Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ : اور کچھ حصہ الَّيْلِ : رات فَتَهَجَّدْ : سو بیدار رہیں بِهٖ : اس (قرآن) کے ساتھ نَافِلَةً : نفل (زائد) لَّكَ : تمہارے لیے عَسٰٓي : قریب اَنْ يَّبْعَثَكَ : کہ تمہیں کھڑا کرے رَبُّكَ : تمہارا رب مَقَامًا مَّحْمُوْدًا : مقام محمود
اور رات کا کچھ حصّہ بیداری میں بسر کر یہ تیرے لیے ایک مزید عمل ہے قریب ہے کہ اللہ تجھے ایک ایسے مقام پر پہنچا دے جو نہایت پسندیدہ مقام ہو
تہجد وہ صلوٰۃ ہے جو فرض سے زائد ہے اور مقام محمود پر پہنچانے والی ہے : 97: ” نفل “ کے معنی کسی ایسی بات کے ہیں جو اصل مطلوب سے زیادہ ہو۔ پس زیر نظر آیت میں صلوٰۃ تہجد کو نَافِلَةً لَّكَ 1ۖۗ کہا گیا جس میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو رات کا بھی کچھ حصہ جاگنے اور عبادت کرنے میں صرف کرنے کی ہدایت فرمائی گئی اور فرمایا کہ یہ تمہارے لیے عبادت کی مزید زیادتی ہوتی۔ آیت میں خطاب اگرچہ نبی اعظم و آخر ﷺ ہی کو ہے لیکن حکم عام ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ شب بیداری کی عبادت یعنی تہجد ایک مزید عبادت ہے اگر ہو سکے اور یہ کہ ایک مسلمان کو بلند مرتبہ پر پہنچانے میں اس کا ایک بہت بڑا حصہ ہے اور ذمہ داری سے زیادہ دینے والوں کا اجر یقینا ً ذمہ داری ادا کرنے والوں سے سوا ہے۔ مقام محمود کیا ہے ؟ مقام محمود سے مقصود ایسا درجہ ہے جس کی عام طور پر ستائش کی جائے ، فرمایا : کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہیں ایسے مقام پر پہنچا دے جو عالمگیر اور دائمی ستائش کا مقام ہو۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی اعظم و آخر ﷺ کی مکی زندگی کے آخری سال گزر رہے تھے اور مظلومیت اور بےسروسامانی اپنے انتہائی درجوں تک پہنچ چکی تھی حتیٰ کہ مخالفین آپ ﷺ کے قتل کی تدبیروں میں سرگرم تھے ، ایسی حالت میں کون امید کرسکتا تھا کہ انہی مظلومیتوں سے فتح و کامرانی پیدا ہو سکتی ہے ؟ لیکن وحی الٰہی نے صرف فتح و کامرانی کی بشارت نہیں دی کیونکہ فتح و کامرانی کی عظمت کوئی غیر معمولی عظمت نہ تھی بلکہ ایک ایسے مقام تک پہنچنے کی خبر دی جو نوع انسانی کے لیے عظمت و ارتقاع کی سب سے آخری بلندی ہے ، یعنی عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 0079 حسن و کمال کا ایسا مقام جہاں پہنچ کر محمودیت خلائق کی عالمگیر اور دائمی مرکزیت حاصل ہوجائے گی۔ کوئی عہد ہو ، کوئی ملک ہو ، کوئی نسل ہو لیکن کروڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی۔ اَن گنت زبانوں پر اس کی مدحت طرازی ہوگی۔ محمود یعنی سرتاسر ممدوح ہستی ہوجائے گی ؎ ما شئت قل فیہ فانت مصدقۃ فالحب یقضی والمحاسن تشھد یہ مقام انسانی عظمت کی انتہا ہے ، اس سے زیادہ اونچی جگہ اولاد آدم کو نہیں مل سکتی۔ اس سے بڑھ کر انسانی رفعت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکت۔ انسان کی سعی و ہمت ہر طرح کی بلندیوں تک اُڑ سکتی ہے لیکن یہ بات نہیں پا سکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کا مرکز بن جائے۔ سکندر کی ساری فتوحات خود اس کے عہد و ملک کی ستائش اسے نہ دلا سکیں اور نپولین کی ساری جہاں ستانیاں اتنا بھی نہ کرسکیں کہ کو رسیکا کے چند غدار باشندوں میں ہی اسے محمود و ممدوح بنا دیتیں جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ محمودیت اس کو حاصل ہو سکتی ہے جس میں حسن و کمال ہو کیونکہ روحیں حسن ہی سے عشق کرسکتی ہیں اور زبانیں کمال ہی کی ستائش میں کھل سکتی ہیں لیکن حسن و کمال مملکت وہ مملکت نہیں جسے شہنشاہوں اور فاتحوں کی تلواریں مسخر کرسکیں۔ غور کرو کہ جس وقت سے نوع انسانی کی تاریخ معلوم ہے نوع انسانی کے دلوں کا احترام اور زبانوں کی ستائش کن انسانوں کے حصے میں آئی ہیں۔ شہنشاہوں اور فاتحوں کی حصے میں یا اللہ کے ان رسولوں کے حصے میں جنہوں نے جسم و ملک کو نہیں روح و دل کو فتح کیا تھا ؟ بس یہی مقام محمود ہے جس کی خبر ہمیں ایک دوسری آیت میں بھی دی گئی ہے اور خبر کے ساتھ امر بھی ہے اور وہ ہے : اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ 1ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا 0056 (الاحزاب 33 : 56) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام کا ایک مشہد وہ معاملہ ہوگا جو قیامت کے روز پیش آئے گا جبکہ اللہ کی حمد و ثنا کا علم آپ بلند کریں گے اور بلاشبہ محمودیت کا مقام دنیا و آخرت دونوں کے لیے ہے جو ہستی یہاں محمود خلائق ہگے وہاں بھی محمود خلائق ہوگی ، وہاں بھی محمود و ممدوح ہوگی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اس مقام کو مقام شفاعت بھی فرمایا ہے جس سے اس کی محمودیت کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے۔
Top