Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 46
وَ لَئِنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر مَّسَّتْهُمْ : انہیں چھوئے نَفْحَةٌ : ایک لپٹ مِّنْ عَذَابِ : عذاب سے رَبِّكَ : تیرا رب لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے يٰوَيْلَنَآ : ہائے ہماری شامت اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اگر ان کو تمہارے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی پہنچے تو کہنے لگیں کہ ہائے کمبختی ہم بیشک ستمگار تھے
46: وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ (اگر ان کو ذرا سی لپٹ چھو جائے) یعنی معمولی دھکا اور مار مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ (تیرے رب کے عذاب کی) نحو : یہ نفحۃ کی صفت ہے۔ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَـآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ (وہ ضرور کہیں گے ہائے ہماری خرابی ہم ہی ظالم تھے) یعنی اگر ان کو اس عذاب کا ادنی حصہ بھی آکرکے چھولے جس عذاب سے ان کو ڈرایا جارہا ہے۔ تو ذلت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نفسوں کے خلاف وہ ہلاکت و تباہی کو پکارنے لگیں گے اور اقرار کرلیں گے کہ انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا جب بہرا پن اختیار کیا اور اعراض کیا۔ فائدہ عجیبہ : اس آیت میں انتہائی مبالغہ فرمایا گیا اس کی رمز اس طرح ہے کہ المسّ اور النفحۃ کا ذکر کیا۔ کیونکہ النفحۃ ادنیٰ لپٹ اور ذرا سی ضرب کو کہتے ہیں جو کہ قلت کی علامت ہے۔ اور تاء ؔ بھی وحدت کی لائی گئی۔ کہا جاتا ہے نفحۃ بعطیۃ اس کا چھینٹا۔ اور ایک مزید بات یہ بھی ہے کہ یہ وزن ایک بار پر دلالت کرتا ہے ایک یہ بھی ہے کہ تنوین تنکیر کی ہے۔
Top