Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 97
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَاقْتَرَبَ : اور قریب آجائے گا الْوَعْدُ : وعدہ الْحَقُّ : سچا فَاِذَا : تو اچانک هِىَ : وہ شَاخِصَةٌ : اوپر لگی (پھٹی) رہ جائیں گی اَبْصَارُ : آنکھیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) يٰوَيْلَنَا : ہائے ہماری شامت قَدْ كُنَّا : تحقیق ہم تھے فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے بَلْ كُنَّا : بلکہ ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور سچے وعدہ کی گھڑی قریب آجائے گی تو اس وقت اچانک ایسا ہوگا کہ لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ان لوگوں کی آنکھیں جنہوں نے انکار کیا تھا ، افسوس ہم پر ! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم ظلم و شرارت میں سرشار تھے
اوپر قرب قیامت کا ذکر تھا اب قیامت کا ذکر کیا جا رہا ہے : 97۔ قیامت کیا ہے ؟ اس کا جواب قبل ازیں کئی بار دیا جا چکا ہے کہ دنیا کے اس نظام کو درہم برہم کرکے ایک نیا نظام چلانے کا نام قیامت ہے لیکن ایک انسان جب اور جس دور میں بھی اس دنیا میں پیدا ہوا اور اپنا مقررہ وقت پورا کر کے چلتا بنا اس کی قیامت تو گویا قائم ہوگئی کیونکہ اس دنیا کے نظام میں اس کو دوبارہ نہیں لایا جائے گا بلکہ وہ عالم برزخ میں ہے اور اس وقت تک وہیں رہے گا جب تک اس نظام کو مکمل طور پر بدل نہ دیا جائے جس کا نام دارالعمل ہے اور آنے والے نظام کا نام اسلام کی نگاہ میں دارالجزاء رکھا گیا ہے ۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ جس وعدہ قیامت کو بہت دور کی بات سمجھ رہے ہیں وہ بہت دور کی نہیں بلکہ اس کے ظہور کا وقت تو بہت قریب ہے دوسری جگہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا کہ (آیت) ” انھم یرونہ بعیدا ونرنہ قریبا) یہ لوگ اسے دور سمجھے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں (المعارج 70 : 7) کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ یہ جس کو ایک سال گتنے ہیں ہمارے ایسے ایک ہزار برس گزر جائیں اور بعض اوقات پچاس ہزار سال گزر جائیں تو ایک دن کی مدت پوری ہوتی ہے ‘ اب خود غور کرلیں کہ ان کو ہم نے جو کل زندگی دی ہے وہ کتنی ہے ؟ گویا اگر کوئی بہت دیر زندہ رہا تو ایک دن کا سواں حصہ یا اس سے بھی کم اس لئے یہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر ونظر کی تنگی کے باعث اللہ تعالیٰ کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں اور انہوں سو پچاس برس کی عمر بھی بڑی معلوم ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے اور پھر یہ مدت بھی بطور مثال کے ہے ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں ‘ کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہیں اور انہی منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوع انسانی کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کے لئے ایک وقت مقرر کردیا گیا ہے کہ فلاں ساعت خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا کوئی انسان نہیں جان سکتا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوا ؟ کتنی مدت تک اس کی تکمیل کے لئے طے کی گئی ہے اور کونسی ساعت اس کے اختتام کے لئے مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی اور کونسا وقت اس غرض کے لئے رکھا گیا ہے کہ آغاز آفرنیش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر ان کا حساب لیا جائے گا ۔ اس جگہ اور اس جیسی دوسری ساری جگہوں پر قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا کہ یقینا وہ وقت اچانک آدھمکے گا اور اس کا منظر ایسا ہولناک ہوگا کہ آج جو لوگ بڑے زور وشور سے اس کا انکار کرتے ہیں اور طرح طرح کی ڈینگیں مارتے ہیں اور اس کا مطالبہ کرتے ہیں ‘ اس کا مذاق اڑاتے ہیں ان کی آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ جائیں گے اور جو کچھ ہونا ہے وہ ہوجائے گا اور وہ اس کی دہشت میں زبان سے کوئی بات بھی نہ نکال سکیں گے اور اس وقت ان کی زبانیں تو گنگ ہوں گی البتہ وہ زبان حال سے جو کچھ کہیں گے وہ یہی ہوگا کہ ” افسوس ہم پر ہم تو اس کی طرف سے غفلت میں رہے بلکہ ہم ظلم وشرارت میں سرشار تھے ۔ “ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت “۔
Top