Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 37
اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۪ۙ
اِنْ هِىَ : نہیں اِلَّا : مگر حَيَاتُنَا : ہماری زندگی الدُّنْيَا : دنیا نَمُوْتُ : اور ہم مرتے ہیں وَنَحْيَا : اور ہم جیتے ہیں وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِمَبْعُوْثِيْنَ : پھر اٹھائے جانے والے
زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں ، یہیں مرتے ہیں یہیں جیتے ہیں ، ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں
زندگی بس یہی زندگی ہے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات فضول ہے : 37۔ منکرین قیامت کا یہ جملہ قرآن کریم میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے یہی ہم مرتے ہیں اور یہیں جیتے ہیں یعنی پہلے مرتے جاتے ہیں اور نئے پیدا ہوتے جاتے ہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا کوئی امکان نہیں ۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ پرانے مکذبین قیامت ہوں یا نئے دونوں ہی قیامت کا انکار کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ مجرد اس کے استبعاد کی بنا پر کیا ہے حالانکہ اس سے ہزاروں درجہ مست بعد چیزوں کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ‘ سب کو چھوڑو کیا وہ اپنی زندگی کا راز معلوم کرچکے ہیں کہ وہ کیا ہے اور کیسے ہے ؟ وہ جس شکل و صورت میں ہیں کیا اپنی مرضی سے انہوں نے یہ پسند کی تھی ؟ کیا انکو کبھی اپنا بچپن یاد نہیں آیا کہ وہ کیا تھا ؟ کیا انہوں نے اپنی جوانی پر کبھی غور نہیں کیا کہ وہ کس طرح مستانی تھی ؟ کیا ان کو اپنا شباب یاد ہے ؟ آخر وہ اس کو باقی کیوں نہیں رکھ سکے اور شباب سے شیب کی طرف کس طرح منتقل ہوگئے ؟ کیا یہ ساری باتیں مست بعد نہیں تھیں ؟ پھر انہوں نے ان کو کیونکر مان لیا ؟ ” یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہی ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو ۔ درحقیقت اس معاملہ میں کوئی عمل نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں ۔ “ (الجاثیہ 45 : 24) بلاشبہ کوئی ذریعہ علم ایسا نہیں ہے جس سے انکو بتحقیق یہ معلوم ہوگیا ہو کہ اس زندگی کے بعد انسان کے لئے کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور یہ بات بھی انہیں معلوم ہوگئی ہو کہ انسان کی روح اللہ کے حکم سے قبض نہیں کی جاتی ہے بلکہ آدمی محض گردش ایام سے مر کر فنا ہوجاتا ہے ۔ منکرین آخرت یہ باتیں کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ محض گمان کی بنا پر کرتے ہیں ۔ علمی حیثیت سے اگر وہ بات کریں تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ” ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں ۔ “ لیکن یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ” ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ “ اس طرح علمی طریقہ پر وہ یہ جاننے کا دعوی نہیں کرسکتے کہ آدمی کی روح اللہ کے حکم سے نہیں نکالی جاتی بلکہ وہ محض اسی طرح مر کر ختم ہوجاتا ہے جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جاتی ہے ، زیادہ سے زیادہ وہ جو کہہ سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ فی الواقع کی صورت پیش آتی ہے ، اب سوال یہ ہے کہ جب انسانی ذرائع علم کی حد تک زندگی بعد موت کے ہونے یا نہ ہونے اور قبض روح واقع ہونے یا گردش ایام سے آپ ہی آپ مر جانے کا یکساں احتمال ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ امکان آخرت کو چھوڑ کر حتمی طور پر انکار آخر کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور ہے کہ دراصل اس مسئلہ کا آخری فیصلہ وہ دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی خواہش کی بنا پر کرتے ہیں ؟ چونکہ ان کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو اور موت کی حقیقت نیستی اور عدم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبض روح ہو اس لئے وہ اپنے دل کی مانگ کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسری بات کا انکار کردیتے ہیں ۔ ” اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں “ (الجاثیہ 45 : 24) یہ وہ آیات ہیں جن میں آخرت کے امکان پر مضبوط عقلی دلائل دیئے گئے ہیں اور جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا ہونا عین حکمت و انصاف کا تقاضا ہے اور اس کے نہ ہونے سے یہ سارا نظام عالم بےمعنی ہوجاتا ہے ۔ ان دلائل کو سن کر جب لاجواب ہوتے ہیں تو ” ان کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔ “ (الجاثیہ 45 : 24) ان کی اس حجت کا مطلب یہ تھا کہ جب کوئی ان سے یہ کہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہوگی تو اسے لازما قبر سے ایک مردہ اٹھا کر ان کے سامنے لے آنا چاہئے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ یہ نہیں مان سکتے کہ مرے ہوئے انسان کسی وقت از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جانے والے ہیں حالانکہ یہ بات سرے سے کسی نے بھی ان سے نہیں کی تھی کہ اس دنیا میں متفرق طور پر وقتا فوقتا مردوں کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے گا بلکہ جو کچھ کہا گیا تھا وہ یہ تھا کہ قیامت کے بعد اللہ تعالیٰ بیک وقت تمام انسانوں کو از سر نو زندہ کر دے گا اور ان سب کے اعمال کا محاسبہ کرکے جزا اور سزا کا فیصلہ فرمائے گا ۔ یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی بدکار ہوتے ہوئے عزت و آرام کی زندگی بسر کرتا ہے اور دوسرا آدمی نیک ‘ مخلص اور اپنی قوم کا بلکہ نوع انسانی کا سچا بہی خواہ ہونے کے باوجود عمر بھر طرح طرح کی مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے ۔ اگر موت ہی انسانی زندگی کے قافلہ کی آخری منزل ہوتی تو اس سے بڑی بےانصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ انسان جو نیک اور مخلص ہے وہ عمر بھر کانٹوں پر لوٹتا رہے اور جو بدمعاش اور سفاک ہے وہ داد عیش لیتا رہے ۔ اس صورت میں ان اخلاقی قدروں کو جن سے انسانی عظمت وابستہ ہے کون اپنائے گا ؟ بلکہ کون انہیں اچھا مانے گا ؟ وہ جانباز جو اپنی جوانی اور شباب کی رنگینیوں کو اپنی قوم اور وطن کی آزادی پر قربان کردیتا ہے اس سے تو وہ غدار ہی اچھا ہے جس نے اگر اپنی قوم کی عزت کا سودا دشمن سے کیا لیکن اپنی زندگی آن بان سے گزاری اور اپنی اولاد کے لئے ڈھیروں سونا چاندی اور کالا دھن چھوڑ گیا محض یہ کہہ دینا کہ نیک کام کرنے والے کا نیک نام باقی رہ جاتا ہے اور اس کے ذکر سے تاریخ کے صفحات مزین ہوتے ہیں اور یہی اس کی جانبازی کا صلہ ہے یہ کہنا بھی بہت بڑی زیادتی ہے اللہ تعالیٰ جو عادل و حکیم ہے کم از کم اس کی فرمانروائی میں ایسی دھاندلی قطعا برداشت نہیں اس لئے اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ اس فانی زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہو جہاں عدل و انصاف کے سارے تقاضے پورے کئے جائیں نیک اور مخلص لوگوں کو ان کی مخلصانہ جدوجہد کا پورا پورا صلہ دیا جائے اور بدکاروں کو ان کے کرتوتوں کی پوری پوری سزا ملے ، اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے تو اس دنیا ہی میں عدل کا ظہور کیوں نہیں ہوتا ؟ تو اس کے متعلق مختصرا جان لینا چاہئے کہ ہماری اس دنیوی زندگی کا دائرہ اتنا محدود ہے کہ اس میں عدل کے سارے تقاضے پوری صورت میں نمودار نہیں ہوسکتے اور بعض گراں بہا اعمال ایسے بھی ہیں جن کا معاوضہ اس دنیا میں نہیں دیا جاسکتا ، آپ اس نوجوان کو کیا معاوضہ دے سکتے ہیں جس نے اپنی جان حق کے سربلند کرنے کے لئے قربان کردی ہو ؟ انسان اس مسئلہ میں جتنا غور کرتا چلا جائے اس کا عقیدہ آخرت کی زندگی پر زیادہ مستحکم اور استوار ہوتا چلا جائے گا ۔
Top