Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 46
وَ لَئِنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر مَّسَّتْهُمْ : انہیں چھوئے نَفْحَةٌ : ایک لپٹ مِّنْ عَذَابِ : عذاب سے رَبِّكَ : تیرا رب لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے يٰوَيْلَنَآ : ہائے ہماری شامت اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اگر ان پر تیرے پروردگار کے عذاب کی ایک چھینٹ بھی پڑجائے تو بےاختیار پکار اٹھیں ہائے افسوس ! بلاشبہ ہم ہی ظلم کرنے والے تھے
عذاب الہی ان کو چھو بھی گیا تو ان کی ہوا نکل جائے گی : 46۔ (نفحہ) کیا ہے ؟ ایک ہوا کا جھونکا ہی تو ہے اور ظاہر ہے کہ عذاب کا جھونکا کیسے اچھا ہوگا ؟ فرمایا یہ تو بڑی ڈھٹائی سے نشانی نشانی کر رہے ہیں اور گویا وہ عذاب طلب کرتے ہیں جس کے آنے کی آپ ﷺ نے ان کو اطلاع دی ہے تو آپ ﷺ ان کو کہہ دیجئے کہ اس کا ایک نفخہ بھی ایسا ہے کہ جب آئے گا تو تمہارا سارا سارا نشہ کافور ہوجائے گا اور تم اس وقت سر پیٹ کر رہ جاؤ گے کہ ہماری بدبختی ! ہم خود اپنی جانوں پر آفت ڈھانے والے بنے کہ ہم نے رسول کی وحی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس سے عذاب کا مطالبہ کیا ۔ اب معلوم ہوا کہ خدا کا عذاب تو بہت بڑی چیز ہے ہم تو اس کا ایک ” نفخہ “ کی برداشت بھی نہیں رکھتے اپنی زندگی کا مطالعہ کرو اور ذرا غور سے دیکھو کہ ایک دو دن کی صرف گرمی کی شدت ہو یا سردی کی شدت ہوجائے تو کیا ہوتا ہے ؟ علاقوں کے علاقے تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتے ہیں اور بڑوں کی صدائیں ہوتی ہیں تو یہی کہ (آیت) ” انا لمغرمون ، بل نحن محرومون “۔ ہم پر تو چٹی پڑگئی اور ہمارے تو نصیب ہی پھوٹ گئے ۔
Top