Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا پھر جیسے آسمان سے پانی کا برسنا ہے کہ اس کے ساتھ کالی گھٹائیں ، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک ہوتی ہے ، بادل جب زور سے گرجتے ہیں تو موت کا ڈر انہیں دہلا دیتا ہے ، تو اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے لگتے ہیں اور اللہ کا قانون منکروں کو گھیرے ہوئے ہے
منافقین کی دوسری جماعت کی مثال : 40: یہ دوسری قسم کے لوگ ہیں جو اپنی کمزوریٔ طبیعت کی وجہ سے ان مصیبتوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال ٹھیک اس شخص کی سی ہے جو شب کے وقت کہیں جا رہا ہو اور رعد و برق کے خوف سے اپنی جان بچانے کی فکر میں ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام تو قبول کرلیا مگر اب یہاں مشکلات کا سامنا ہے ، عزیزو اقارب ، وطن و دیار ، مال و جائیداد سے علیحدگی ہے۔ جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے لئے سر بکف پھرنا ہے۔ منہیات شرعیہ سے اجتناب ہے۔ یہ قربانیاں ان کو تکلیفوں میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ طبیعت کے کمزور ہیں اس لئے ان کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اب بھی اپنی کانوں اور آنکھوں سے کام نہ لیں گے تو ان پر عالم ممات طاری کردیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مثال سے منافقین کی اصلی حیثیت آنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے ان کی عام طور پر یہی کیفیت ہوتی ہے کہ ” لا الی ھولا ولا الی ھولاء “ کی پوری تفسیر بنے ہوتے ہیں یعنی نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ۔ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ : 41: ان کی طبیعت کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں یعنی مسلمان اور منکرین اسلام سے تعلقات قائم رہیں اگر اسلام کے ساتھ دوستی ہے تو اس طرح کہ کفر سے بھی رشتہ اخوت نہ ٹوٹنے پائے۔ حق کی تائید ہے تو باطل بھی قائم و دائم رہے نور سے استفادہ ہو رہا ہے تو ظلمت و تاریکی بھی کوئی بڑی چیز نہیں۔ بلکہ وقت آنے پر بڑے کام کی چیز ہے پھر کیوں اس سے مفت میں بیر مول لیا جائے ان کی حالت کا ذکر بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ کیا گیا ہے۔ ایک دو مقام کو دیکھ لینا بصیرت فطرت کے لئے کافی ہوگا ، چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ 1ۚ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّ ذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ 1ۙ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ 1ؕ فَاَوْلٰى لَهُمْۚ0020 طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ 1۫ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ 1۫ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْۚ0021 (محمد 27 : 20 ، 21) ” ظاہر میں ایمان لانے والے مسلمان کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ایسی سورت کیوں نازل نہیں ہوئی جس میں مشرکین سے جنت کا حکم دیا گیا ہو ؟ جب ایسی محکم اور شک و شبہ سے بالاتر سورت نازل کردی گئی جس میں کفار سے لڑائی کا حکم تھا تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں مرض نفاق ہے وہ یہ حکم سن کر آپ کی طرف اس طرح حیرت سے دیکھتے ہیں جس طرح موت کی غشی میں مبتلا آدمی دیکھتا ہے حالانکہ ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سچی اتباع اور پیروی کریں۔ “ (47 : 20 ، 21) ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا گیا : قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ۠ مِنْكُمْ وَ الْقَآىِٕلِیْنَ۠ لِاِخْوَانِهِمْ ہَلُمَّ اِلَیْنَا 1ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ0018 اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ 1ۖۚ فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ 1ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ 1ؕ وَ کَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا 0019 (الاحزاب 33 : 18 ، 19) ” اللہ تعالیٰ ان منافقین کو خوب جانتا ہے جو راہ حق کے بارے میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور انہیں بھی جانتا ہے جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اس پیغمبر کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ شامل ہوجائو ، یہ لوگ لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو مجبوراً اور بہت تھوڑا سا دکھاوے کے لئے ، اور وہ لوگ تمہارا کسی کام میں دل کھول کر ساتھ نہیں دیتے اور دشمن کی طرف سے اگر کوئی خوف یا خطرہ پیش آجائے تو آپ کی طرف اس طرح دیدے پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں جیسے کسی پر نزع کی حالت میں غشی طاری ہورہی ہو اور جب خوف و خطرے کا وقت گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فتح و بصیرت کے بعد قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لے کر آپ کے استقبال کے لئے پیش پیش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ساتھ شریک جنگ تھے ہمارا حصہ ملنا چاہیے۔ یہ ہرگز مؤمن نہیں ہیں اسلئے اللہ تعالیٰ نے انکے سارے اعمال اکارت وضائع کردیئے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کے قانون کے مطابق ہوا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں بلکہ بالکل آسان ہے۔ “ (33 : 18 ، 19)
Top