بدل رکھا تھا ۔ وہ برملا کہتے تھے کہ (آیت) ” کونوا ھودا اونصری تھتدوا “۔ یعنی ہدایت چاہتے ہو تو یہودی یا عیسائی ہوجاؤ گویا ہدایت کی راہ اعتقاد وعمل کی راہ نہیں بلکہ یہودیت ونصرانیت کی گروہ بندی کی راہ ہے جب تک کوئی یہودی یا نصرانی نہ ہوجائے ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا ، قرآن کریم نے برملا کہا کہ کوئی انسان ہو ‘ کسی نسل وقوم سے ہو ‘ کسی نام سے پکارا جاتا ہو لیکن اگر اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے اعمال بھی نیک ہیں تو وہ ہدایت پر ہے اور یقینا اس کے لئے نجات ہے لیکن جو شخص اللہ پر سچا ایمان نہیں رکھتا اور اس کے اعمال بھی اچھے نہیں ہیں تو وہ گمراہ ہے اور اس کی گمراہی کا وبال بھی یقینا اسی پر ہوگا ۔ لیکن قرآنی تعلیمات سے قبل اگر یہودیوں اور عیسائیوں نے اس کو بھلا دیا تھا تو آج مسلمان کہلانے والوں نے بھی مکمل طور پر اس کو بھلا دیا ہے اور آج یہودیت اور عیسائیت کی جگہ جو مختلف دایان تھے مسلمانوں نے جو ایک ہی دین اسلام کے دعویدار ہیں اس اصول کو محو کردیا ہے اور مختلف گروہ بندیوں پر تقسیم ہو کر ہر ایک گروہ دوسرے کو گمراہ خیال کرتا ہے اور نجات کا مستحق فقط اپنی ہی گروہ بندی کو سمجھتا ہے جو اصولی طور پر قرآن کریم کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم جس چیز کو مٹانے کے لئے آیا تھا آج اس کو اختیار کرلیا گیا ہے اور ہدایت وگمراہی کا دارومدار وہی گروہ بندی قرار دے لی ۔ قرآن کریم نے اللہ کے اس قانون کا اعلان کیا کہ دنیا کی ہرچیز کی طرح انسان افکار و اعمال کے بھی خواص ونتائج ہیں ۔ اچھے فکر وعمل کا بدلہ اچھا ہے ‘ برے فکر وعمل کا بدلہ برا ہے لیکن ہم نے یہ حقیقت فراموش کردی اور ہدایت وگمراہی کو نسلوں ‘ قوموں ‘ ملکوں اور طرح طرح کی رسموں اور رواجوں میں پابند کردیا اور ہم سب مختلف نسلوں ‘ قوموں ‘ ملکوں اور رسم و رواج میں منقسم ہوگئے اور پھر جو شخص بھی ہماری نسل ‘ قوم ‘ ملک اور رسم و رواج کا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو شخص ہماری نسل ‘ قوم ‘ ملک اور رسم و رواج کا نہیں وہ مکمل طور پر گمراہ ہے ۔ گویا جو کام یہودی اور عیسائی کر کے گمراہ ہوئے آج وہی کام ہم مسلمان کر کے ہدایت یافتہ کہلائے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون “۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا : 20۔ ” بوجھ “ سے اس جگہ کیا مراد ہے ؟ بوجھ سے مراد اعمال کی ذمہ داری ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے اور ہر ایک پر صرف اس کے اپنے ہی عمل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری کا بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے اور نہ یہی ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داری کا بار خود اپنے اوپر لے لے اسے بچانے کے لئے اپنے آپ کو اس کے جرم میں پکڑوا دے ۔ یہ بات اس جگہ اس بنا پر فرمائی جارہی ہے کہ مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کر رہے تھے ان سے انکے مشرک رشتہ دار اور برادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور دین آبائی پر قائم رہو اس کا عذاب وثواب ہماری گردن پر رہا ، ان کو جواب بھی دے دیا گیا اور ایک پختہ اصول بھی بیان کردیا گیا جو رہتی دنیا تک قائم ودائم رہے گا۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے بھی اس کو ویسے ہی بھلا دیا جیسا کہ گزشتہ قوموں نے اس کو بھلا کر مختلف طرح کے سہارے قائم کر لئے تھے جیسے گزشتہ قوموں نے ” شفاعت “ اور کفارہ “ وغیرہ پر انحصار کیا آج اس تعلیم کے حامل بھی اسی طرح کے سہاروں پر زندگی گزار رہے ہیں اور یہودیت و عیسائیت اپنا نام بدل کر ملائیت کے نام سے موسوم کی جاتی ہے جب کہ یہ حقیقت ہے کہ نام بدلنے سے اصلیت نہیں بدل جاتی ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ کی توفیق بخشے ۔ عذاب خداوندی کے لئے اصول خداوندی کی مکمل وضاحت : 21۔ عمل دو طرح کا ہوتا ہے اچھا اور برا۔ جب یہ بات بتا دی گئی کہ ہر عامل کو اس کے عمل کی جزا یعنی اس کے نتیجہ سے دور چار ہونا ضروری ہے تو اب اس بات کی وضاحت بھی فرما دی کہ وہ باتیں جو جبلت سے متعلق نہیں بلکہ ان کا اچھا یا برا ہونا جاننے اور معلوم کرنے پر ہے تو ضروری ہے کہ پہلے ہر انسان کو کسی نہ کسی رسول کے ذریعہ سے اس کا اچھا ہونا یا برا ہونا تعلیم کیا جائے اور پھر جب وہ معلوم کرلینے کے بعد یہ عمل خیر نہیں بلکہ شروفساد ہے پھر اس کا مرتکب ہو تو اس کو سزا دی جائے اس فقرہ میں اس کی وضاحت فرما دی کہ اعمال کی یہ سزا انسان کو بیخبر ی کی حالت میں نہیں دی جاتی بلکہ پہلے ہم اپنے رسول بھیج کر لوگوں کو اس بات کی خبر پہنچاتے ہیں اور یہ احساس دلا دیتے ہیں ہیں کہ یہ فعل وعمل خیر ہے اور یہ فعل وعمل شر ہے اور جب تک پہلے کسی کو مطلع نہ کردیا جائے ہمارا عذاب اس کو نہیں پکڑتا اور یہ تقاضا ہے ہماری رحمت کا اور اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام بندوں پر خدا کی حجت ہے یہ حجت قائم نہ ہو تو بندوں کو عذاب دینا خلاف انصاف ہوگا کیونکر اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کرسکیں گے کہ ہمیں آگاہ کیا ہی نہ گیا تھا تو پھر ہم پر یہ گرفت کیسی ؟ مگر جب یہ محبت قائم ہوجائے تو اس کے بعد انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے الہی پیغام سے منہ موڑا یا اسے پا کر اس سے انحراف کیا ۔ یاد رہے کہ اس آیت سے یہ سمجھنا کہ ہر رسول اپنا پیغام بندوں تک خود ہی پہنچائے تو پہنچتا ہے اس لئے رسولوں کا آتے رہنا ضروری ہے یا پھر اس لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جن کے پاس رسول نہیں آیا حالانکہ رسول کا آنا اور پیغام کا پہنچانا دو الگ الگ چیزیں ہیں ، رسول کا پیغام لوگوں تک پہنچنا خود رسول ہی کے پہنچنے کے مرادف ہے کیونکہ پیغام رسالت پہنچانا ہی دراصل رسول کا بھیجنا ہے ، اس کی تفصیل سورة الزمر اور سورة فاطر میں آئے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ گو اللہ تعالیٰ کی ہستی بلکہ اس کی توحید کا علم بھی کچھ نہ کچھ قدرت کے مطالعہ سے معلوم ہوجاتا ہے اور فطرت انسانی کے اندر بھی وہ مرکوز ہے مگر زندگی بعد الموت کا علم یا جزا کا وہ قانون جس کا ذکر اوپر کیا گیا صرف انبیاء کرام (علیہم السلام) ہی کے ذریعہ سے دنیا میں آیا ہے کیونکہ انسانی عقل کی روشنی اس قدر دور کے نتائج دیکھ نہ سکتی تھی پس اس طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان کہاں ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو ایسے قانون کے تحت سزا دے دے جس کا انہیں علم ہی نہیں دیا گیا اور عذاب دینے کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ نیک عمل کے نتائج تو وہ بہرحال دے گا ہی کیونکہ یہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے اور اسی رحمت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ عذاب نہ دے جب تک کہ پہلے نہ دے کہ یہ امر سزا کے لائق ہے تاکہ انسان متنبہ ہوجائے ، اس آیت میں ہمارے فقہائے اسلام نے بہت سے مسائل کے استنباط کئے ہیں اور بحث کرتے کرتے کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے اس کی تفصیلات بہت لمبی ہیں ۔ البتہ ایک بات کا یہاں ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں وہ ہے نابالغ بچوں یا کفار کے نابالغ بچوں کا معاملہ کہ اسلام نے اس کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ہے ۔ اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ایک بچہ جس میں ابھی نیکی اور بدی کا احساس ہی پیدا نہیں ہوا وہ وہی بچے ہوں گے جو جنت میں جنتیوں کی خدمت کے لئے متعین کئے جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کفار کے بچوں کا کیا ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اہل جنت کے خادم ہوں گے ۔ جن لوگوں نے کفار کے بچوں کو قابل مواخذہ سمجھا ہے ان کے دلائل میں کوئی وزن نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن چار قسم کے لوگ عذر پیش کریں گے یعنی بہرا ‘ فاتر العقل ‘ بہت بوڑھا اور وہ جو زمانہ فترت میں مرگیا ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا کہ آگ میں داخل ہوجاؤ سو اگر وہ داخل ہوجائیں گے تو آگ ان پر ٹھنڈی کردی جائے گی ۔ “ اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ انبیائے کرام (علیہم السلام) بھی لوگوں کو درحقیقت ایک آگ ہی میں داخل ہونے کا حکم دیتے ہیں اور وہ محبت الہی کی آگ ہے جو دنیا کی محبت کو ٹھنڈا کردیتی ہے اور جو اس آگ میں داخل ہوجاتا ہے وہ مکمل طور پر برکت میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ یہی اس کی حقیقی راحت ہوتی ہے کاش کہ علمائے اسلام بھی اس حقیقت کو سمجھتے اور لوگوں کو تفہیم کراتے تاکہ لوگ اس آگ میں کود جاتے ، اگر ایسا ہوتا تو آج اہل اسلام کی حالت یہ نہ ہوتی جو اس وقت ہو رہی ہے جس کی اصلاح کی اب ظاہری طور پر کوئی صورت نظر نہیں آتی ہاں ! اللہ تعالیٰ کا غیبی ہاتھ ہی اس کی اصلاح کی کوئی صورت پیدا کرسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اے اللہ ! قوم مسلم کی اصلاح کی کوئی صورت فرما دے ۔
Top