Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ
: اگر
اَحْسَنْتُمْ
: تم نے بھلائی کی
اَحْسَنْتُمْ
: تم نے بھلائی کی
لِاَنْفُسِكُمْ
: اپنی جانوں کے لیے
وَاِنْ
: اور اگر
اَسَاْتُمْ
: تم نے برائی کی
فَلَهَا
: تو ان کے لیے
فَاِذَا
: پھر جب
جَآءَ
: آیا
وَعْدُ الْاٰخِرَةِ
: دوسرا وعدہ
لِيَسُوْٓءٗا
: کہ وہ بگاڑ دیں
وُجُوْهَكُمْ
: تمہاری چہرے
وَلِيَدْخُلُوا
: اور وہ گھس جائیں گے
الْمَسْجِدَ
: مسجد
كَمَا
: جیسے
دَخَلُوْهُ
: وہ گھسے اس میں
اَوَّلَ مَرَّةٍ
: پہلی بار
وَّلِيُتَبِّرُوْا
: اور برباد کر ڈالیں
مَا عَلَوْا
: جہاں غلبہ پائیں وہ
تَتْبِيْرًا
: پوری طرح برباد
اگر تم نے بھلائی کے کام کیے تو اپنے ہی لیے کیے اور اگر برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لیے کیں ، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تاکہ تمہارے چہروں پر رسوائی پھیر دیں اور وہ اسی طرح مسجد میں داخل ہوگئے جس طرح پہلی مرتبہ حملہ آور گھسے تھے اور جو کچھ پایا توڑ پھوڑ کر برباد کر دیا
جب تم نے نیکی کی تو نیکی کا فائدہ بھی حاصل کیا اور برائی کرو گے تو اس کا وبال بھی تم ہی پر ہوگا : 9۔ یہودیوں کی پہلی تباہی جو بخت نصر کے ہاتھوں ہوئی اور یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو انکے علاقے سے نکال کر کئی ایک ملکوں میں تتربتر کردیا اور جو یہودی اپنے علاقہ میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہ گئے تھے ۔ زیر نظر آیت کے اس حصہ اول میں بتایا جارہا ہے کہ جب تک تم درست رہے نتیجہ بھی درست رہا لیکن جب تم خراب ہوگئے تو نتیجہ درست کیسے نکل سکتا تھا ؟ اصول خداوندی اپنی جگہ امٹ اور اٹل ہے کہ اگر تم نیکی کرو گے تو اس کی جزاء تم کو ملے گی اور اگر تم برائی کرو گے تو اس کا وبال بھی تم ہی پر ہوگا ۔ گویا پہلی تباہی آئی تو وہ ہماری پیش گوئی اس کو نہیں لائی بلکہ تمہارے اعمال کے نتیجہ میں وہ آئی اور اب دوسری تباہی آئے گی تو وہ بھی تمہارے ہی کرتوتوں سے آئے گی اور یہی کچھ ہوا جو کہا گیا تھا ۔ پہلی تباہی کے بعد یہود کو سنبھل نے کا جو موقع ملا تھا اس سے انہوں نے صرف وقتی فائدہ اٹھایا لیکن وہ فائدہ دیرپا ثابت نہ ہوا کیونکہ ایرانی زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات کے بعد یہودیوں کو پھر ایک سخت دھکا لگا اور سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جب تین حصوں میں بٹ گئی تو شام کا علاقہ اس سلجوتی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے 198 ق م میں فلسطین پر قبضہ کرلیا یہ یونانی فاتح جو مذہبا مشرک اور اخلاقا اباحیت پسند تھے ، یہودی مذہب کو اور یہودی تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے ، انہوں نے اس کے مقابلہ میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کردیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصہ عنصر ان کا آلہ کار بن گیا ۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا اور ایک گروہ نے یونانی لباس ‘ یونانی زبان ‘ یونانی طرز معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا ۔ 175 ق م میں انٹیکوس چہارم جس کا لقب ایپی فانیس یعنی مظہر خدا تھا جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب وتہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبردستی بت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ انکو سجدہ کریں اس نے یہودیوں کی قربان گاہیں بند کرا دیں اور ان کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا ، اس نے ان سب لوگوں کے لئے سزائے موت مقرر کی جو اپنے گھروں میں تورات کا نسخہ رکھیں یا سبت کے احکام پر عمل کریں یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں ، تاہم یہودی مکمل طور پر اس سے مغلوب نہ ہو سکے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں مکابی بغاوت کے نام سے یاد کی جاتی ہے اگرچہ اس کشمکش میں یونانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمداردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں اور انہوں نے عملی طور پر مکابی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا لیکن عام یہودیوں میں عزیر (علیہ السلام) کی پھونکی ہوئی روح کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہوگئے اور انجام کار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کرلی جو 67 ق م تک قائم رہی اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبہ پر حاوی ہوگئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگیں تھے بلکہ فلستیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی مسخر نہ ہوا تھا لیکن یہیں سے اس دوسرے فساد اور اس کی سزا کا تاریخی پس منظر شروع ہوگیا ۔ اقتدار وزوال کی داستان ہی کچھ اس طرح کی ہے اور اقتدار کے عروج ہی سے اس کا زوال بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ قوم بنی اسرائیل کی دوسری تباہی کا بیان جو پہلی تباہی سے بھی بڑھ کی تھی : 10۔ سیدنا عزیر (علیہ السلام) کی کوششوں سے اصلاح عقائد واخلاق کی جو نئی روح ان میں پھونکی گئی تھی وہ بھی زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوئی اور آپ کے بعد بہت جلد یہ قوم پھر دنیا پرستی ‘ لذت کوشی اور جاہ طلبی کی لعنت میں گرفتار ہوگئی اور مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی ودینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بےروح ظاہر داری نے لے لی اور انجام کار ان میں پھوٹ پڑگئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دے دی چناچہ پومپی 63 ق م میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کردیا لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی رہی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم ونسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعہ سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے اس لئے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک سایہ ایک دیسی ریاست قائم کردی جو بالآخر 40 ق م میں ایک ہوشیار یہودی ہیرودنامی کے قبضے میں آئی ، یہ شخص ہیرود اعظم کے نام سے تاریخ میں مشہور ہے اس کی فرمانروائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر 40 ق م سے 4 ق م تک رہی ۔ اس نے ایک مذہبی پیشواؤں کی سرپرستی کرکے یہودیوں کو خوش رکھا اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرکے قیصر کی خوشنودی حاصل کی ، اس زمانہ میں یہودیوں کی دینی واخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی ، ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اس کا ایک بیٹا خلاؤس سامریہ یہودیہ اور شمالی ادومیہ کا فرمانروا ہوا مگر 6 ء میں قیصر اگسٹس نے اس کو معزول کرکے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کردی اور 41 ء تک یہی انتظام قائم رہا اور یہی وہ زمانہ تھا کہ مسیح (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے اٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاٹس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی سرتوڑ کوشش کی اس کا مختصر ذکر عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں کیا گیا ہے ۔ ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ کلیل اور شرق اردن کا مالک ہوا اور یہی وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا سرقلم کر کے اس کی نذر کیا۔ اس کا تیسرا بیٹا فلپ کوہ حرمون سے دریائے یرموک تک کے علاقے کا مالک تھا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی ویونانی تہذیب میں غرق تھا اس کے علاقے میں کسی کلمہ خیر کے پنپنے کی اتنی گنجائش ہی نہ تھی جتنی فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تھی ۔ 41 عیسوی میں رومیوں نے ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود اگر پا کو ان تمام علاقوں کا فرما نروا مان لیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا ، اس شخص نے برسراقتدار آنے کے بعد مسیح (علیہ السلام) کے پیرو وں پر مظالم کی انتہا کردی اور اپنا پورا زور خدا ترسی اور اصلاح اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی راہنمائی میں چل رہی تھی ۔ اس دور میں عام یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی جو حالت تھی اس کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے ان تنقیدوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جو مسیح (علیہ السلام) نے اپنے خطبوں میں ان پر کی ہیں اور ان کا ذکر ہم پیچھے کتنے ہی مقام پر کر آئے ہیں اور زیادہ قریب سے دیکھنے کے لئے آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بالکل یہی حالت تھی جو اس وقت ہمارے مذہبی فرقوں کی آپس میں ہے اور خصوصا سواد اعظم کہلانے والے جو کچھ دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں اور خصوصا ان باتوں میں جو سارے مکاتب فکر کے خلاف کہی جائیں اگرچہ وہ کتنی ہی سچی کیوں نہ ہوں اور سارے مکاتب فکر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جن نظریات کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہوں ، پھر بھی اگر بات واضح نہ ہو تو یہ خیال کرلیا جائے کہ اس قوم کی آنکھوں کے سامنے یحییٰ (علیہ السلام) جیسے پاکیزہ انسان کا سرقلم کیا گیا جس کو وہ اللہ کا نبی بھی مانتے اور تسلیم کرتے تھے لیکن ایک آواز بھی اس ظلم عظیم کے خلاف نہ اٹھ سکی اور پھر پوری قوم کے مذہبی پیشواؤں نے مسیح (علیہ السلام) کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کیا اور چند معدودے آدمیوں کے سوا کوئی نہ تھا جو اس بدبختی پر ماتم کرتا ۔ حد یہ ہے کہ جب پونتس پیلاطس نے ان شامت زدہ لوگوں سے پوچھا کہ آج تمہاری عید کا دن ہے اور قاعدے کے مطابق میں سزائے موت کے مستحق مجرموں میں سے ایک کو چھوڑ دینے کا مجاز ہوں بتاؤ یسوع کو چھوڑوں یا برابا ڈاکو کو ؟ تو ان کے پورے مجمع نے بیک آواز ہو کر کر کہا کہ برابا کو چھوڑ دے یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت تھی جو اس قوم پر قائم کی گئی ۔ ازیں بعد زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ رومیوں اور یہودیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہوگئی اور 64 سے 66 عیسوی کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کردی ۔ ہیرود اگر پاثانی رومی پر وکیوریٹر فلورس دونوں اس بغاوت کو فرو کرنے میں ناکام رہے اور بالآ 70 عیسوی میں ٹیٹس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کرلیا اور اس قتل عام میں ایک ڈیڑھ لاکھ یہودی مارے گئے اور پون لاکھ کے قریب گرفتار کر کے غلام بنائے گئے اور ان کی عورتوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو فاتح قومیں کرتی آئی ہیں اور ہیکل سلیمانی کو بھی مسمار کرکے پیوند خاک کردیا گیا ۔ اس کے بعد تقریبا دو ہزار برس تک یہودیوں کو سر اٹھانے کا موقع ہی نہ ملا پھر بعد میں قیصر ہیڈ ریان نے یروشلم کو دوبارہ آباد کیا اور اس شہر کا نام یروشلم کی بجائے ایلیا رکھا گیا جس میں مدت ہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت ہی نہ تھی ، یہی وہ دوسری سزا تھی جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا اور انکو ان کی پوری تاریخ سے چند الفاظ میں آگاہ کردیا اور بھولی بسری یادیں ان کی آنکھوں کے سامنے آسمان کے تاروں کی طرح صاف صاف دکھا دیں ۔ تعجب ہے کہ آج وہی قوم نصاری جن کے خدا ‘ خدا کا بیٹا اور خدا کا تیسرا جزء تسلیم کئے گئے ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ یہود نے وہ سب کچھ کیا جو وہ اس وقت کرسکتے تھے اور اس اللہ کے بندہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو صرف یہی نہیں کہ ماننے اور تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ اس کو نعوذ باللہ حلال زادہ ماننے کے لئے بھی تیار نہ ہوئے اور نہ ہی آج تیار ہیں وہ اس قوم کے محافظ ونگہبان بن کر پشت پناہی کے لئے میدان میں ہیں اور مسلمانوں کے لئے آزاد بنے ہوئے ہیں جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی وہی پذیرائی کی جو دوسرے سارے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی کی بلکہ اس سے بڑھ کر انکے اختراعی عیدمہ (علیہ السلام) کی بےپدری پیدائش کو بھی بالکل اسی طرح تسلیم کرلیا جس طرح وہ کرتے آرہے تھے اور اس سلسلہ میں اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کو بھی تجزیہ کرکے دیکھنے کی کوشش نہ کی اور نصاری کی اندھی محبت میں وہ سب کچھ مان لیا جو کتاب وسنت میں بھی موجود نہ تھا۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ وہ وقت یقینا آنے والا ہے جب یہود اپنی عادت کے مطابق عیسائیوں کو شہ رگ سے پکڑیں گے اور ان کے ساتھ وہی سلوک کرنے کی کوشش کریں گے جو اس وقت ان کے آباء و اجداد نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تھا اس وقت قوم نصاری کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے کئے پر یقینا پچھتائیں گے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ وقت کب آتا ہے جس کا آنا روز روشن کی طرح یقینی ہے ۔
Top