Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَکَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِآيَاتِنَا : ہماری آیات أُوْلَٰئِکَ : وہی اَصْحَابُ النَّار : دوزخ والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
لیکن جو کوئی انکاری ہوگا اور ہماری نشانیاں جھٹلائے گا وہ دوزخی گروہ میں سے ہوگا یعنی ہمیشہ عذاب میں رہنے والا
ہدایت الٰہی کے منکرین کے لئے انتباہ : 87: آدم (علیہ السلام) کا قِصّہ جو دراصل فطرت انسانی کی حقیقی داستان ہے ، کے اختتام پر منکرین ہدایت الٰہی کو ایک بار متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جس نے ہماری یاد سے روگردانی کی تو اس کی زندگی ضیق میں گزرے گی اور قیامت کے روز بھی ہم اس کو اندھا کر کے اٹھائیں گے اور عذاب ِجہنم میں وہ مسلسل تکلیف اٹھاتا رہے گا۔ جس سے یہ مسئلہ صاف ہوگیا کہ مذہب انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اسی لئے وہ مجبور ہے کہ ناموس الٰہی کے آگے اپنی گردن جھکا دے۔ جس طرح ہمارے ماں باپ برابر پریشان و مضطرب پھرتے رہے تاآنکہ وحی الٰہی نے چند کلمات الہام کئے جو ان کے اطمینان قلب کا باعث بنے ۔ اب قِصّہ آدم نے اس دعویٰ پر مہر لگا دی کہ دنیا میں انسان کو سکون و اطمینان صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو وحی الٰہی کا پابند بنائے ورنہ اس کے بغیر اس کی زندگی بالکل بیکار ہوجائے گی۔ قِصّہ آدم (علیہ السلام) قرآن کریم کی زبان میں : قرآن کریم میں آدم (علیہ السلام) کا قِصّہ آٹھ سورتوں میں بیان ہوا ہے۔ سورة البقرہ ، سورة آل عمران ، سورة الاعراف ، سورة الحجر ، سورة بنی اسرائیل ، سورة الکہف ، سورة طہ اور سورة ص میں ۔ کسی جگہ کوئی مضمون بیان ہوا ہے کسی جگہ کوئی ، کسی جگہ اجمال ہے اور کسی جگہ تفصیل۔ کسی جگہ ایک مضمون کو کسی لفظ یا عبارت سے ظاہر کیا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے لفظ یا عبارت سے مگر ، سب کا نتیجہ یا مقصد متحد ہے ہم یہاں ان آٹھوں سورتوں کے مضمون کو اس طرح جمع کرتے ہیں جس میں تمام مضمون جو قرآن کریم میں آئے ہیں ایک جگہ سلسلہ وار جمع ہوجائیں اور ازیں بعد اس کا ترجمہ و مفہوم بھی لکھ دیں گے تاکہ پورا قِصّہ انہی الفاظ میں جو قرآن کریم میں آئے ہیں ایک جگہ اکٹھا ہوجائے تاکہ قارئین ” عروۃ “ اس سے مستفید ہو سکیں۔ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً 1ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ 1ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ 1ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 0030 (بقرہ 2 : 30) اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ 0071 (ص 38 : 71) مِنْ تُرَابٍ (آل عمران 3 : 59) مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ0026 (الحجر 15 : 26) وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ 1ۙ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ۠ بِاَسْمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 0031 قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا 1ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ 0032 قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ 1ۚ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ 1ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ۙ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا کُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ 0033 وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ 1ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَٞ ۗ وَ کَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ 0034 (بقرہ 2 : 31 ، 33) وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ 1ۖۗ(الا عراف 7 : 11) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ 0029 (الحجر 15 : 29) فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ0030 (15 : 30) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ 0011 (الا عراف 7 : 11) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ 0029 (الحجر 15 : 29) فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ0030 (15 : 30) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ 0011 (الاعراف 7 : 11) کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ 1ؕ (الکہف 18 : 50) اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ 0031 (الحجر 15 : 31) وَ اسْتَكْبَرَٞ ۗ وَ کَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ 0034 (البقرہ 2 : 34) قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ 0032 (الحجر 15 : 32) مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ 1ؕ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ 0075 (صٓ 38 : 75) مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ 1ؕ (الاعراف 7 : 12) قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ0061 (بنی اسرائیل 17 : 21) لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 0033 (الحجر 15 : 33) اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ 1ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ 0012 (الاعراف 7 : 12) قَالَ فَاہْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا 1ؕ (الاعراف 7 : 18) فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۙ0034 وَّ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ 0035 (الحجر 15 : 35) اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ 0013 قَالَ اَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ 0014 قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ 0015 (الاعراف 7 : 15) اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ 0038 قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ (الحجر 15 : 38 ، 39) فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ0082 (صاد 38 : 82) لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ0016 ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ 1ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ 0017 (الاعراف 7 : 17) قَالَ اَرَءَیْتَكَ ہٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّٞ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا 0062 (بنی اسرائیل 17 : 62) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ 0040 قَالَ ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ 0041 (الحجر 15 : 40 ، 41) (قَالَ فَالْحَقُّٞ وَ الْحَقَّ اَقُوْلُۚ0084 ) (ص 38 : 84 ) لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ 0018 (الاعراف 7 : 18 ) مِنْكَ وَ مِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ 0085 (ص 38 : 85 ) قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآ ؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا 0063 وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ 1ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا 0064 (الاسرا 17 : 63 ، 64 ) اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ 0042 (الحجر 15 : 42 ) وَ کَفٰى بِرَبِّكَ وَكِیْلًا 0065 (الاسراء 17 : 65 ) وَ اِذْ قُلْنَا (البقرہ 2 : 34 ) حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا ہٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ 0019 (الاعراف 7 : 19 ) مِنْهَا رَغَدًا (بقرہ 2 : 35 ) حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا ہٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ 0019 (الاعراف 7 : 19 ) فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى00117 - - - - - - - اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ00118 وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى00119 (طہٰ 20 : 117 تا 119 ) فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا (الاعراف 7 : 20 ) قَالَ یٰۤاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى00120 (طہٰ 20 : 120 ) وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ 0020 وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ0021 فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ 1ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ 1ؕ (الاعراف 7 : 20 تا 22 ) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیْهِ 1۪ وَ قُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ 1ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ 0036 ( البقرہ 2 : 36) قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ (رح) 0025 ( الاعراف 7 : 25) وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰىۖ00121 (طہٰ 20 : 121 ) فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ 1ؕ اِنَّهٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ 0037 (البقرہ 2 : 37 ) قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 0023 (الاعراف 7 : 23 ) ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَ ہَدٰى 00122 (طہٰ 20 : 122) قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا 1ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ ہُدًى فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ 0038 ( البقرہ 2 : 38) فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰى00123 (طہٰ 20 : 123 ) اے پیغمبر اسلام ! اس وقت کا ذکر کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی ؟ حالانکہ ہم تیری حمدو ثنا کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی کا اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا میری حقیقت جس نظر پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں ! میں پیدا کرنے والا ہوں ایک آدمی گارے ، مٹی ، رتیلے گارے ، بدبودار کیچڑ سے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سب نام سکھا دیئے یعنی اس کی فطرت میں رکھ دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ مجھ کو ان کے نام بتائو اگر تم اپنے بیان میں سچے ہو ، وہ بولے تو ہی برگزیدہ ہے تو نے جو کچھ ہم کو سکھایا ہے یعنی ہماری فطرت میں رکھا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے بیشک تو جاننے والا حکمت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم ! ان کے نام ان کو بتا دے پھر جب ایسا ہوا کہ آدم نے ان کے نام ان کو بتا دیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ میں آسمان اور زمین کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں بیشک ہم نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کی بزرگی کا اعتراض کرتے ہوئے سجدہ کرو۔ پھر ایسا ہوا کہ سب فرشتوں نے سجدئہ شکر ادا کیا مگر ابلیس یعنی شیطان نے آدم (علیہ السلام) کی بزرگی کا اعتراف کرنے سے انکار کردیا اور سجدہ بجا نہ لایا۔ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ دراصل وہ جنوں میں سے تھا یعنی مجموعہ قوائے بہیمی ! اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا اور تکبر کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا سجدہ کیسے کرتا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : اے ابلیس تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ کیوں نہ دیا ؟ کس چیز نے تجھے سجدئہ شکر بجا لانے سے روکا کہ میرے حکم کرنے پر بھی تو سجدہ نہ کرے حالانکہ اس کو میں نے پیدا کیا اور وہ میری قدرت کا مظہر تھا۔ کیا تو نے تکبر کیا اور بڑوں میں شمار ہونے لگا۔ تو نے میرے حکم کی کوئی پروا نہ کی۔ بتا تجھے کیا چیز آڑے آئی ؟ ابلیس بولا ! کہ کیا میں ایسے کی بزرگی مان لوں اور سجدہ کروں جس کو تو نے سڑی مٹی سے بنایا ہے۔ میں اس سے بہتر ہو ، مجھ کو تو نے آگ سے پیدا کیا اور اس کو تو نے ریتلے گارے اور بدبودار کیچڑ سے پیدا کیا۔ ارشاد الٰہی ہوا کہ یہاں سے دور ہوجا ! ہٹ جا ! تجھ کو تکبر کرنا زیب نہیں دیتا۔ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کے نکلتا بن ! تُو تو نہایب ہی مردود ہے اور یہ مردود ہونا تیرے لئے لازم ہوگیا ہے ۔ یاد رکھ کہ تجھ پر قیامت تک لعنت برستی رہے گی ۔ تو نہایت ہی ذلیل اور کمینوں سے ہے ابلیس کہنے لگا کہ قیامت تک مواخذہ نہ ہونے کی مجھے مہلت دیدے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جا ! تو مہلت دیا گیا ہے اس وقت معین تک جس کو قیامت کا روز کہا جاتا ہے ۔ پھر ابلیس بولا کہ : اے رب ! مجھ کو تیرے بہکانے کی قسم میں وہ ہوں کہ دنیا میں بری باتوں کو انہیں اچھی کر دکھائوں گا اور تیری عزت کی قسم ! ان سب کو بہکائوں گا اور ان کے لئے تیرے سیدھے راستے کی راہ ماری کرنے کو گھات لگائوں گا پھر ان کے آگے سے ، پیچھے سے اور ان کے دائیں اور بائیں سے ان پر پڑنے کی کوشش کروں گا اور تو ان میں بہتوں کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ ابلیس نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے بتا کہ تو نے کیوں اس شخص کو مجھ پر بزرگی دی۔ اب جب تو نے مجھے ڈھیل دی ہے تو میں اس شخص کی اولاد کو بجز چند معدودے لوگوں کے جڑ پیڑ سے اکھاڑ دوں گا بجز تیرے خالص بندوں کے جو ان میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا خالص بندہ ہونا ہی میرے تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے اور فرمایا کہ سچی بات یہ ہے اور یاد رکھ کہ میں سچ ہی کہتا ہوں جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں ان کو تیرے سمیت جہنم میں بھر دوں گا اور جو تیرے پیچھے چلیں گے سب کے لئے میرا یہی حکم ہے کہ تم سب کو جہنم کی سزا ہوگی اور تم کبھی اس سے بچ نہیں سکو گے۔ جا ! ان میں سے جس جس کو تو بہکا سکتا ہے بہکا لے اپنی آواز سے ، اور ان پر اپنے سوار اور پیدل سب دوڑا لے اور اپنا حصہ بانٹ لے ان کے مال اور اولاد سے اور ان کو وعدے دے لے جو تو دے سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تیرا ہر وعدہ جھوٹ اور دھوکہ کا پلندہ ہے یاد رکھ کہ میرے بندوں پر تجھ کو کچھ غلبہ نہیں ہے۔ سوائے ان گمراہوں کے جنہوں نے تیری پیروی کی ، اور اے پیغمبر اسلام ! تیرا رب ان کی کارسازی کے لئے کافی ہے اور ہم نے کہا یعنی اعلان الٰہی ہوا کہ اے آدم ! تو اور تیرا جوڑا دونوں جنت میں رہو اور پیٹ بھر کر کھائو اور پیو جہاں سے تم کھانا چاہتے ہو اور پینا پسند کرتے ہو لیکن یاد رکھنا کہ اس درخت کے پاس مت جانا۔ اگر جائو گے تو اپنے آپ سے زیادتی کرو گے پھر ارشاد الٰہی ہوا کہ اے آدم ! یاد رکھ یہ ابلیس تیرا اور تیرے جوڑے کا دشمن ہے۔ یہ تمہارے جنت سے نکالے جانے کا سبب نہ بن جائے اگر ایسا ہوا تو تم بدبخت ہو گے ۔ یہاں تم نہ بھوکے ہو گے نہ ننگے ، نہ پیاسے ہو گے اور نہ دھوپ تم کو ستائے گی پھر شیطان نے ان کو وسوسہ میں ڈال دیا جس سے ان کی پوشیدہ کمزوریاں ان پر ظاہر ہوگئیں اس نے وسوسہ یوں ڈالا ، کہنے لگا اے آدم ! میں تجھ کو ہمیشہ رہنے کا درخت اور نہ ختم ہونے والی سلطنت بتا دوں ؟ دیکھو ! اللہ نے تم کو بجز اس کے اور کسی لئے اس درخت سے منع نہیں کیا کہ تم کھائو گے تو فرشتے ہو جائو گے اور اس جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہو جائو گے اور قسمیں کھا کھا کر ان کو باور کرا لیا کہ میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں اس طرح ان دونوں کو اپنے فریب میں پھنسا لیا اور جب انہوں نے اس درخت کو چکھا تو ان دونوں پر ان کی پوشیدہ کمزوریاں ظاہر ہوگئیں اور ان کو سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔ اب انجام کار وہ درختوں کے پتوں سے اپنے آپ کو چھپانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا اور بتایا نہیں تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا شیطان نے ان کو بہکا دیا اور ان کو وہاں سے نکلوا دیا جس میں وہ خوش و خرم رہ رہے تھے۔ جب وہاں سے نکل جانے کا حکم الٰہی ان کو پہنچا تو ساتھ ہی بتادیا گیا کہ اب تمہاری یہ دشمنی پکی ہوگئی اور تمہارے پھرنے کی جگہ عالم زمین ہوگی اور تم کو یہاں ایک معین مدت تک رہنا ہوگا۔ یہاں تم زندگی بسر کرو گے اور یہیں مرو گے اور یہیں سے تم دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائو گے۔ اس طرح آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور وہ بھول گیا۔ پھر آدم کے دل میں اللہ تعالیٰ نے چند کلمات ڈال دیئے ایسا اس لئے ہوا کہ اس نے معافی طلب کرلی سو اس کو معاف کردیا گیا اس طرح آدم (علیہ السلام) اور اس کی بی بی نے وہ کلمات ادا کئے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر خود ظلم کرلیا اور اگر تو معاف نہ کرے گا اور رحم نہ فرمائے گا تو ہم خسارے میں رہیں گے اس کے رب نے اس کی پکار سن لی اس پر لوٹ آیا اور اس کو سیدھی راہ بتادی پھر اللہ نے کہا اب یہاں سے دور ہوجائو زمین میں رہو اور تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آتی رہے گی یاد رکھو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی اس پر کچھ خوف و خطر نہیں ہوگا اور نہ وہ کبھی غمگین ہوگا نہ وہ اب بہکے گا ، اور نہ ہی اس پر بدبختی چھائے گی۔ قِصّہ آدم (علیہ السلام) پر ایک طائرانہ نظر : جیسا کہ پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہم قِصّہ آدم (علیہ السلام) کو صرف انسانی فطرت کا اس فطرت کی زبان حال سے بیان قرار دیتے ہیں پس انسان کا جنت میں رہنا اس کی فطرت کی ایک حالت کا بیان ہے جب تک کہ وہ مکلف کسی امرو نہیں کا نہ تھا۔ وللہ من قال طفی و دامان مادر خوش بہشے بودہ است ۔ چوں بپائے خود رواں گشتیم سرگرداں شدیم اور اس کا شجرۃ ممنوعہ کے پاس جانا ، اس کا پھل کھانا اس کی فطرت کی اس حالت کا بیان ہے جب کہ وہ امرونواہی کا مکلف ہوا ، اور ہبوط سے اس کی فطرت کی اس حالت کا تبدیل ہونا مراد ہے جب کہ وہ غیر مکلف سے مکلف ہوا۔ ہبوط کے لفظ کا استعمال صرف انتقال مکان ہی پر مختص نہیں ہے۔ (قاموس) اس بات کا ذکر کہ اللہ نے کس چیز سے آدم (علیہ السلام) یا تمام زمین پر چلنے والے جانداروں کو پیدا کیا متعدد لفظوں سے قرآن کریم میں مذکور ہے ایک جگہ فرمایا ہے : اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ 0071 ایک جگہ بیان فرمایا : خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ، ایک جگہ ارشاد ہوا : مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ0026 ایک جگہ فرمایا : وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا ، ایک جگہ فرمایا ہے : خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ 1ۚ ، ایک جگہ فرمایا : وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ 1ؕ ۔ اب غور کرو ” طِیْنٍ “ کے معنی گارے کے ہیں ۔ ” تُرَابٍ “ کے معنی مٹی کے ہیں۔ ” صَلْصَالٍ “ کے معنی رتیلے گارے کے ہیں اور اور حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ، اس بدبودار کیچڑ کو کہتے ہیں جو پانی کے نیچے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ” الْمَآءِ “ کا لفظ تین جگہ آیا ہے خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ 1ۚ اورو جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ 1ؕ ۔ ان دونوں مقام میں جو لفظ ” مَّآءٍ 1ۚ“ ہے اس سے تو نطفہ مراد ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دَآبَّةٍ کے پہلے جو ” كُلَّ “ کا لفظ آیا ہے اس میں تمام دابہ جو زمین پر چلتے ہیں ، داخل ہیں چناچہ خود قرآن کریم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ : فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖ 1ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْنِ 1ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ 1ؕ۔ (النور 24 : 45) حالانکہ بہت سے دابہ ایسے ہیں جو نطفے سے پیدا نہیں ہوتے اور ” مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا “ میں جو لفظ ” ماء “ ہے اس سے بھی نطفہ مراد نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ یہاں بیان انسان کی اوّل خلقت کا ہے اور خلقت اوّل انسان کی نطفہ سے نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد دریا یا سمندر کا پانی ہی ہوسکتا ہے۔ پھر اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَ ہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ 1ۚ وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا 0053 (الفرقان 25 : 53) اس کے بعد فرماتا ہے : وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا ۔ پس ” الماء “ میں جو الف لام ہے وہ صاف اسی پانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا اوپر بیان ہے۔ علامہ بیضاوی نے بھی بطور قول مرجح اسی بات کو اختیار کیا ہے اور پانی سے وہی پانی مراد لیا ہے۔ پس ان تمام آیتوں پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کی ترکیب کیمیاوی سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے اس سے انسان اور تمام جاندار مخلوق ہوئے۔ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ0014 دو چیزوں کا آپس میں مرکب ہونا دو طرح پر ہوتا ہے۔ ایک اس طرح پر کہ ظاہر میں ان دونوں کے اجسام مل گئے اور کچھ دیر کے بعد پھر جدا ہوگئے۔ مثلاً ہم ایک بوتل میں پانی اور نہایت باریک ریت ڈال دیں اور بوتل کو خوب ہلائیں تو ریت اور پانی بالکل مل جائے گا مگر جب تھوڑی دیر رکھ دیں تو ریت الگ اور پانی الگ ہوجائے گا ۔ یا ہم مٹی میں پانی ڈال کر اس کا گارا بنادیں تو مٹی اور پانی مل جائے گا مگر جب اسی طرح پڑا رہنے دیں تو پانی ہوا اور بخارات ہو کر نکل جائے گا اور نری مٹی رہ جائے گی۔ اسی طرح پر دو چیزوں کا مرکب ہونا درحقیقت حقیقی ترکیب نہیں ہے۔ اور ترکیب کیمیاوی یہ ہے کہ دو چیزیں آپس میں اس طرح پر ملیں کہ ازخود جدا نہ ہوسکیں بلکہ وہ دونوں مل کر ایک تیسری چیز بن جائے پس ” طِیْنٍ “ ، ” تُرَابٌ “ ، ” صَلْصَالٍ “ ، ” حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ “ اور ” ماء “ کی ترکیب کیمیاوی سے جو چیز پیدا ہوئی ، وہ انسان کا خمیر ہے یعنی اس سے انسان پیدا ہوا ہے وہ چیز غالباً وہ ہے جو سطح آب پر جمع ہوجاتی ہے اور نہ وہ مٹی ہوتی ہے نہ ریت ، نہ گارا ، نہ کیچڑ بلکہ ان سب کی ترکیب کیمیاوی سے ایک اور ہی چیز بن جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اسی سے تمام جاندار ، انسان اور حیوان مخلوق ہوئے ہیں جو تخلیق اوّل کہلاتے ہیں اور یہی بات قرآن کریم سے پائی جاتی ہے۔ اس قِصّہ میں چار فریق بیان ہوئے ہیں : 1: اللہ۔ 2: فرشتے (قوائے ملکوتی) ۔ 3: ابلیس ( قوائے بہیمی) ۔ 4: آدم یعنی انسان جو مجموعہ ان قویٰ کا ہے اور جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ مقصود قِصّہ کا انسانی فطرت کی زبان حال سے انسان کی فطرت کا بیان کرنا ہے۔ اللہ جو سب کا پیدا کرنے والا ہے گویا قوائے ملکوتی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ میں ایک مخلوق یعنی انسان کثیف مادہ سے پیدا کرنے والا ہوں اور وہی میرا نائب ہوگا۔ جب میں اس کو پیدا کر چکوں تو تم اس کی بزرگی کو تسلیم کرلینا اور سجدۃ شکر بجالانا۔ اس مقام پر مخاطبین کو اس بات کا کہ اس مخلوق یعنی انسان میں قوائے بہیمیہ ہوں گے ، عالم قرار دیا گیا ہے۔ اور بمقتضائے فطرت ان قویٰ کے ، انہوں نے یعنی مخاطبین نے کہا کہ کیا تو ایسے کو خلیفہ کرے گا جو زمین پر فساد مچائے گا اور خون بہائے گا اور ان مخاطبین یعنی قوائے ملکوتی نے اپنی فطرت اس طرح بیان کی کہ ہم تو تیری ہی تعریف کرتے ہیں اور تجھ پاک ہی کو یاد کرتے ہیں۔ پچھلا فقرہ قویٰ کی فطرت کو بھی بتاتا ہے کہ جو قویٰ جس کام کے لئے ہیں وہی کام کرتے رہتے ہیں کہ وہی ان کی تسبیح اور تقدیس ہے جیسے قوت نامیہ انما ، قوت ناطقہ نطق ، اور قوت احراق حرق ، قوت سیالہ سیلان اور قوت جامدہ انجماد کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی۔ انسان باوجودیکہ قوائے متضادہ ملکوتیہ و بہیمیہ سے مرکب ہے مگر اس میں ایسی قدرت ہے کہ ایک قوت پر دوسری قوت کو غلبہ دے سکتا ہے چونکہ صاحب ارادہ ہے۔ جس قوت سے چاہے کام لے سکتا ہے۔ غیر معلوم چیزوں کو جان جاتا ہے عالم کے اجزاء میں ترکیب دے کر ایک نئی چیز ایجاد کرلیتا ہے اور عالم کے تبدل میں اللہ کی دی ہوئی صلاحیت سے ایک بڑی مداخلت رکھتا ہے اور ٹھیک اللہ کا نائب کہلانے کا مستحق ہے۔ انسان کی فطرت کا مخاطبین یعنی قوائے ملکوتی پر فطری تفوق ظاہر کرنے کے لئے تمام کمالات نفسانی و روحانی و حقائق و معارف کو انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا پھر اس کو تعلیم اسماء سے تعبیر کیا ہے انسان کو مخاطبین یعنی قوائے ملکوتی کے سامنے کیا جو حقائق و معارف ان میں ہیں ان کو بتلاؤ ۔ قوائے ملکوتی کی فطرت میں اس کا علم نہ تھا۔ پس گویا وہ بولے کہ ہم تو ان کمالات کو نہیں جانتے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے بتایا ہے یعنی جس محدود فطرت پر پیدا کیا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر انسان کی زبان حال نے جس کی فطرت میں ادراک کلیات و جزئیات تھا مخاطبین قوائے ملکوتی کی حقیقت کو بتادیا جس سے یہ سبق دیا کہ گویا مخاطبین یعنی قوائے ملکوتی نے زک پہنچائی۔ اب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و کمال سے اظہار کے لیے انسانی محاورہ کے موافق جیسے کہ انسان کسی کو زک دے کر دہراتا ہے ، فرماتا ہے کہ کیوں میں نہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ ازیں بعد اللہ تعالیٰ نے ان قوائے متضادہ کی جن سے انسان مرکب ہے اسی طرح پر فطرت بتائی ہے کہ قوائے ملکوتی اطاعت پذیر و فرمانبردار ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں مگر قوائے بہیمیہ نہایت سرکش اور نافرمانبردار ہیں ، انہیں کو قابو میں لانا اور فرمانبردار کرنا انسان کا انسان ہونا ہے۔ ان قوائے بہیمیہ کے سرکش ہونے کو کبھی تو ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ ” ابلیس نے سجدہ نہیں کیا “ کہیں یوں فرمایا ہے کہ ” اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور سجدہ کرنے سے انکار کیا “ کہیں فرمایا ہے کہ ” اس کافر نے غرور کیا اور کہا کہ کیا میں ایسی مخلوق کے لئے سجدہ کروں جو سڑی مٹی سے بنی ہے ، میں تو اس سے افضل ہوں۔ وہ تو مٹی کا پتلا ہے اور میں آگ کا پوت ہوں۔ “ قوائے بہیمیہ کو جن کا مبداء حرارت عزیزی و حرارت خارجی ہے آگ سے مخلوق ہونا بیان کرنا ٹھیک ٹھیک ان کی فطرت کا بتلانا ہے پھر جو فطری تضاد ان دونوں قسم کے قویٰ میں ہے اس کے اظہار کے لئے قوائے بہیمیہ کو بطور ایک سخت دشمن کے قرار دیا ہے اور اس کی زبان حال سے اس کی فطرت بیان کی ہے کہ میں ہمیشہ جب تک انسان زندہ ہے یا قیامت تک یعنی جب تک اس کی اولاد رہے گی اس کو بہکاتا اور راہ راست پر سے بھٹکاتا رہوں گا۔ یہ الفاظ کہ میں انسان کو دائیں سے بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے غرض کہ ہر چہار طرف سے گھیروں گا صاف صاف ان قوائے بہیمیہ کی فطرت کا اظہار کرتے ہیں جو انسان میں ہے اور ہر ذی عقل و ہوش غور کرنے پر خود اپنے میں یہ سب باتیں پاتا ہے اور جان سکتا ہے کہ کس طرح ان قوائے بہیمیہ نے چاروں طرف سے اس کو گھیر رکھا ہے۔ درمیان قعر دریا تختہ بندم کردۃ ۔ بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش پھر اللہ تعالیٰ نے نیک آدمیوں کی فطرت کو اور اس دشمن کے فریب میں آنے والوں اور نہ آنے والوں کے فطری نتیجہ کو بتایا ہے اور فرماتا ہے کہ تو جتنی چاہے دشمنی کر اور جس طرح چاہے اپنے لشکر سے ان پر چڑھائی کر ، مگر نیک آدمیوں پر تیرا کچھ قابو نہ ہوگا۔ وہی بہکیں گے جو تیرے یعنی قوائے بہیمیہ کے تابع ہونے والے ہیں اور دونوں کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ پہلے بہشت میں چین کریں گے اور پچھلے دوزخ میں بھرے جائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے دونوں حصوں کو بتایا ہے پہلے حصہ کو یعنی جب کہ انسان غیر مکلف اور تمام قیود سے مبرا ہوتا ہے بہشت میں رہنے ، چَین پانے اور میووں کے کھاتے رہنے سے تعبیر کیا ہے اور جب دوسرا حصہ اس کی زندگی کا شروع ہونے والا ہے تو اس کے قدیم دشمن کو پھر بلایا ہے جس نے اس کو بہکا کر درخت ممنوعہ کو کھلایا ہے۔ یہ وہ حصہ انسان کی زندگی کا ہے جب کہ اس کو رشد ہوتا ہے اور عقل وتمیز کے درخت کا پھل کھا کر مکلف اور اپنے تمام افعال و اقوال و حرکات کا ذمہ دار ہوتا ہے زندگی کے ضروری سامان کے لئے خود محنت کرتا ہے اور نیک و بد کو خود سمجھتا ہے۔ اپنی بدی سے واقف ہوتا ہے اور اس کو چھپاتا ہے۔ یہ فطرت انسانی اللہ نے باغ کے استعارہ میں بیان کی ہے۔ اس لئے تمام فطرت کو باغ ہی کے استعارہ میں بیان فرمایا ہے۔ سن رشد وتمیز کے پہنچنے کو درخت معرفت خیر و شر کے پھل کھانے سے اور انسان کو اپنی کمزوریوں کے چھپانے کو درخت کے پتوں سے ڈھانکنے سے تعبیر کیا ہے مگر شجرۃ الخلد کے پھل تک اسکو نہیں پہنچایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک فانی وجود ہے اور اس کو دائمی بقا نہیں ہے۔ اخیر کو نہایت عمدگی سے اس کا خاتمہ بیان کیا ہے کہ تم سب نکل جائو اور جا کر زمین پر رہو ، وہی تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہے اس میں تم رہو گے۔ اسی میں مرو گے ، اسی میں سے دوبارہ اٹھائے جائو گے ، تمہاری کمزوریوں اور بدیوں کا علاج بھی وہیں ہے جو نیک بندے ہوں ان کی دی ہوئی ہدایت پر چلنا اور اپنی کمزوریوں اور بدیوں سے شرمندہ ہو کر ان کے کرنے سے باز آنا اور اپنے رب سے پکا اقرار کرنا کہ پھر نہ کریں گے اور پھر مت کرنا۔ تم اپنے دشمن پر فتح پائو گے ، پھر تم کو کچھ ڈر اور خوف نہ ہوگا۔ اچھے خاصے اور مقبول بندے ہوگے۔ یہ ایک نہایت عمدہ اور دلچسپ بیان فطرت انسانی کا ہے مگر عام لوگ اس راز فطرت کے سمجھنے کے قابل نہ تھے اسی لئے اللہ رب العٰلمین نے ابتداء سے اس راز کو ایک دلچسپ قِصّہ کے پیرایہ میں بیان کیا ہے جس کو ہر انسان سمجھ سکتا ہے اور جو نتیجہ راز فطرت سے انسان کو حاصل ہونا چاہیے وہ ہر شخص کو حاصل ہوتا ہے خواہ تم یہ سمجھو کہ اللہ اور فرشتوں میں مباحثہ ہوا اور شیطان نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور آدم (علیہ السلام) بھی گیہوں کا درخت کھا کر نافرمانبردار ہوا لیکن پھر سنبھل گیا۔ اب شیطان اور انسان میں جنگ جاری ہے خواہ ہم یہ سمجھیں کہ اس بڑے صانع حقیقی نے جو صناعت کا ایک رازداں بنایا اس کے راز کو اسی کے رازوں کی اصطلاحوں میں بیان کردیا۔ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ 1ؕ. وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ. سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ازالہ اوہام ! : انسان اوّل کی پیدائش کا مسئلہ : تخلیق آدم (علیہ السلام) یعنی انسان اوّل کے عالم وجود میں آنے کا مسئلہ آج علمی نقطہ نگاہ سے بحث کا ایک نیا دروازہ کھولتا ہے۔ یعنی ارتقاء کا یہ دعویٰ ہے کہ موجودہ انسان اپنی ابتدائی تخلیق وتکوین ہی سے انسان پیدا نہیں ہوا بلکہ کائنات ہست وبود میں اس نے بہت سے مدارج طے کر کے موجودہ انسانی شکل حاصل کی ہے۔ اس لئے کہ مبدء حیات نے جمادات و نباتات کی مختلف شکلیں اختیار کر کے ہزاروں لاکھوں برس بعد درجہ بدرجہ ترقی کرتے کرتے اوّل لبونہ یعنی پانی کی جونک کا لباس پہنا اور پھر ایسی ہی طویل مدت کے بعد حیوانات کے مختلف چھوٹے بڑے طبقات سے گزر کر موجودہ انسان کی شکل میں وجود پذیر ہوا۔ یہ اس گروہ کا خیال ہے جو جدید نظریات کا حامل ہے۔ خالصتاً مذہبی گروہ یہ کہتا ہے کہ خالق کائنات نے انسان اوّل یعنی آدم (علیہ السلام) کو اس شکل و صورت میں بنایا۔ جس میں وہ اب تک موجود ہے اگرچہ اس کی قد و قامت اور عمر کا مسئلہ مختلف رہا۔ اور یہی وہ انسان ہے جس کو خالق کائنات نے تمام مخلوق پر برتری اور بزرگی عطا فرمائی اور امانت الٰہی کا بارگراں اس کے سپرد فرمایا اور کُل کائنات کو اس کے ہاتھ میں مسخرکر کے خلافت و نیابت الٰہی کا شرف اس کو بخشا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ان دونوں نظریوں کے درمیان اس خاص مسئلہ میں علمی تضاد ہے یا اس میں تطبیق کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ہمارے خیال میں ان دونوں نظریوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں اور جو تضاد بظاہر نظر آتا ہے وہ صرف اور صرف لفظوں ہی کا ہیر پھیر ہے۔ کیونکہ ارتقائی نظریہ کے حامل بھی جب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی اس آخری شکل و صورت سے پہلے جو ادوار بھی اس پر گزرے وہ کسی دور میں بھی انسان کہلانے کا حقدار نہیں تھا اور نہ ہی ان ادوار میں وہ کبھی مکلف کہلایا اور نہ ہی وہ اس وقت احسن تقویم میں تھا اور نہ اشرف المخلوقات تھا یہ سب کچھ اس کو اس وقت ہی ملا جب وہ اس تخلیق میں آیا جو انسان اوّل کی تخلیق کہلاتی ہے اور اس تخلیق پر وہ آج تک قائم ہے گویا دونوں گروہوں کا اسی پر اتفاق ہے کہ موجودہ انسان ہی اس کائنات کی سب سے بہتر مخلوق ہے اور عقل و دانش کا یہ پیکر ہی اپنے اعمال و کردار کے لئے جوابدہ ہے اور دستور و قانون کا مکلف۔ پھر دونوں گروہوں کے مشاہدہ میں یہ چیز موجود ہے کہ یہی انسان آج بھی جب اپنے پہلے ادوار میں ہوتا ہے یعنی نطفہ کے دور میں ، علقہ کے دور میں ، مضغہ کے دور میں اور غیر مخلقہ کے دور میں ، وہ ہرگز ہرگز انسان نہیں کہلاتا ، نہ شکل و صورت کے لحاظ سے نہ عقل و فکر کے لحاظ سے لیکن جب خلقا ً آخر کے دور میں داخل ہوتا ہے تو اس پر انسان کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کو انسان یا انسان کا بچہ کہا جاتا ہے لیکن ابھی وہ مکلف نہیں قرار دیا جاتا۔ مذہب کی نگاہ دور رس میں بھی وہ مکلف تب ہی ہوتا ہے جب اس کا یہ ڈھانچہ بڑھ کر موجودہ انسان کی قد و قامت تک پہنچ جاتا ہے تو اب بتائیے دونوں نظریوں میں اختلاف کہاں رہا سوائے اس کے کہ یہ لفظوں کا ہیر پھیر تھا جس کی کوئی حقیقت نہ تھی اور یہ لفظی جنگ نہ کبھی ختم ہوئی اور نہ ہی کبھی ہوگی تاآنکہ یہ لفظی جنگ لڑنے والے خود ختم ہوجائیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت ختم ہوئے اور جو باقی ہیں وہ بھی یقینا ً ختم ہوں گے۔ " : انسان اوّل کی پیدائش کب ہوئی ؟ یہ مسئلہ بھی لائق فکر و نظر ہے کہ انسان اوّل کی پیدائش کب ہوئی کیا کائنات ارض و سما کے ساتھ ساتھ یا غیر معین مدت کے بعد اس کی ہستی عالم وجود میں آئی ؟ علمائے یہود و نصاریٰ اور بعض علمائے اسلام کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق وتکوین کائنات کے بارہ میں جو ” سِتَّةِ اَیَّامٍ 1ۖۗ“ چھ دن کی تعبیر اختیار فرمائی ہے ان ہی چھ دنوں میں سے ایک دن حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھی لباس وجود پہنا اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ چناچہ قرآن کریم میں ان چھ دن یعنی ادوار کا ذکر ہے جہاں ارشاد فرمایا کہ : کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر چھا گیا۔ بلاشبہ پوری کائنات کی تخلیق ان چھ دنوں یا ادوار میں ہوئی ہے انسان اس تخلیق میں شامل نہیں ہے اس لئے اس چھٹے دن میں انسان کی پیدائش کا یہ مسلک درست نہیں نہ علمی و تاریخی لحاظ سے اور نہ دینی و مذہبی روایات کے اعتبار سے یہود و نصاریٰ کے متعلق تو علم نہیں کہ انہوں نے کس بنیاد پر یہ کہا ویسے بھی وہ جو کچھ مذہب کے لحاظ سے کہتے ہیں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی مگر علمائے اسلام پر ضرور تعجب ہے کہ انہوں نے اس بےدلیل بات کو کس طرح قبول فرمایا اور یہ مسلک کیوں اختیار کیا ؟ ہاں ! غور و فکر کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ علمائے اسلام کو یہ مغالطہ غالباً صحیح مسلم کی اس روایت سے ہوا ہے جو فضائل جمعہ میں مذکور ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش جمعہ کے دن ہوئی۔ بلاشبہ اس حدیث میں یہ موجود ہے آدم (علیہ السلام) کی پیدائش جمعہ کے روز ہوئی مگر اس سے یہ ” سِتَّةِ اَیَّامٍ 1ۖۗ“ میں شامل جمعہ کا ذکر تو ہرگز نہیں۔ بس یہی وہ مغالطہ ہے جس کی بنا پر وہ نظریہ قائم کرلیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں متعدد جگہ پر خلق کائنات کا ذکر موجود ہے لیکن کسی ایک جگہ بھی خلق آدم (علیہ السلام) کا ذکر نہیں حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ ارض و سماوات سے زیادہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر ضروری تھا اگر اس کی تخلیق ان سب کے ساتھ ہی ہوجاتی۔ کیونکہ قرآن کریم ہی کی زبان میں وہ اشرف المخلوقات اور ” خلیفۃ اللہ فی الارض “ ہے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اگر اس اہم شخصیت کو ” سِتَّةِ اَیَّامٍ 1ۖۗ “ ہی میں کسی دن وجود بخشا جائے اور اس کا ذکر تک نہ کیا جائے۔ کیونکہ ان آیات میں ارض و سماوات کی پیدائش کا معاملہ اور (اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫) کا ذکر پایا جاتا ہے مگر حضرت انسان کی تخلیق کے متعلق صراحت تو کیا اشارہ تک موجود نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ قرآن کریم نے جس جس موقعہ پر حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر کسی بھی نہج پر کیا ہے ان میں سے کسی ایک مقام پر بھی یوم پیدائش کا ذکر نہیں ہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اصل حقیقت یہی ہے کہ خلق کائنات سے ہزاروں لاکھوں بلکہ غیر معین مدت کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کو کسی جمعہ میں خلعت وجود عطا کیا گیا جو ان ” سِتَّةِ اَیَّامٍ 1ۖۗ “ میں شامل جمعہ نہ تھا بلکہ اس روز یعنی ” سِتَّةِ اَیَّامٍ 1ۖۗ “ کے چھٹے روز (اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫) کا مظاہرہ ہوا لیکن دین اسلام نے اس دن کو مسلمانوں کی گویا عید کا دن شمار کیا اور اس کو سید الیوم کے نام سے یاد کیا اور مسلمانوں کی خاص عبادت کا دن بھی قرار دیا۔ #: آدم (علیہ السلام) کی قد و قامت کا مسئلہ : ابو البشر باوا آدم کی قد و قامت کا مسئلہ زیر بحث رہا ہے چناچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَلَقَ اللّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ) (بخاری : 581) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو ان کی شکل و صورت میں پیدا کیا تو ان کی قامت اس وقت ساٹھ ذراع تھی ذرع عربی زبان میں ہاتھ کی درمیانی انگلی سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کی لمبائی ماپی جاتی ہے اور دو ہاتھ کا گز آج بھی مشہور و معروف چیز ہے اور اسی سے عوام میں مشہور ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی قد و قامت ساٹھ گز تھی اور ذرع کو ہاتھ کا نام دے کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساٹھ گز نہیں بلکہ تیس گز۔ بہرحال وہ ساٹھ گز ہو یا تیس گز ، دو باتیں قابل تفہیم ہیں۔ ایک یہ کہ ذرع ، اس وقت کے عام آدمی کی مراد ہے یا خود آدم (علیہ السلام) کی۔ پھر اس وقت کے آدمی کی ذرع اگر مراد ہے تو نوزائیدہ بچے کی یا ایک لمبے تڑنگے جوان کی اگر آدم (علیہ السلام) کی زرع مراد لی جائے تو یہ بات خیال میں رکھنا ہوگی کہ کوئی آدمی اگر اپنے ذرع سے ساٹھ گنا لمبا ہو تو اس کی شکل کیا ہوگی کیونکہ ہر انسان جب کہ ساڑھے تین ذراع یا ہاتھ لمبا ہوتا ہے تو اس کی یہ موجودہ شکل ہے اور جب وہ اپنی ساٹھ ذراع یا ہاتھ لمبا ہوگا تو یہ شکل نہیں رہ سکتی کیونکہ اس وقت اس کا ہاتھ اس کی قامت کا ساٹھواں حصہ ہوگا اور اس کا بازو ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک انسانی جسم کے ساتھ صرف ایک انگلی بلکہ اس سے بھی کم۔ تو تصور کریں کیا یہ شکل انسان کی ہوتی ہے ؟ یا کم از کم اگر ہو تو وہ مناسب معلوم ہوگی ؟ درج ذیل حدیث بخاری شریف میں تین جگہ بیان کی گئی ہے بخاری پارہ 25 کتاب الاستیذان باب بدء السلام ، بخاری پارہ 13 کتاب بدء الخلق آدم و ذریتہ ص 220 ، بخاری کتاب العتاق۔ شارحین میں سے فتح الباری میں علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) اور عمدۃ القاری میں علامہ عینی (رح) اور کتاب الاسماء والصفات میں امام بیہقی (رح) اور تعلیقات بخاری اور حاشیہ صحیح مسلم میں علامہ سندھی (رح) جن مشکلات سے دو چار ہوئے ہیں اس کی شہادت آج بھی یہ صفحات پیش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجودسوالات اپنی جگہ پر قائم ہیں ان کا کوئی حل نہیں ہوسکا۔ ازراہ تذکرہ اس کا ذکر ہم نے بھی کردیا ہے اور اس کے ازالہ کے لئے ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ کاتب اوّل ہی سے کہیں ست کا ستین لکھا گیا یا قاری نے اس کو یوں پڑھ لیا ہے اور بعد میں تحریر پر تحریر ہوتا آیا۔ رسول اللہ ﷺ کا بیان اپنے وقت کے موجود انسان کے ہاتھ سے تشبیہ دینا مراد ہو سکتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق پیدائش کے وقت ان کا جسم آج کل کے انسانوں کے ہاتھ کے مطابق چھ ہاتھ تھا اور ہاتھ سے مراد آپ کی ساعد ہوگی یعنی کہنی سے ہاتھ کے شروع تک کیونکہ ساعد کو بھی ذرع کہا جاتا ہے جس کی مثالیں عربی زبان میں عام ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے وقت کے انسان اور آج کے ایک متوسط انسان کی قد و قامت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور اس سے یہ تفہیم کرانا مقصود ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی قد و قامت اور آج کے انسان کی قد و قامت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ہاں جس طرح ہر انسان آہستہ آہستہ بڑھ کر ایک خاص قدو قامت تک پہنچتا ہے آدم (علیہ السلام) اپنی تخلیق کے وقت اتنی قد و قامت رکھتے تھے وہ آہستہ آہستہ نہیں بڑھے تھے کیونکہ ان کی پیدائش توالدو تناسل سے نہ ہوئی تھی بلکہ ایک تخلیقی پیدائش تھی جو بغیر ماں باپ کے وجود میں آئی اور تخلیق اوّل کے بعد انسانی پیدائش کے لئے ایک ضابطہ الٰہی مقرر کردیا اور باقاعدہ طور پر اس کا اعلان بھی کردیا گیا جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ $: کیا آدم (علیہ السلام) اکیلے پیدا ہوئے تھے یا ان کی بیوی بھی ساتھ پیدا ہوئی تھی ؟ عام طور پر بیان تو یہی کیا جاتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) اکیلے پیدا کئے گئے تھے پھر ان ہی کے جسم سے حوا (علیہا السلام) کو پیدا کیا گیا لیکن یہ بات کتاب و سنت سے نہیں پائی جاتی۔ جس آیت سے یہ مفہوم سمجھا جاتا ہے وہ تفہیم صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے کہ : الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (النساء 4 : 1) ” اللہ وہ ذات ہے جس نے تم سب کو ایک جنس انسانی سے پیدا کیا اور پھر اسی جنس سے اس کا جوڑا بھی بنایا کسی غیر جنس سے نہیں۔ “ آدم (علیہ السلام) سے حوا کا پیدا ہونا قرآن کریم کا بیان مطلق نہیں البتہ تورات کی صدائے بازگشت ہوسکتی ہے چناچہ تورات کا بیان ہے کہ ” خداوند خدا نے آدم پر پیاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک صورۃ بنا کر آدم کے پاس بھیجا۔ “ (پیدائش 2 : 22 ، 23) دراصل یہاں قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں اماں حوا کی پیدائش کی حقیقت کی تفصیل بیان نہیں کی جا رہی بلکہ جنس انسانی کی پیدائش کا ذکر ہے البتہ لوگوں نے اس سے دو نظریات اخذ کئے ہیں ایک یہ کہ حوا ، آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئی ہیں جیسا کہ مشہور ہے اور بائبل میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو اس طرح پیدا کیا کہ مرد کے ساتھ ہی اس کی جنس سے ایک دوسری صنف بھی بنائی جس کو عورت کہا جاتا ہے اور جو مرد کی رفیقہ حیات بنتی ہے اور ظاہر ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے لئے حوا بھی ایسی ہی تھیں۔ زیر بحث آیت میں محققین کی رائے دوسری جانب کی طرف مائل ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ قرآن کریم صرف حضرت حوا کی تخلیق کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ عورت کی تخلیق کے متعلق اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بھی مرد ہی کی جنس سے ہے اور اس طرح مخلوق ہوئی یعنی جنس کے لحاظ سے مرد اور عورت ایک ہی جنس ہیں اور صنف کے لحاظ سے مرد ، مرد ہے اور عورت ، عورت ، گویا مرد اور عورت ایک جنس کی دو اصناف ہیں۔ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ : وَ ہُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ 1ؕ(الانعام 6 : 98) ” اور اللہ وہ ہے جس نے تم کو ایک جنس سے پیدا کیا پھر ایک جگہ تمہارے مستقل رہنے کی ہے اور ایک جگہ عارضی رہنے کی۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے : هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (الاعراف 7 : 189) ” وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جنس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (الزمر 39 : 6) ” اس نے تم لوگوں کو ایک جنس سے پیدا کیا پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بھی بنایا۔ “ ان آیات کریمات کو بنیاد بنا کر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حوا آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں حالانکہ یہ ہرگز صحیح نہیں ہے کیونکہ ان آیات میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ہے جس سے یہ بات معلوم ہو بلکہ یہ تو قدرت الٰہی کا عام مظاہرہ ہے کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بیان کو اس طرح ذکر کیا ہے کہ : وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً (النحل 16 : 72) ” اللہ نے تمہاری جنس میں سے تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور پھر ان بیبیوں میں سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے پیدا کئے۔ “ یہاں ” من انفسکم ای من جنسکم “ یعنی تمہاری ہی جنس اور نوع سے تمہاری بیویاں بنائیں۔ یہ نہیں کہ تم میں سے تمہاری بیویاں پیدا کیں۔ ظاہر ہے کہ جو کسی سے پیدا کی جاتی ہے وہ اس کی بیٹی ہوسکتی ہے بیوی نہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک ہی جنس سے ہوتے ہیں غیر جنس سے نہیں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً 1ؕ(الروم 30 : 21) اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے آرام و سکون کے لئے تمہاری ہم جنس بیویاں پیدا کیں پھر دونوں میاں بیوی کے درمیان الفت ڈال دی اور اپنی خاص رحمت سے دونوں کو جوڑ دیا۔ اس جگہ بھی من انفسکم ای من جنسکم یعنی تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں۔ یہ بات تو واضح ہوگئی کہ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی نہیں جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ حو ّاؓ ، آدم (علیہ السلام) سے یا آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔ رہی حدیث سو اس کا بھی یہی حال ہے اور جس مشہور حدیث کی رو سے حضرات حوا (علیہ السلام) کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے اس میں ذکر نہ تو حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہے اور نہ ہی حضرت حوا کا بلکہ محض عورت کی پیدائش اور کج سرشتی کا بیان ہے چناچہ حدیث میں ہے : ( اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْئٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلَاہُ فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیمُهُ کَسَرْتَهُ وَإِنْ تَرَکْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ) (بخاری : 586 ، مسلم : 1152) مطلب یہ ہے کہ اپنی اپنی عورتوں سے نیک سلوک کیا کرو کہ وہ ٹیڑھی پسلی کی طرح پیدا کی گئی ہیں بعض اوقات سیدھی بات کو بھی ٹیڑھا ہی سمجھ لیتی ہیں جس طرح پسلی کے خم کو سیدھا کرنے سے وہ ٹوٹ جاتی ہے ایسے ہی یہاں بھی سختی کے برتاؤ سے خوشگواری کی جگہ شکست و ریخت کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ رہا سیدھی بات کو ٹیڑھنا سمجھنے کا معاملہ تو وہ مرد و عورت کی صنفی حالت کا نتیجہ ہے اور یہ عورت کی کمزوری نہیں بلکہ فطرتی چیز ہے۔ جو صنفی فرق اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں رکھا ہے باوجود ایک جنس ہونے کے اس فرق سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس کی مزید وضاحت دیکھنا ہو تو اس حدیث کو دیکھو آپ ﷺ کا ارشاد ہے : وَلَا تُصَلُّوا فِی أَعْطَانِ الْإِبِلِ فَإِنَّهَا خُلِقَتْ مِنْ الشَّیَاطِینِ ( ابن ماجہ : 769 ، مسند احمد عن عبداللہ بن مغفل مزنی : 26407) فرمایا کہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز مت پڑھو کہ وہ بہت شیطان اور شریر ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ شیطانوں سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ : اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ (الروم 30 : 54) ” اللہ وہ ذات ہے جس نے تم کو ضعف یعنی ناتواں پیدا کیا۔ “ اور پھر اس کی تفسیر یوں فرمائی کہ : خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا 0028 (النساء 4 : 28) ” اور آدمی کمزور یعنی ناتواں پیدا کیا گیا۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ 1ؕ(الانبیاء 21 : 37) ” انسان جلدی سے بنایا گیا یعنی انسان جلد باز بنایا گیا ہے “ کیونکہ دوسری جگہ خود اللہ تعالیٰ نے اسکی تفسیر کردی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 0011 (بنی اسرائیل 17 : 11) ” یعنی انسان جلد باز ہے۔ “ ہمارے ہاں کشمیریوں کے متعلق محاورہ عام ہے کہ ان کی اڑھائی پسلیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب کہ شمار کرنے سے ایسا بالکل نہیں ہوتا البتہ سب لوگ اس کا مفہوم یہی لیتے ہیں کہ بنسبت دوسری قوموں کے قوی اور مضبوط ہوتے ہیں ۔ کام کاج خوب محنت سے کرلیتے ہیں اور زور دار کاموں سے نہیں گھبراتے۔ رزق کمانے میں خوب جدوجہد کرتے ہیں۔ اور پھر چونکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کمزور گنی اور سمجھی جاتی ہے اس لئے اس کی مزید کمزوری پر دلالت کے لئے بائیں پسلی کہہ دیا گیا نہ معلوم بائیں کا اضافہ کہاں سے ہوا ۔ بہر ہال پسلی دائیں ہوں یا بائیں۔ وہ مقام پیدائش ہرگز نہیں ہے۔ یہ صرف بات سے بات نکالنے والوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے نہ کہ اسلام کے بیان۔ جیسے شیعہ صاحبان اپنے اماموں کی پیدائش کا مقام ان کی مائوں کی دائیں ران بتاتے ہیں اور جس جگہ سے انسان کی پیدائش ہوتی ہے اس کا سختی سے انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ امام معصوم ہوتے ہیں وہ پیشاب گاہ سے پیدا نہیں ہو سکتے اور مذہبی دیوانگی میں ایسی سینکڑوں باتیں ہر فرقہ میں پائی جاتی ہیں اس لئے کوئی بھی کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتا جب وہ کہے گا تو اس کے متعلق بھی کچھ کہا جائے گا۔ %: صرف ایک انسان کی پیدائش کا مسئلہ : انسان اوّل کی پیدائش کا ذکر قرآن کریم میں کئی بار کیا گیا ہے لیکن اس سے یہ بات بالکل لازم نہیں آتی کہ انسان اوّل فی نفسہٖ صرف ایک اور وہ بھی فقط مرد ہی پیدا ہوا پھر اسی سے دوسری مخلوق پیدا ہوئی۔ جس کا تصور اس طرح پیش کیا گیا کہ آدم یعنی انسان اوّل پر نیند طاری ہوئی تو اس کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا کرلیا یعنی کلمہ کن کہا تو وہاں سے حوا پیدا ہوگئیں اور پھر کیا تھا کہ دنوں میاں بیوی سے ایک جوڑا پہلے پہر اور ایک جوڑا پچھلے پہر پیدا کرنا شروع کردیا ، تاکہ جلدی جلدی مخلوق بننا شروع ہوجائے ، پھر پہلے پہر کی لڑکی پچھلے پہر کے لڑکے سے اور پچھلے پہر کی لڑکی پہلے پہر کے لڑکے سے بیا ہے جانے لگے اور اس طرح سے حقیقی بہن بھائیوں کی شادی کے بعد مخلوق زیادہ ہوگئی تو پھر حقیقی بہن بھائیوں کی شادی حرام قراد پا گئی یہ سب کا سب قِصّہ تصورراتی ہے جس کا کوئی اصل اسلام میں موجود نہ ہے ۔ قرآن کریم کا ارشاد صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پہل اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق یعنی مر دو عورت کی صورت میں من جنس واحد نہ معلوم کتنے انسان پیدا کیے اور اس پہلی پیدائش کے بعد اصول پیدائش مقرر کردیا نیز یہ کہ پہلی پیدائش کے مردوں اور عورتوں کی آپس میں شادیاں کرا دیں جن سے آدم (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت کے لئے بھی منتخب فرمایا اور یہ شادیاں فطرتی طور پر تھیں جس طرح آج بھی نسل انسانی میں اصولی طور پر اصل دونوں میاں بیوی کی رضا مندی ہے باقی سب قانونی ضرورتیں ہیں۔ اور حرام رشتوں میں ازدواج کا نہ ہونا بھی فطرت انسانی کا مسئلہ ہے صرف قانونی خانہ پری نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعض اوقات انسان فطرت سے بھی تجاوز کر جائے اور اپنی حیوانی زندگی کو انسانی زندگی پر ترجیح دینے لگے ۔ اس کے متعلق قرآن کریم کی راہنمائی اس طرح سے ارشاد الٰہی ہے کہ : وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (الاعراف 7 : 11) اور ہم نے پہلے تمہاری تخلیق اوّل کے انسانی دھانچے بنائے اور اس طرح تمہاری صورتیں بنانے کے بعد تم میں سے آدم نامی شخصیت کو خلیفہ بنا دیا اور فرشتوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدئہ شکر ادا کرو کہ اللہ نے آدم کو کائنات ارضی کی خلافت عطا کی ہے جو پوری کائنات کی مخلوق پر اس کی فوقیت کے اظہار کی ایک علامت ہے۔ اس سے تخلیق اوّل کے انسانوں کی تعداد تو متعین نہیں ہوتی لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت انسانوں کی تعداد ایک سے زیادہ تھی کیونکہ قرآن کریم میں خطاب جمع کا ہے اور اس تعین کی کوئی ضرورت بھی نہیں کہ اس سے اصل مسئلہ کا حل نکل آتا ہے جب تین سے زیادہ ہوں اور تین سے کم پر جمع کا اطلاق عربی زبان کے مطابق نہیں ہوتا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ : وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ 0020 (الروم 30 : 20) اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری پہلی تخلیق کو مٹی سے بنایا پھر تم ناگہاں انسان تھے چلنے پھرنے والے۔ قرآن کریم اور کیا وضاحت کرے اور کیا طریقہ بیان اختیار کرے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے ؟ اس سے زیادہ صاف اور روشن طریق بیان اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کی تخلیق اوّل کا ذکر اس طریقہ سے کر رہا ہے کہ ذرا عقل رکھنے والا انسان بھی بات کو سمجھ سکتا ہے ۔ اس تخلیق اوّل کے بعد پھر ضابطہ تخلیق انسانی خود پیدا کرنے والے نے متعین کردیا اور اعلان کیا کہ اس تخلیق اوّل کے بعد ہمارا ضابطہ یہ ٹھہرا کہ : اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ہم نے تمہاری پیدائش نرو مادہ کے ملاپ سے شروع کردی جو اختتام نظام عالم جاری وساری رہے گی لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ” اٰمَنَّا “ تمہارے ذمہ ہے جو ضابطہ پیدائش ہے اور تخلیق اب بھی ہمارے یعنی اللہ ہی کے ذمہ ہے اور ہم اپنے قانون تکوینی کے ضابطہ کے مطابق کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہی آیات کے پیش نظر امام ربانی مجدد الف ثانی (رح) مکتوبات دفتر دوم میں بیان کرتے ہیں کہ : ان اللہ خلق مائۃ الف ، آدم کی تخلیق اوّل میں اللہ نے سو ہزار آدم یعنی نوح انسانی کے افراد تخلیق کئے لیکن ہمیں ایسی بحث چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں جس بحث کا متحمل قرآن کریم کا بیان نہ ہو۔ اس نظریہ سے وہ ساری مشکلات جن کے فرضی حل تلاش کئے جاتے ہیں ختم ہوجاتی ہیں اور فطرت انسانی کا یہ مسئلہ کہ ازدواجی زندگی میں زوجین کی حرمت کا بیان فطرتی ہے جو فطرت حیوانی اور فطرت انسانی میں امتیاز پیدا کرتا ہے واضح ہوجاتا ہے اور حقیقی بہن بھائیوں کی شادی اور پہلے پچھلے پہر کے جوڑوں کی فرضی کہانیاں جو انسانی زندگی کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکہ سے کم حیثیت نہیں رکھتیں بیک قلم ختم ہوجاتی ہیں اور تخلیق اوّل کا بیان نظم قرآنی کے مطابق بالکل سادہ انداز میں بغیر کسی فقہی موشگافی کے مکمل ہوجاتا ہے۔ فافھم و تدبر ^: آدم اور حوا عربی نام ہیں یا عجمی ؟ : اس سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ سریانی نام ہیں ، عربی نہیں اور بائبل میں یہ نام الف کے مد اور دال کے طول کے ساتھ پڑھا جاتا ہے یعنی آدم کو آدام لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ عربی نام ہیں جن لوگوں نے آدم کا تلفظ آدام کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ عبرانی زبان میں آدام مٹی کو کہتے ہیں چونکہ ان کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی اس لئے آدم یا آدام نام رکھا گیا اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ آدم ادمتہ سے ماخوذ ہے اس لئے کہ وہ ” ادیم الارض “ یعنی صفحہ زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ ادمت بمعنی خلطت سے ماخوذ ہے اور چونکہ ان کا خمیر پانی اور مٹی کو ملا کر اور خلط ملط کر کے بنایا گیا ہے اس لئے اسی مناسبت سے ان کو آدم کہا گیا۔ اسی طرح حوا کا نام حو ّاء اس لئے پڑا یا رکھا گیا کہ وہ ” زندہ انسان “ کی ماں ہیں اور اسی طرح حی سے مبالغہ کا صیغہ بنا کر ان کا نام حوا رکھا گیا لیکن اس سلسلہ میں جو کچھ بیان کیا گیا جو کچھ بیان کیا جائے گا سب تخمین و قیاس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اس وہم کا ازالہ صحیح یہ ہے کہ یہ وہم سرے سے ایک جنون ہے اسلام جیسے دین فطرت میں ایسے فرضی سوالات کا جواب موجود ہی نہیں ہے اور یہ بھی کہ جب کسی کا کوئی نام رکھا جاتا ہے تو اس میں اگر کوئی وجہ یا علت ہوتی بھی ہے تو وہ اس وقت نام تجویز کرنے والوں کی ہوتی ہے جس کا نام کا مسئلہ زیر بحث ہوتا ہے اس کی ذات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یعنی نام کی حیثیت صرف نام ہی کی ہوتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہاں ! مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کا نام تجویز کرتے وقت اچھا خیال رکھو اور وہ نام رکھو جس میں کوئی برائی یا شرک کا پہلو نہ نکلتا ہو۔ اور ایک دوسرے کو برے القاب سے مت یاد کرو اور یہی بات مد نظر رہنی چاہئے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آدم اور حوا کے نام میں نہ کوئی برائی ہے اور نہ کوئی شرک کی بات ہے بلکہ معناً و عرفاً اچھے نام ہیں اور ہمارے ہاں جو جیون اور جیوان ، عائشی یا عائشہ نام رکھے جاتے ہیں وہ اسی قبیل کے ہیں۔ : کیا آدم (علیہ السلام) شرک کے بھی مرتکب ہوئے ؟ یہ رونگٹے کھڑے کردینے والا سوال اٹھایا گیا ؟ آدم (علیہ السلام) صرف تخلیق اوّل کے ایک سردار ہی نہ تھے بلکہ سب سے اوّل انسانیت کے نبی اور رسول بھی۔ ان کے متعلق ایسا سوال چہ معنی دارد ؟ جب کوئی سوال کیا جاتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے لیکن بعض اوقات فرضی سوال بھی اٹھائے جاتے ہیں لیکن وجہ سے خالی وہ بھی نہیں ہوتے۔ لیکن یہ سوال فرضی نہیں بلکہ اولا آدم کی طرف سے اپنے دادا کے نام پر دھبہ لگایا گیا اگرچہ وہ کبھی شرک کے مرتکب نہ ہوئے اور ایسے دھبوں یا الزامات کا جواب دینا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ ان کی حقیقی پوزیشن کو صاف کرکے تصویر کا صحیح رخ قوم کو دکھایا جائے اور قوم پر واضح کیا جائے کہ انبیاء کرام (رح) پر ایسے الزامات لگتے آئے ہیں لیکن وہ بالکل معصوم لوگ تھے اس طرح کی جو باتیں انبیاء کرام (رح) کے بارے میں بیان کی جاتی رہی ہیں یا کی جا رہی ہیں سب کی سب بےاصل اور بےبنیاد ہیں جو صرف الزامات ہی الزامات ہیں وہ اپنوں کی طرف سے ہوں گے تو نہ سمجھی کی بنا پر اور بیگانوں کی طرف سے ہوں گے تو ان الزامات تراشنے والوں کی بدباطنی کی نشاندہی کریں گے دونوں صورتوں میں ان کا تعلق حقیقت سے کچھ نہیں ہے مختصر یہ کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) اور سیدہ حو ّاء پر شرک کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کا ردّ نہایت ضروری ہے کیونکہ نبی شرک کا مرتکب نہیں ہو سکتا ۔ عصمت انبیاء (رح) کا مسئلہ متفقہ ہے لیکن افسوس کہ عصمت کے اقرار کے باوجود اللہ کے ان نیک بندوں پر الزام تراشیاں کی گئیں اور اسرائیلیات کو قرآن کریم کی تفسیر بنا کر پیش کیا گیا۔ پھر مزید ستم یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ان بےبنیاد الزامات کی تردید کی ان کو بھی برے ناموں سے یاد کیا گیا بہر حال کوئی کچھ کہے حق بات کہنے میں باق نہیں ہونا چاہئے ۔ الزام شرک کے لئے جو قرآن کریم کی آیات منتخب کی گئیں وہ درج ذیل ہیں قرآن کریم میں ہے : هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا 1ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ 1ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ 00189 فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا 1ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ 00190 (الاعراف 7 : 189 ، 190) ” وہی ہے جس نے ایک جنس سے تمہیں پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنا دیا تاکہ وہ اس کی رفاقت میں چین پائے ، پھر جب مرد عورت کی طرف ملتفت ہوتا ہے تو عورت کو حمل ہوجاتا ہے پہلے حمل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور وہ وقت گزارتی ہے پھر جب بوجھل ہوجاتی ہے تو مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور (جو ان کا رب ہے) دُعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم دونوں تیرے شکر گزار بندے ہوں گے اگر ہمیں ایک تندرست بچہ عطا فرما دے۔ پھر جب اللہ نے انہیں ایک تندرست فرزند دے دیا تو جو چیز اللہ نے دی وہی اس میں دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرانے لگے سو یہ لوگ جیسی کچھ شرک کی باتیں کرتے ہیں اس سے اللہ کی ذات بہت بلند ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک تندرست فرزند عطا فرمادیا تو جو چیز اللہ تعالیٰ نے دی اس میں دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرانے لگے سو یاد رکھو یہ لوگ جیسی کچھ شرک کی باتیں کرتے ہیں اس سے اللہ کی ذات بہت بلند ہے۔ “ اس آیت میں مشرکوں کی یہ گمراہی واضح کی گئی ہے کہ وہ اپنی احتیاجوں میں ، مصیبتوں اور ضرورتوں میں اللہ سے التجائیں کرتے ہیں لیکن جب مطلب حاصل ہوجاتا ہے تو اسے ان آستانوں اور معبودوں کی بخشش و عطا سمجھنے لگتے ہیں جو انہوں نے خود ہی ٹھہرا رکھے ہیں۔ چنانچہ مشرکین عرب بھی پنی مصیبتوں اور ضرورتوں میں اللہ ہی کو پکارتے تھے لیکن جب مصیبت ٹل جاتی تو اپنے بنائے ہوئے آستانوں پر نذریں چڑھاتے اور اپنی اولاد کو ان کی طرف منسوب کرتے اور کہتے یہ انہی کی بخشش ہے کہ ہمیں اولاد ملی۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ شرک کی قسموں میں سے ایک قسم فی السمیہ ہے یعنی غیر اللہ کی طرف منسوب کر کے نام رکھنا۔ چناچہ مشرکین عرب عبدالعزیٰ ، عبدالشمس وغیرہ نام رکھتے تھے اور افسوس ہے کہ مسلمان بھی اسی طرح عبدالنبی ، عبدالرسول ، فیض الرسول ، عطا محمد ، پیران دتہ وغیر نام رکھنے لگے۔ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کا ذکر تو کیا اشارہ تک بھی موجود نہیں ہے صرفخَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ سے یہ ایک فرضی کہانی گھڑ لی ہے اور جب ایک بار وہ بیان ہوگئی یا تحریر ہوگئی تو پھر تحریر پر تحریر ہوتی چلی گئی ، اور علمائے اسلام نے بھی اس کا دل کھول کر ردّ کردیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس کو مانتا یا تسلیم کرتا ہے تو اس کی کم فہمی یا کم علمی کی نشانی ہے اور ” نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ “ کی تفہیم بھی قبل ازیں کرائی جا چکی ہے لہٰذا اس آیت میں عام نسل انسانی کے لوگوں کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے شرک سے باز آجائو لیکن یہ شرک آج بھی مسلم قوم کی اکثریت میں پایا جاتا ہے خصوصاً برصغیر کے ممالک میں اس کی مثالیں ہر خاندان اور ہر برادری میں عام طور پر ملتی ہیں اور دیہاتی زندگی میں تو شاید ہی کوئی گھر اس مہلک بیماری کی زد میں نہ ہوگا۔ الا ماشاء اللہ جن روایات کو اس ضمن میں پیش کیا جاتا ہے ان میں سے ایک دو کے سوا باقی سب کوڑا کرکٹ ہے جن پر روایات کا لفظ بھی استعمال کرنا اس لفظ کی توہین کے مترادف ہے مگر جو حدیث صحیح مسلم کی اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے وہ صحیح مسلم کے ص 275 پر ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے اس کا ہرگز وہ مطلب نہیں جو لوگوں نے سمجھ لیا ہے ہاں ! بنی اسرائیل کی قوم میں کوئی حو ّاء نامی عورت ہو تو یہ بات دوسری ہے کیونکہ اس حدیث میں سیدنا آدم کا ذکر تک موجود نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا ذکر پایا جاتا ہے اور یہ الفاظ کہ : وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَی زَوْجَهَا الدَّهْرَ ۔ حَوَّاءُ (بخاری : 659) زوجہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق نہیں ہیں بلکہ صرف حو ّاء نام کی وجہ سے یہ سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ انبیاء (علیہم السلام) کے گھرانے کے نام ہر دور میں رکھے گئے ہیں اور آج بھی لوگ ان ناموں کو مبارک جانتے ہیں جو ان بزرگوں کے تھے اور انہی کے ناموں کی نسبت سے اب بھی ہم میں بہت سے نام استعمال ہوتے ہیں۔ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ حو ّاء نامی عورت اپنے شوہر کا حق ضائع نہ کرتی تو اس کی اپنی زیر تربیت بچیوں پر اس کا بہت اچھا اثر پڑتا تاکہ وہ بھی اپنے اپنے گھروں میں جا کر سلیقہ شعار کہلاتیں اور نیک نام پیدا کرتیں مگر چونکہ اس نے اپنے شوہر کی حق تلفی کر کے اپنی بیٹیوں کے لئے بہت برا نمونہ قائم کیا کہ اب وہ اپنے اپنے گھروں میں جا کر اپنے اپنے شوہروں سے ایسے سلوک پر کیا کچھ نہ کہلوائیں گی جن میں بنی اسرائیل کے پورے گھرانے کی عورتوں کے لئے ایک نصیحت مخفی رکھی گئی ہے اور اس کو بیان کر کے گویا بنی اسرائیل کی پوری قوم کی عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ : سجدہ کا حکم فرشتوں کو تھا ابلیس کو نافرمان کیسے قرار دیا گیا ؟ جس بات کی ترجمانی اس سوال میں کی جارہی ہے اگر وہ بات صحیح ہوتی تو جب ابلیس سے کہا گیا تھا تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ تو اس کو جواب دینا چاہئے تھا کہ میں فرشتہ نہیں ہوں اور آپ نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا ہے میں سجدہ کیسے کرتا مگر اس نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا کہ میں اس کے لئے سجدہ کیوں کرتا جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا حالانکہ میری پیدائش تو نے آگ سے کی ہے لہٰذا میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آدم کو مجھ پر کیوں فوقیت دی گئی۔ پھر اس پورے قِصّہ کی حقیقت ہم نے پہلے عرض کردی ہے اس سے مراد دراصل انسان کی اندرونی طاقتوں کی آپس میں جنگ ہے جو مجموعہ ہے قوائے بہیمی اور قوائے ملکوتی کا ، اور اس کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ مخاطب اگرچہ فرشتوں یعنی قوائے ملکوتی کو کیا گیا ہے جس کے ضمن میں سب قوائے بہیمی بھی شامل ہیں جس طرح قرآن کریم نے جہاں مردوں کو مخاطب کیا ہے وہاں عورتیں بھی ضمناً مخاطب ہیں وہ اس سے باہر نہیں ہیں اسی طرح فرشتہ انسان کے بعد تمام مخلوقات سے اشرف ہے لہٰذا اس کو مخاطب کر کے جو کہا گیا تو باقی سب مخلوق اس میں شامل ہے البتہ وہ خیر و شر ہونے کی وجہ سے دو صفوں میں ذکر کی گئی ہے اگر وہ بات ہوتی جو اس سوال میں ہے تو ابلیس اتنا ناسمجھ نہیں کہ وہ اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکا جو اس کے ترجمان سمجھے ؟ بلکہ اس کے جواب کا اندازہ خود بتارہا ہے کہ مکمل سوال کیا تھا ؟ ہمارے خیال میں جو کچھ ہم نے کہا وہ جواب بالکل صحیح اور درست ہے ورنہ تو ایک ضعیف اور کمزور رائے یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ملائکۃ اللہ میں سے ایک قسم کو ” جِنّ “ بھی کہا جاتا ہے اور ابلیس انہی میں سے ایک تھا مگر اس کی تائید نہ قرآن کریم سے ملتی ہے اور نہ ہی صحیح احادیث سے۔ جب صحیح بات یہی ہے کہ دونوں نام متضاد قوتوں کے ہیں ، تو متضاد آپس میں ایک کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ( : ابلیس جنت میں کیسے داخل ہوگیا ؟ انسان جنت میں داخل کیا گیا یا نہیں ؟ جب انسان داخل کیا گیا اور خود اللہ تعالیٰ نے اس کو داخل ہونے کا حکم دیا اور انسان نام ہے دونوں قوتوں کے مجموعے کا پھر یہ سوال کہ وہ جنت میں داخل کیسے ہوگیا ؟ خود ہی سمجھ لو کہ یہ سوال صحیح ہے یا نہیں ؟ پھر قرآن کریم نے فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ کے الفاظ سے بتادیا کہ وساوس پیدا کرنے والی شے ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ کہیں باہر سے نہیں آتی لیکن جب تک اس کو ان استعارات میں نہ سمجھایا جائے تو انسان سمجھ نہیں سکتا تھا۔ تفہیم کا فطرتی انداز یہی ہے اس کو ترک کیونکر کیا جاسکتا تھا۔ ہاں ! اس کی جگہ سوال یہ ہوتا کہ جب انسان دوبارہ جنت میں داخل ہوگا تو کیا یہ ابلیس بھی ساتھ ہی داخل جنت کیا جائے گا ؟ کیونکہ انسان جب مجموعہ ہے دونوں قوتوں کا جن میں ایک قوت کا نام ابلیس تو بات بن سکتی تھی۔ لیکن اس کا جواب پیغمبر اسلام کی زبان اقدس سے دیا جا چکا ہے چناچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بھی کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کا شیطان ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور شیطان انسان کے جسم میں اس طرح چلتا ہے جس طرح خون ؟ تو آپ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی شیطان پیدا ہوا ، آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! میرے ساتھ بھی پیدا ہوا۔ لیکن ” فقد اسلم “ وہ مطیع و فرمانبردار ہوگیا۔ اب ظاہر ہے کہ جب وہ فرمانبردار یا مطیع ہوگیا تو ابلیس یا شیطان کب رہا۔ اس کو اللہ کے نیک بندے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ : موتوا قبل ان تموتوا ، مرنے سے پہلے مرجائو۔ لہٰذا جنت میں داخل ہونے والوں کا ابلیس یا شیطان جب مطیع و فرمانبردار ہوا تب ہی وہ جنت کے مستحق ہوئے اور اب شیطان ، شیطان کب رہا کیونکہ شیطان تو تب ہی تھا جب مطیع و فرمانبردار نہ تھا۔ آگ تو وہی آگ ہے جب جلائے۔ جب جلائے نہیں تو وہ آگ کیونکر رہی ہے پانی وہی ہے جو نشیب کو بہے ، جب وہ نشیب کو نہ بہے تو وہ پانی کب رہا اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ وہ جنت جس میں انسان داخل ہوگا اور وہ جس میں انسان یعنی آدم و حو ّاء رکھے گئے وہ جنت ایک کیسے ہوئی ؟ جب کہ یہ طے ہوگیا اور بار بار اسی کو قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ جب وہ ایک بار جنت میں داخل کئے جائیں گے تو پھر اس سے نکالے نہیں جائیں گے۔ جس جنت کے داخلہ کے بعد نکلنا تسلیم ہے وہ جنت ، جنت آخرت کیونکر ہوگی ؟ جنت آخرت تو وہ ہے جس کے متعلق خود رسول عربی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : ” ما لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر “ کہ کسی آنکھ نے اس کو دیکھا نہیں اور کسی کان نے اس کو سنا نہیں اور کسی انسان کے دل میں اس کا تصور بھی نہیں لایا جاسکتا۔ جنت آخرت تو وہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ 1ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 0017 یعنی کوئی انسان یا جن یا کوئی نبی و ولی نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لئے کیا کچھ مخفی رکھا گیا ہے جب وہ قیامت کے روز اس کو پائیں گے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی اور وہ فرطِ مسرت سے شاد کام ہوں گے لہٰذا وہ جنت الارض ہی تھی جس میں قوائے ملکوتی اور قوائے بہیمی کا مجسمہ انسان اس حالت میں رکھا گیا جبکہ اس کی قوائے بہیمی ابھی اس کے تابع فرمان نہ تھے۔ فافھم فتدبر ) : کیا فرشتہ یا جِنّ صرف طاقت یا قوت کا نام ہے کیا یہ دونوں مستقل مخلوق نہیں ؟ کیوں نہیں۔ دونوں مستقل مخلوق ہیں بلکہ ہر طاقت و قوت خواہ وہ بہیمی ہو یا ملکوتی ہو مستقل مخلوق ہیں۔ لیکن مخلوق ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مرئی طور پر بصورت مجسمہ نظر بھی آئیں۔ وہ مخلوق شمار ہی نہیں کی جاسکتی جو اس قدر پوشیدہ ہے کہ انسان کی آنکھ اس کے دیکھنے سے قاصر ہے۔ بعض قوتیں ایسی بھی ہیں جو ایک مستقل جسم رکھنے کے باوجود ان کا جسم اتنا لطیف ہے کہ انسان کی ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن آلات کی مدد سے ان کو دیکھا بھی جاسکتا ہے اور بہت سی قوتیں ایسی بھی ہیں جو مستقل جسم ہی نہیں رکھتیں ان کا جسم عطائی ہوتا ہے حقیقی نہیں جب وہ عطائی جسم میں سرایت کرتی ہیں تو نظر آتی ہے ورنہ کسی آلہ سے بھی نہیں دیکھی جا سکتیں۔ اسلام نے ان ساری چیزوں کو اس وقت بتایا جب سوائے ” الغیب “ کے وہ کچھ بھی نہ تھیں لیکن آج وہ ” الغیب “ نہیں رہیں بلکہ ” الشہادۃ “ میں داخل ہیں اور بہت سی اب بھی ” لغیب “ میں جو اپنے وقت پر ” الشہادۃ “ میں داخل ہوجائیں گی۔ اسلامی نظریات و عقائد میں اتنی وسعت ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ ان ہی کی وسعت سے ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں لیکن خود مسلم قوم ہے کہ ان کی مرہون منت اور دست نگر ہو رہی ہے۔ اس کی مثال اس پوستی کی سی ہے جس کے سینہ پر بیر تھا لیکن دوسروں کو آوازیں دیتا تھا اس بیر کو اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو ۔ یا اس کی مثال اس پیاسے کی سی ہے جس کے سامنے پانی پڑا تھا لیکن وہ پانی کو آوازیں دے رہا تھا کہ اے پانی میرے منہ میں داخل ہوجا۔ وما ھوببا لغہ گذشتہ سے پیوستہ : گزشتہ آیات میں آدم (علیہ السلام) کا ذکر ایسے رنگ میں رنگا گیا تھا کہ اس ذکر کے ساتھ ساتھ وحی کی ضرورت پر بھی بحث کی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ انسانی زندگی کے بقا و قیام کے لئے الہام الٰہی کا نزول ایسا ہی ضروری ہے جیسے کھیتی کے لئے سورج کی روشنی ، جسم کی حفاظت کے لیے طب ّ و اڈاکٹری اور حیات انفرادی کے لئے ہوا اور پانی۔ جس طرح ان میں سے ہر ایک چیز اس درجہ ضروری اور لازمی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی انسان ان سے بےبیاز نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی روح کی تکمیل و تربیت ، جذبات صادقہ کی پرورش اور اخلاق فاضلہ کی تہذیب و شائستگی کے لئے الہام کی ضرورت ہے کیونکہ مذہب اس کی فطرت میں داخل ہے پس اس کے لوازمات کی فراہمی بھی بہت ضروری ہے۔ الہام الٰہی نے ہر زمانہ میں اس کی ضروریات کے اعتبار سے مختلف اشکال و صورت اختیار کیں فروعات میں گو اختلاف ہوا لیکن اصول و کلیات میں ہمیشہ اتحاد رہا۔ تمام صحائف اور اسفار آسمانی کے اوراق کو دیکھ لیجئے۔ اساس و بنیاد سب کی ایک ہی ہوگی اور ایک ہی حقیقت کی طرف سب کی دعوت ہوگی اس لئے کہ سچائی ہمیشہ سے ایک ہی ہے ، اور ایک ہی رہے گی۔ آپ اپنی سہولت و آسانی کے لئے اس کے مختلف نام رکھ لیجئے مگر مسمّیٰ تو ایک ہی ہے۔ کبھی وحی الٰہی نے نوح (علیہ السلام) کو اس وادی کا نو وارد پایا اور کبھی اس نے حجاز کی وادیوں میں ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو نوازا۔ جب اسرائیل کے گھرانے پر نظر ڈالی تو ایک آگ کی لاش میں نکلنے والے کو اپنا والہ و شیفتہ بنالیا تو کبھی ناصرہ کے ایک نوجوان کو اپنی صدا کے لئے چن لیا تاآنکہ وادیٔ بطحا کی قسمت جاگ اٹھی اور غار حرا میں ایک یتیم سربہ زانومعتکف تھا رحمت کے محافظ فرشتے اس کے اردگرد صف بستہ تھے۔ تمام دنیا خواب غفلت میں تھی مگر وہ بیدار اور سر سجود تھا کہ رب العٰلمین گویا ہوا۔ ایک انسان کے منہ میں اپنا کلام ڈالا اور دنیا کے لئے امن و سلامتی کا پیغام نازل کیا ” گویا تورات کی زبان میں “ خداوند سیناؔ سے آیا اور شعیرؔ سے ان پر طلوع ہوا۔ فارانؔ کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشیں شریعت ان کے لئے تھی۔ ہاں ! وہ اس قوم میں بڑی محبت رکھتا ہے اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں۔ (کتاب استثناء 33 باب 2 ، آیت 2) اگرچہ الہام کی مختلف صورتیں رہیں مگر ان میں سب سے آخری اور مکمل ترین شکل میں جو وحی نازل ہوئی وہ قرآن کریم ہی ہے اور اب جبکہ یہ مسئلہ صاف کردیا گیا کہ ہر انسان کو الہام الٰہی کا اتباع کرنا ضروری ہے تو یہ بات خودبخود معلوم ہوگئی کہ اس زمانہ میں چونکہ وہ الہام قرآن کریم کے اوراق میں مستور ہے اس لئے اس کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنانا لازم و ضروری ہے مگر کیا کیا جائے کہ اس کی وہ لوگ مخالفت کرتے ہیں جن کے پاس پہلی کتابیں موجود ہیں اور اسلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں اس لئے قرآن کریم مجبور ہے کہ ان اقوام و امم کی خرابیاں ذکر کرے تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ ان میں سے ایک قوم بھی اس مقدس فرض کے قابل نہیں رہی ۔ مذاہب تو بہت ہیں مگر ان سب میں سے زیادہ قابل غور یہودیت ہے جو اپنے آپ کو ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کی طرف منسوب کرتی ہے اور جس کے ماننے والوں کا خیال ہے کہ جنت کے اجارہ دار یہی لوگ ہیں اسی لئے البقرہ میں قِصّہ آدم کے بعد سب سے پہلے اسی قوم کو مخاطب کیا گیا کہ عیسائی دراصل انہیں کی ایک مہذب شاخ سے وابستہ ہیں جن کا ذکر آل عمران میں آئے گا۔ لیکن قرآن کریم کی ضرورت ثابت کرنے سے پہلے یہودیوں کی انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کا ذکر ضروری سمجھا جائے گا پھر ان کے مختلف طبقات امت کے سوانح و حالات کی تنفیح ہوگی۔ ان کی مذہبی کمزوریوں اور اخلاقی فرو گزاشتوں کو واضح کیا جائے گا اور اس تمام بحث و مذاکرہ کا اصل مقصد تنقیح یہ ہوا کہ ان لوگوں نے اس درجہ اپنے قلب کو زنگ آلود کرلیا ہے اس قدر بد اخلاقیوں کا مظاہرہ کیا ہے کہ اب ان کی ہدایت کی تمام راہیں بند ہوگئی ہیں اور وہ اللہ کی رحمت سے بہت دور جا پڑے ہیں اور غضب الٰہی نے ان کی حیات قومی کے شیرازہ کو منتشر کردیا ہے۔ تبلیغ و دعوت کے فرض سے ان کا کوئی سروکار نہیں جس کے نتیجہ میں نبوت اسرائیل کے خاندان سے منتقل ہو کر اسماعیل کے گھرانہ میں آگئی ہے۔ آنے والے رکوع میں یہودیوں کی خرابیوں پر ایک اجمالی نظر ڈالی گئی ہے اور اس کے بعد کی آیات میں اس اجمال کی تفصیل ملے گی۔ قارئین ” عروہ “ سے ہماری گزارش ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی خرابیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ آج اپنی قوم یعنی قوم مسلم کی خرابیوں اور ان کی اس زبوں حالی کو بھی مد نظر رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنی اصلاح میں کوشش کرتے رہیں کہ افراد سے مل کر ہی ہمیشہ قوم بنتی ہے انفرادی خرابیوں کی اصلاح ہوجائے تو اجتماعی اصلاح ممکن ہے ورنہ ^ایں خیال است و محال است و جنوں آدم (علیہ السلام) کی اس سرگذشت کا ماحصل بھی یہی ہے کہ انسان بھٹک جانے کے بعد اس زندگی میں ہی سنبھل جائے اور اپنی لغزش کا اعتراف کر کے اللہ سے معافی طلب کرلے اور آئندہ محتاط ہوجائے تو اس کی لغزش کا گناہ اس طرح مٹ جاتا ہے اور یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کہ گنہگاری کا جو داغ آدم (علیہ السلام) کے دامن پر لگ گیا تھا وہ مسلسل ان کی نسل پر بھی منتقل ہوتا رہا تاآنکہ اللہ نے اپنا اکلوتا بیٹا بھیج کر نوع انسانی کا کفارہ ادا کرنے کیلئے سولی پر چڑھا یا تب جا کر نسل انسانی کے ذمہ سے وہ گناہ ساقط ہوا۔ اللہ تعالیٰ ایسے خرافات و لغویات سے بچائے۔
Top