Al-Qurtubi - At-Taghaabun : 9
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں روگ ہے پس اللہ نے انہیں اور زیادہ روگی کردیا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب لازم ہے اس لیے کہ جھوٹے ہیں
منافقین کے روگ کی حقیقت : 19: مرض اور بیماری کو کون نہیں جانتا ؟ لیکن یہ دل کاروگ ظاہری امراض سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے مثل مشہور ہے کہ تلواروں کے گھائو بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں کبھی نہیں بھرے جاتے بالکل اسی طرح ظاہری امراض بھی اگرچہ پریشان کن ہوتے ہیں تاہم ان کا علاج ممکن ہے لیکن دل کے مرض کا علاج سوائے اللہ کے ممکن ہی نہیں ہے یہ صحیح ہے کہ مرض اور بیماری اس کیفیت کو کہتے ہیں جس سے انسان اپنے اعتدال مناسب سے نکل جائے اور اس کے افعال میں خلل پیدا ہوجائے جس کا آخری نتیجہ ہلاکت اور موت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں ان نفسانی کیفیات کو بھی مرض کہا جاتا ہے جو نفس انسانی کے کمال میں خلل انداز ہوں اور جن کی وجہ سے انسان اپنے روحانی اعمال سے محروم ہوجاتا ہے جس کا آخری نتیجہ بھی روحانی موت و ہلاکت ہی ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو حالی (رح) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کسی نے بقراط سے جا کے پوچھا مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا ؟ کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں سبب یا علامت گر ان کو سمجھائیں تو تشخیص میں سو سو نکالیں خطائیں دوا اور پرہیز سے جی چرائیں یوں ہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں طبیبوں سے ہرگز نہ مانوس ہوں وہ یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ منافقین کا روگ کیسے بڑھتا ہے ؟ 20: منافقین کے دل کے روگ کو ترقی دو طریقوں سے ہوتی رہی۔ ایک اس طرح کہ جوں جوں اسلام کو مزید غلبہ و اقتدار حاصل ہوتا گیا ان لوگوں کے دل کی دھڑکن اور جلن بڑھتی گئی اور دوسرا اس طرح کہ کلام الٰہی کی ہر ہر آیت کے نزول کے ساتھ ان کے غیظ و غضب میں اور اضافہ ہوتا گیا۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں کی روز افزوں ترقی سے کون ہے جو واقف نہیں ؟ اور کلام الٰہی نے جس طرح ان کی چالوں اور مکاریوں کو واشگاف کیا اور جس انداز میں ان کو للکارا اس کی صدائیں آج بھی سورة انفال ، سورة توبہ اور المنافقون میں محفوظ ہیں۔ قرآن کریم نے ” فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا 1ۚ “ ارشاد فرما کر گویا اس بات کا اعلان کردیا کہ آگے جس فعل کا ذکر آرہا ہے وہ محض بطور ثمرہ یا نتیجہ پیدا ہوا ہے ان پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی گئی۔ ہوا صرف یہ ہے کہ اللہ کا قانون مشیت ایسا واقع ہوا ہے جس سے ان بدنصیبوں نے اپنے مرض کے بڑھانے کا کام لیا ہے تو وہ بڑھتا ہی گیا ہے۔ ورنہ اگر وہ اپنی عقل و ارادہ کا صحیح استعمال کرتے تو انہی اسباب سے جو ان کو پیش آئے وہ ہدایت بھی پاسکتے تھے۔ منافقت کی سزا کفر کی سزا سے بھی سخت ہے : 21: مطلب واضح ہے کہ انہوں نے اپنے مؤمن ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا جس کے سبب قانون الٰہی کے عین مطابق ان کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ عذاب کی یہ صورت وہ ہے جو مطلق کفر کے بدلہ میں عذاب دیئے جانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ مطلق کفر کے بدلہ میں عذاب عظیم تھا اور منافقت کے بدلہ میں عذاب الیم ارشاد فرمایا یعنی دکھ دینے والا جس میں تکلیف و اذیت کا پہلو اس سے بھی زیادہ نمایاں ہے اس سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہر منافق قانون الٰہی میں یقیناً کافر ہوتا ہے لیکن ہر کافر منافق نہیں ہوتا۔ منافقت کفر سے ایک درجہ بڑھ کر ہے اسی وجہ سے اس کا عذاب بھی کفر سے سوا ہے اللہ تعالیٰ اس بیماری سے بچائے۔ ایسے منافقوں اور ریاکاروں سے انجیل کا طرز خطاب بھی مطالعہ کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ تعلیم الٰہی کا یہ طرز کوئی نیا طرز بیان نہیں بلکہ پہلے سے چلا آ رہا ہے اور سب ایک ہی چشمہ ہدایت سے نازل شدہ ہیں۔ ” تم پر افسوس ہے کہ تم سفیدی بھری قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں۔ “ (متی 43 : 37) ” جو اولیاء کی صحبت میں منافقت کے ساتھ رہتے ہیں خدا انہیں غارت کر کے رہے۔ جو کوئی منافقت برتے خدا کرے چیل کوّے اس کی آنکھیں نکال کر رہیں۔ “ (تالمود 6 ص 514 ) ” جو کوئی منافقت برتتا ہے وہ غضب خدا وندی دنیا پر لاتا ہے ۔ اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور بچے جو ابھی رحم مادر میں ہوتے ہیں وہ تک اس پر لعنت کرتے ہیں اور اس کی جگہ جہنم ہے۔ “ (تالمودص 107)
Top