Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
پھر جب بجلی زور سے چمکتی ہے تو قریب ہے کہ ان کی بینائی اچک لے ، اس کی چمک سے جب فضا روشن ہوجاتی ہے تو دو چار قدم چل لیتے ہیں اور جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو پھر رک جاتے ہیں ، اگر اللہ چاہے تو یہ لوگ بالکل بہرے ، اندھے ہو کر رہ جائیں اور اللہ یقینا ہرچیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کرنے والا ہے۔
خلاصۃ الکلام : 42: منافقین کا پہلا گروہ تو ایڑی سے چوٹی تک اسلام کا شدید دشمن ہے۔ اس سے کسی خیر و صلاحیت کی توقع رکھنا ہی فضول ہے البتہ دوسری قسم کے لوگ جن کی مثال ” اَوْ کَصَیِّبٍ “ سے دی گئی ہے ایسے ہیں کہ ان کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے ، رشد و ہدایت ان کے سامنے ہو تو ممکن ہے ترغیب و ترہیب سے وہ اپنے اندر عبرت و مؤعظت پیدا کریں اور سچے دل سے دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب آنے والی آیات میں ان کی جانب توجہ کی جاتی ہے اور تذکیر بآلاء اللہ کے ذریعہ ان کے لئے تنبیہ اور عبرت کی راہ کھولی جاتی ہے اور یہ بات اس مضمون سے خود بخود نکل آتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ : ” اگر اللہ چاہے تو یہ لوگ بالکل بہرے ، اندھے ہو کر رہ جائیں “ یعنی ابھی قانون الٰہی کے مطابق ان کو موقع دیا جارہا ہے کہ اگر یہ سیدھی راہ چلنا چاہیں تو چل سکتے ہیں۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو ہرچیز پر قادر ہے : 43: قدیر قدرۃ سے ہے۔ قادر اور قدیر ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت خاص ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی عجز و کمزوری سے پاک ہے اس کا مفہوم اس طرح بیان کیا گیا ہے : الفاعل لما یشاء علی قدرما تقتضی الحکمۃ لا زائد علیہ ولا ناقصا عنہ ۔ یعنی کرنے والا اس کا جسے وہ چاہے اس اندازے پر جو حکمت کا اقتضا ہے نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم (راغب) یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے ہرچیز کو ایک خاص بندھن میں باندھ دیا ہے ایک خاص انداز اس کے لئے مقرر کردیا ہے ایک خاص قانون اس کے لئے بنادیا ہے۔ اب کوئی چیز اس بندھن ، اس انداز اور اس قانون سے انحراف نہیں کرسکتی۔ اگر اس کے خلاف ہو تو اللہ کی قدرت میں نقص آتا ہے اور اللہ کی ذات ہی وہ ذات ہے جو ہر نقص سے پاک ہے۔ افسوس ! کہ لوگوں نے اللہ کے قادر یا قدیر ہونے کو کیا سمجھا ؟
Top