Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 223
یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ
يُّلْقُوْنَ : ڈالدیتے ہیں السَّمْعَ : سنی سنائی بات وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان میں اکثر كٰذِبُوْنَ : جھوٹے ہیں
جو سنی سنائی باتیں ڈالتے ہیں اور ان میں سے بھی اکثر جھوٹے ہی ہوتے ہیں
ہر سنی سنائی بات آگے کہہ دینے والے بلاشبہ جھوٹے ہی ہوتے ہیں : 223۔ قرآن کریم مشرکوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ایک بات بک دینے سے پہلے کچھ تو سوچ لیا کرو کیونکہ یہ بات تو زبان زد خاص وعام ہے کہ پہلے بات کو تولو پھر منہ سے بولو تاکہ جو کچھ کہہ رہے ہو کیا لگتی ہوئی بات ہے یا نہیں ؟ کیا باپ اور بیٹے اور استاد اور شاگرد میں کچھ بھی قدریں مشترک نہیں ہوتیں ؟ کیا ان میں کوئی بھی مناسبت نہیں ہوتی ؟ شیطان سے تعلق رکھنے والے کون لوگ ہوتے ہیں ؟ شیطان کے چیلے شیطان سے فیض یاب ہونے والے کس سیرت واخلاق کے لوگ ہوں گے ؟ کیا سچ بھی جھوٹ سے پیدا ہوتا ہے ؟ کچھ تو غور کیا ہوتا کہ شیطان کے تربیت یافتہ تو وہی لوگ ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں جو خود جھوٹے ‘ شوشے ‘ شہدے ‘ بدکردار ‘ بداخلاق اور گناہوں کی گندگی میں آلودہ ہوتے ہیں جو ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر چلاتے پھرتے ہیں اور جن کا کام جھوٹ سن کر اس میں جھوٹ کا مزید اضافہ کر کے آگے پہنچانا ہوتا ہے ایسے لوگوں کی نسبت پاکیزہ خو ‘ فرشتہ صفت اور صاف اور ستھرے کردار کے مالک اصحاب نبی و جو متقیوں اور پاکبازوں کے سردار ہوں بھلا انکی نسبت شیطانوں کے سایہ سے بھی کوئی ہو سکتی ہے ؟ ایسے جو سراسر جھوٹ کے پلندے ہوں ۔ گویا سب کے سب ہی جھوٹے ہوں اور کثرت سے جھوٹ بولنے والے ہوں ۔ بات کتنی واضح اور کیسی صاف ہوگئی کہ جن لوگوں نے قرآن کریم کی شیطانوں سے نسبت دی ہے وہ خود اس دعوی میں جھوٹے ہیں اور ایسے جھوٹے ہیں کہ جن کا جھوٹ کسی طرح چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتا مومنین کی صفات پیچھے سورة الفرقان کی آیات 63 تا 77 میں بیان کی گئی ہیں ، وہاں سے ملاحظہ فرمالیں۔
Top