Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم احکام میں سے جو بدل دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسا حکم نازل کردیتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے ہر ایک چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کردیا ہوا ہے
ناسخ و منسوخ کیا ہے ؟ کیا قرآن کریم کی آیات منسوخ ہیں ؟ 201: ” ہم احکام میں سے جو بدل دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسا حکم نازل کردیتے ہیں۔ “ اس آیت کو ناسخ و منسوخ کے مسئلہ میں بنیاد قرار دیا گیا ہے اور پھر قرآن کریم ہی کی آیات کو ناسخ اور منسوخ بتایا گیا اور اس بحث کو اتنا طول دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی سات سو آیات کریمات کو منسوخ قرار دیا گیا ہے۔ پھر اپنے اپنے مذاق کے مطابق کسی نے اس کی تعداد کو کم کرنا شروع کردیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ پانچ سو آیات منسوخ ہیں اور کسی نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف پانچ آیات منسوخ ہیں۔ سب سے پہلے غور طلب امر سیاق وسباق آیت ہے یہ تو ظاہر ہے اور جس طرح پیچھے سے آپ پڑھتے آرہے ہیں کہ یہود کو یہ اعتراض تھا کہ یہ وحی بنی اسرائیل میں نازل ہونا چاہیے تھی یہ بنی اسمعٰیل میں کیسے نازل ہوگئی۔ لہٰذا چونکہ وحی بنی اسمعٰیل میں نازل ہوئی تھی اس لئے انہوں نے حق ناحق دیکھے بغیر اس کا انکار کردیا اور نہ صرف انکار ہی کیا بلکہ وہ جس پر وحی نازل ہوئی اس کے اور وحی لانے والے کے خلاف ہوگئے اور ہر طرح کی شرارتیں اور منصوبے کرنے لگے۔ چونکہ درمیان میں ان شرارتوں ، منصوبوں کا ذکر آگیا اس لئے بات لمبی ہوگئی اور اس طرح ان کی ایک شرارت کا ذکر اور پھر اس کا جواب دینے کے بعد اصل مضمون کی طرف متوجہ کرنے کے لئے یہاں ایک اشارہ کردیا اور فرمایا کہ اصل اعتراض ان کو یہ ہے کہ تم پر یہ خیر و رحمت کیوں نازل ہوئی کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے کسی نبی پر نازل ہوتی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت منسوخ نہ ہوتی۔ اگرچہ یہ بھی ان کا اپنا گمان تھا جس طرح دنیا داروں کی سوچ ہوتی ہے بالکل اسی طرح یہ ان کی عامیانہ سوچ تھی تاہم انہوں نے اپنے دل میں یہ بطور یقین بات جمالی کہ اب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے سے جو بنی اسمعٰیل میں سے ہے یہ بھی ضرور ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت منسوخ ہو اور پھر جب ان کی اپنی خواہشات و اہواء کے خلاف حکم آیا تو انہوں نے اس کو اس بات پر محمول کیا ، اس میں اصل جواب تو ان کے اس اعتراض کا دیا گیا ہے کہ شریعت موسوی کے جو احکام منسوخ ہوگئے ہیں اس کی دلیل تو تمہارے ذمہ ہے کہ کیا یہ احکام موسوی شریعت کے تھے یا تمہارے اپنے ہی بنائے ہوئے تھے جو تم نے شریعت موسوی کے ذمہ لگا دیئے اس کے لئے یہ بیان دیا گیا ہے کہ ہم نے احکام میں سے جو بدل دیئے ہیں ان سے بہتر وہاں یعنی شریعت محمدی میں بتائے گئے ہیں یا کم از کم اس جیسے تو ہوں گے ذرا غور کر کے ان کو دیکھو تو سہی گویا ان کی توجہ اصل مضمون کی طرف پھرائی گئی ہے جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ تھا کہ وہ احکام جو شریعت موسوی کے طور پر ان میں معروف تھے اور ان میں ردوبدل ناگزیر تھا کیونکہ انہوں نے بہت کچھ اس میں تحریف کرلی ہوئی تھی ، اور بہت کچھ انہوں نے حق و باطل کو ملا دیا ہوا تھا چونکہ ان کی ان کارستانیوں کا ذکر پیچھے کیا جاچکا تھا اب ان کو کہا جارہا ہے کہ جو بدلا گیا ہے اس کو بھی دیکھو اور جس کے ساتھ بدلا ہے اس پر بھی غور کرو پھر بتاؤ کہ اس میں بہتر کون ہے۔ بجائے غور و فکر کرنے کے اپنے اندھے پن کا ثبوت کیوں دے رہے ہو ؟ لیکن افسوس کہ مفسرین نے آیت کے لفظ سے قرآن کریم کی آیات مراد لے کر ایک طرح کا الٹا مفہوم بیان کردیا ، اور ہو سکتا ہے کہ یہ انہی یہود کی کارستانی ہو جس کو سادگی سے ہمارے مفسرین سمجھ ہی نہ سکے ہوں حالانکہ آیت کے لفظ سے یہ ضروری نہیں تھا کہ قرآن کریم کی آیت مراد لی جاتی بلکہ اکثر استعمال اس کا سابقہ شرائع پر ہوا جیسے ارشاد فرمایا کہ : اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ 1ۙ یعنی جب بھی تمہارے پاس رسول آئے اور انہوں نے میری آیات کو تم سے بیان کیا۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ پہلی کتابوں کے احکام پر بھی آیات کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پس سیاق وسباق مضمون بتاتا تھا کہ یہاں جن احکام کے نسخ کا ذکر ہے۔ وہ احکام شریعت سابقہ کے ہیں نہ کہ قرآن کریم کے ، اور شریعت سابقہ میں سے بھی وہ احکام جو انہوں نے خود وضع کر کے شریعت موسوی میں شامل کر لئے ہیں اور اس کی بیسیوں مثالیں قرآن کریم کے صفحات میں موجود ہیں اور اس وقت یہودو نصاریٰ کی یپروی میں اہل اسلام کے علماء سوء نے بھی بہت کچھ شریعت محمدی میں تبدیلی کرلی ہے اگرچہ قرآن کریم کے معجزہ کے مطابق وہ قرآن کریم کے اندر تو کوئی کمی بیشی نہیں کرسکے اور نہ ہی کوئی کرسکتا تھا اور نہ ہی کرسکتا ہے البتہ مفہوم میں اب بھی بہت کچھ کیا گیا ہے بلکہ شریعت اسلامی کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیسیوں چیزیں جو مسلمان بطور رواج کر رہے ہیں اگرچہ علماء سوء ان کی سند کا جواز بھی پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں تاہم رواج سمجھ کر کرنے والے یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ شریعت میں کیسے داخل ہوگئی۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر مفسرین نے اسے نسخ آیات قرآنی پر لگایا ہے اب یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نسخ آیات قرآنی سے مراد کونسی آیات کا نسخ ہے۔ اگر تو اس سے مراد کسی ایسی آیات کا نسخ ہے جو قرآن کریم میں موجود نہیں تو اس سے کچھ بحث کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ قرآن کریم کے باہر کے احکام پر اسلام میں آیت کا لفظ استعمال ہی نہیں۔ لیکن ان سے مراد کوئی ایسی آیات ہیں جیسا کہ عام مفسرین کا خیال ہے جو قرآن کریم کے اندر موجود ہیں تو اس قسم کے نسخ پر سب سے پہلے سوال یہ ہوگا کہ ان آیات پر جو نبی کریم ﷺ کے حکم سے قرآن کریم میں لکھی گئی ہیں کس نے منسوخ کیا ہے۔ اگر کسی آیت کے متعلق جو پہلے کسی سورت میں نبی کریم ﷺ نے لکھوائی ہے اور بعد میں خود ہی نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہو کہ فلاں آیت جو فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھائی گئی تھی وہ اب منسوخ سمجھی جائے تو بحث ختم ہوجاتی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ وہ آیت منسوخ مانیں لیکن خود نبی کریم ﷺ نے جب کبھی کسی آیت کو منسوخ نہ فرمایا ہو تو پھر ہم یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ دنیا میں کسی شخص کو یہ اختیار ہے خواہ وہ صحابی ہو ، تابعی ہو ، امام ہو یا مفسر ہو کر وہ قرآن کریم کی کسی آیت کو جو نبی کریم ﷺ نے خود قرآن کریم کے اندر لکھوائی ہو منسوخ قرار دے۔ ہمارے نزدیک نبی ﷺ کے بعد کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی آیت کو منسوخ قرار دے۔ اب جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نسخ آیات کی ان ساری روایات میں جو کتب احادیث یا کتب تفاسیر میں موجود ہیں ایک بھی روایت ایسی نہیں جو نبی کریم ﷺ تک پہنچتی ہو یا جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ نبی کریم ﷺ نے فلاں آیت کو فلاں آیت سے منسوخ فرمایا تھا ، اور کسی دوسرے شخص کا قول نسخ آیات کے متعلق سنت نہیں بنایا جاسکتا اور خود نبی کریم ﷺ کا کوئی ارشاد نہیں کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو ایک مرحلہ اس سوال کا اس جگہ طے ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس واقعی کوئی سند ایسی نہیں جس کی بناء پر قرآن کریم کی ان آیات میں سے کسی آیت کو جو قرآن کریم میں موجود ہیں منسوخ قرار دیا۔ دور نہ جائیں بلکہ حق تسلیم کرنے کے لئے ہوتا ہے تسلیم کریں کہ نسخ پر کسی صحیح سند کے نہ ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ بعض لوگوں نے سات سو آیات کو منسوخ قرار دیا تو بعض نے عند التحقیق صرف پانچ آیتوں کو منسوخ کہا۔ اب ساری امت کی اجماعی شہادت اس بات پر موجود ہے کہ جو کچھ قرآن کریم میں موجود ہے یہ سب کچھ نبی کریم ﷺ کا لکھوایا اور بتایا ہوا ہے اور پورے قرآن کریم کو ” ہدی الناس “ فرمایا ہے۔ حالانکہ اگر اس کے بعض حصے جو بعض کے نزدیک سات سو آیات تک پہنچ جاتے ہیں ناقابل عمل ہوتے تو اس کو کھول کر یہ بتانا چائیے تھا۔ پھر ایک طرف پورے قرآن کریم کو قابل عمل ماننے کی شہادت ، امت کی اجماعی شہادت ، کتاب اللہ کی شہادت اور نبی کریم ﷺ کی اپنی شہادت ہے۔ دوسری طرف اس کے کسی حصہ کو ناقابل عمل ماننے کے لئے ان ساری شہادتوں میں ایک بھی میسر نہیں ، پھر ہم کو کس کی بات ماننی چاہئے آیا ان کی جو سات سو آیات منسوخ قرار دیتے ہیں یا ان کی جو پانچ آیتوں کو منسوخ کہتے ہیں۔ یہ اختلاف اور اس قدر اختلاف خود بتا رہا ہے کہ دراصل کسی شخص کے ہاتھ میں کوئی شہادت اس امر پر موجود نہیں کہ کوئی آیت قرآن کریم واقعی منسوخ ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کم از کم پانچ آیتوں پر تو اتفاق ہے تو ہم کہیں گے کہ جس تحقیق کی رو سے 695 منسوخ سمجھی گئی آیات قابل عمل قرارد گئی ہیں کیا وہ تحقیق ایک قدم اور آگے اٹھانے میں کیوں مجبور ہے ؟ اور اس کو کیا مانع ہے ؟ کیوں ممکن نہیں کہ وہ پانچ بھی درحقیقت منسوخ نہ ہوں ؟ آخر ممکن نہ ہونے کا کیا مطلب ؟ ہم زور دے کر کہہ سکتے ہیں کہ ایک آیت بھی جو قرآن کریم کے اندر نبی کریم ﷺ نے لکھائی ہو منسوخ نہیں ہوسکتی جب تک کہ خود نبی کریم ﷺ اس کو منسوخ قرار دینے والے نہ ہوں ، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی ایک آیت کو بھی ناقابل عمل یا منسوخ قرار نہیں دیا۔ ہَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 00111 اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ ناسخ و منسوخ کا جھگڑا کیوں پیش آیا ؟ محض اس لئے کہ بعض لوگوں نے بعض آیات کو دوسری آیات کے خلاف سمجھا۔ پس یہاں یہ سمجھ نہ آیا کہ فلاں دو آیات میں کیونکر تطبیق ہو سکتی ہے جھٹ ایک آیت کو منسوخ قرار دے دیا مثلاً یوں کہہ دیا کہ عفو و درگزر کا حکم جہاں جہاں نبی کریم ﷺ کو دیا گیا تھا وہ قتال کے حکم کے ساتھ منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ یہ کس قدر غلط بحث ہے۔ عفو و درگزر کے احکام پر تو قتال کے اندر بھی نبی کریم ﷺ عمل کرتے رہے اور مسلمانوں کو عمل کرنے کی ہدایات دیتے رہے۔ کیا فتح مکہ میں جو عفو و درگزر سے کام لیا گیا اس کی نظیر دنیا میں اور کہیں مل سکتی ہے ؟ پھر یہ کس قدر جرات ہے کہ کہہ دیا جائے کہ عفو و درگزر کے احکام منسوخ ہوگئے تھے۔ تو کیا نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ قرآن کے خلاف کرتے تھے۔ قتال کا حکم اپنی جگہ ان ضروریات کے لحاظ سے تھا جو پیش آئیں اور عفو کا حکم اپنی جگہ ، اس کو نسخ کس قاعدہ سے کہا جاسکتا ہے ؟ قرآن کریم نے فرمایا کہ نماز ادا کرنے سے پہلے وضو کرلیا کرو ، پھر فرمایا کہ پانی نہ ملے تو تیمم کرلیا کرو۔ وضو کا حکم اپنی جگہ ہے تیمم کا حکم اپنی جگہ۔ اس طرح قتال کا حکم اپنی جگہ ہے اور عفو و درگزر کا اپنی جگہ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نے سات سو آیات کو منسوخ کہہ دیا جہاں جہاں تطبیق نہ ہوسکی ، بجائے اس کے کہ وہ تطبیق دینے کی کوشش کرتے فوراً ایک کو منسوخ کہہ دیا۔ حالانکہ اکثر حالتوں میں یہ بھی شہادت موجود نہیں کہ آیا جسے منسوخ کہا جاتا ہے کیا وہ پہلے نازل ہوئی تھی۔ ذرا غور کرو کہ قرآن کریم علان کرتا ہے کہ : وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا 0082 ” اگر قرآن کریم اللہ کے سوا کہیں اور سے آیا ہوتا تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے “ جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ چونکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے لہٰذا اس میں اختلاف ممکن ہی نہیں ہے ۔ اختلاف تو تب ہوتا جب غیر اللہ کی طرف سے ہوتا۔ افسوس کہ ناسخ منسوخ کے مسئلہ میں اس ارشاد الٰہی کو بھی بھلا کر اختلاف پہلے قائم کیا گیا اور پھر اس کو نسخ آیات سے حل کیا گیا جو دراصل اختلاف کے مان لینے کے مترادف ہے کیونکہ مخالف تو یہی کہے گا کہ اختلاف تو تم خود مانتے ہو تو پھر اس کا جواب کیا ہے ؟ حالانکہ قرآن کریم کی آیات میں نسخ کا دعویٰ ایسا ہے جس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت جو اسی نسخ کے مضمون پر پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے : وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ 1ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 00101 (النحل 16 : 101) اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ وہ کیا نازل کررہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم تو بس اپنے جی سے گھڑ لیا کرتے ہو حالانکہ ان میں اکثروں کو یہ معلوم نہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے ، مکہ میں کسی حکم کے منسوخ کئے جانے کا ذکر بھی روایات میں نہیں ملتا ۔ کیونکہ تفصیلی احکام تو دراصل نازل ہی مدینہ میں ہوئے۔ بس اس آیت سے نسخ کا استدلال کرنا اور پھر نسخ بھی ان آیات کا جو قرآن کریم کے اندر موجود ہیں غلط ہی نہیں بلکہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی حکومتوں اور اداروں میں کسی حکم کو منسوخ کر کے دوسراحکم جاری کردینا مشہور و معروف بات ہے لیکن انسانوں کے احکام میں نسخ کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ پہلے کسی غلط فہمی سے ایک حکم جاری کردیا بعد میں حقیقت معلوم ہوئی تو حکم کو بدل دیا۔ کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ جس وقت یہ حکم جاری کیا گیا اس وقت کے حالات کے مناسب تھا اور آگے آنے والے واقعات و حالات کا اندازہ نہ تھا جب حالات بدلے تو حکم بھی بدلنا پڑا یہ دونوں صورتیں احکام الٰہی میں نہیں ہو سکتیں اور اگر کوئی شخص ایسا نسخ قرآن کریم کی آیات میں تسلیم کرتا ہے تو اس کی یہ سوچ قرآن کریم کے بالکل منافی ہے اور اس آیت سے تو کسی طرح یہ استدلال ہو ہی نہیں سکتا ہے اس لئے کہ اس میں تو ملتوں اور قوموں کے عروج وزوال پر بحث کی گئی ہے اور قوموں کا مٹنا اور پیدا ہونا کون نہیں جانتا یا کون ہے جو انکار کرتا ہے ؟ آیت زیر بحث میں نُنْسِهَا کے لفظ میں بھی ان احکام کی طرف اشارہ ہے جو پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی امتوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنے انبیاء کی تعلیم میں اپنی طرف سے اضافہ کر لئے تھے اور اس کے باوجود وہ اپنے اضافہ کو بھی بھول گئے ۔ ورنہ قرآن کریم کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک طرف تو وحی الٰہی نازل ہو رہی تھی اور دوسری طرف کچھ ایسی آیات بھی تھیں جو نبی کریم ﷺ نعوذباللہ ساتھ بھولتے بھی جاتے تھے۔ اور پھر نہ صرف آپ اکیلے ہی بھول جاتے تھے بلکہ وہ حافظ قرآن صحابی جن کا کام ہی قرآن کریم کو حفظ کرنا تھا وہ بھی ساتھ ہی بھول گئے اور پھر چونکہ ہر آیت لکھوا دی جاتی تھی وہ تحریریں بھی کس طرح ساتھ ہی محو ہوجاتی تھیں۔ حاشاء للہ ہرگز نہیں۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم کی آیات کریمات کے اندر نسخ کا عقیدہ ان معنوں میں جو اوپر بیان ہوئے ہیں بالکل غلط ہے۔ صحابہ ؓ کے متعلق جو بعض روایات میں ایسے الفاط آگئے ہیں ان سے اس سے زیادہ کچھ مطلب معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک حکم کو جس میں کسی دوسرے کی تفصیل ہوجاتی تھی ایک رنگ میں اس کا نسخ کہہ دیتے تھے جیسے مثلاً پانی مل جانے سے تیمم کا حکم منسوخ ہوجاتا ہے ظاہر ہے کہ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ حکم درحقیقت قابل عمل نہیں رہا بلکہ اسکی منشاء یہ ہے کہ ایک حکم بعض شرائط کے تحت دیا جاتا ہے جب تک وہ شرائط اور حالات پیدا نہ ہوں اس وقت تک اس حکم پر عمل نہیں ہو سکتا اور اس طرح کے بیسیوں احکامات ہیں جیسے قصر نماز ہے تیمم ، سفر میں روزہ ، بیماری کی حالت میں روزہ کا حکم ، زکوٰۃ کے استعمال کرنے اور نہ کرنے کا حکم ہے۔ یعنی ایک ایسا وقت آسکتا ہے ایک آدمی کیلئے زکوٰۃ حلال تھی اور حرام ہوگئی یا حرام تھی مگر حلال ہوگئی۔ وصیت ہے۔ سفارش ہے اگر ان پر نسخ کا لفظ اطلاق کرتا ہے تو اس سے آخر وہ کون ہے جو انکار کرتا ہے ؟ یا کون ہے جو انکار کرے گا ؟
Top