Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 100
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا١ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا١ؕ وَ مِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
لَعَلِّيْٓ : شاید میں اَعْمَلُ : کام کرلوں صَالِحًا : کوئی اچھا کام فِيْمَا : اس میں تَرَكْتُ : میں چھوڑ آیا ہوں كَلَّا : ہرگز نہیں اِنَّهَا : یہ تو كَلِمَةٌ : ایک بات هُوَ : وہ قَآئِلُهَا : کہہ رہا ہے وَ : اور مِنْ وَّرَآئِهِمْ : ان کے آگے بَرْزَخٌ : ایک برزخ اِلٰى يَوْمِ : اس دن تک يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
شاید اب میں نیک کام کرسکوں ، ہرگز نہیں یہ محض ایک کہنے کی بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اب ایسا ہونے والا نہیں ، ان لوگوں کے پیچھے ایک آڑ ہے جو اس دن تک رہے گی کہ دوبارہ اٹھائے جائیں
یہ ایک بڑ ہے جو وہ بک رہا ہے اب تو اس کی جگہ برزخ ہے : 100۔ (کلا) فرمایا ہرگز نہیں اب یہ بات ہونے والی نہیں ہے اور اب اس کو کبھی واپس نہیں بھیجا جائے گا کیونکہ یہ ہمارا قانون کے خلاف ہے اور یہ بات پہلے طے ہے کہ ہم کبھی اپنے قانون کے خلاف نہیں کرتے اور نہ ہی ہونے دیتے ہیں۔ جب وقت ڈھیل کا تھا اس کو ڈھیل دی گئی اور اس کے استہزاومذاق کے باوجود دی گئی بلکہ یہ تو عذاب کا خود طالب تھا لیکن اس کو فورا کسی عذاب میں مبتلا نہ کیا گیا ڈھیل پر ڈھیل دی گئی کیوں ؟ اس لئے کہ ہمارے قانون میں اس کو پکڑنے کے لئے ایک وقت تک مہلت دی جا چکی تھی جب وہ ” اجل مسمی “ آئی تو اس کو دھر لیا گیا اور اب اس نے جب سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیا تو اب چیخ چیخ کر یہ کہتا ہے کہ مجھے ایک بار واپس لوٹا دیا جائے اب تو ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا اور ہمارا قانون کوئی موم کی ناک نہیں ہے کہ جدھر چاہا موڑ لیا ۔ اب ڈھیل کا وقت نکل گیا اور مہلت حیات ختم ہوگئی اور دنیوی جسم سے تعلق منقطع ہو کر اس کا تعلق عالم برزخ کے مثالی جسم کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس جگہ اس کا ٹھہرنا ہے تا آنکہ روز حشر آجائے ۔ عالم برزخ کیا ہے ؟ دو چیزوں کے درمیان جو آڑ اور رکاوٹ ہو اس کو برزخ کہتے ہیں یہاں برزخ سے مراد موت اور قیامت کا درمیانی عرصہ ہے جس کو برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں دو مقامات کا ہونا بیان کیا جاتا ہے اور دو مقامات کے نام ” علیین “ اور ” سجین “ رکھے گئے ہیں ۔ قرآن کریم میں (برزخ) کا لفظ تین جگہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ اس سے مراد دو چیزوں کے درمیان کا پردہ ہی ہے چناچہ سورة الرحمن میں فرمایا گیا (بینھما برزخ لا یبغیان) (الرحمن 55 : 20) ” ان دونوں دریاؤں کے درمیان ایک پردہ ہے جس سے ایک دوسرے پر بڑھ کر نہی جاتا۔ “ دوسری جگہ سورة الفرقان کی آیت 53 میں ہے اور تیسری جگہ زیر نظر آیت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ہماری سامی قوموں کے رسم و رواج کے مطابق اس درمیان منزل کو ” قبر “ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے وہ خاک کے اندر ہو یا قعر درنیا میں یا کسی درندہ وپرندہ کے پیٹ میں اور قرآن کریم نے بھی اس کو ” قبر “ ہی سے موسوم کیا ہے چناچہ سورة الحج میں ہے کہ (آیت) ” وان اللہ یبعث من فی القبور “۔ (الحج 22 : 7) ” بلاشبہ ان لوگوں کو جو قبروں میں اٹھائے گئے۔ “ ظاہر ہے کہ یہ (بعث) صرف انہی مردوں کے لئے مخصوص نہیں جو تودئہ خاک کے اندر دفن ہوں بلکہ ہر میت کے لئے ہے خواہ وہ کسی حالت اور کسی عالم میں ہو اس لئے قبر سے مقصود ہر جگہ وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد جسم خاکی نے جگہ حاصل کرلی ہو یا یوں کہہ لو کہ جہاں مرنے کے بعد روح مثالی جسم میں موجود رہے ۔ بہرحال ” قبر “ سے مراد وہ گڑھا نہیں ہے جس میں ہم مردوں کو دفن کرتے اور اس کا نام ” قبر “ رکھتے ہیں اگرچہ عرف عام میں اس سے مراد یہی گڑھا لیا جاتا ہے ۔ بہرحال مرنے والوں کو ایک بار مرجانے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا محال ہے لیکن افسوس کہ ہمارے علمائے کرام اور مفسرین حضرات اس اصل سے جب چاہتے ہیں انحراف کردیتے ہیں اور اس طرح کتنے ہی مرنے والے جن کو انہوں نے زندہ کر دکھایا ہے حالانکہ قرآن کریم کی آیات میں تضاد کا نہ ہونا اعلان قرآن ہے جس کو وضاحت سورة النساء کی آیت 82 میں کردی گئی ہے ۔
Top