Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ : اور شاعر (جمع يَتَّبِعُهُمُ : ان کی پیروی کرتے ہیں الْغَاوٗنَ : گمراہ لوگ
اور شعراء کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں
شعراء کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں : 224۔ نبی اعظم وآخر ﷺ پر کفار مکہ کی طرف سے پانچ الزامات دیئے گئے تھے ، کچھ لوگوں نے آپ کو ” کاہن “ کہا کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کو ” شاعر “ کہا اور کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کو ” مجنون “ کہا اور بعض نے ” ساحر “ اور بعض ” سحرزدہ “ قرار دیا علاوہ ازیں بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن ان پانچ باتوں کی قرآن کریم نے تردید کی گزشتہ آیات میں آپ ﷺ کے کاہن ہونے کا مکمل رد کردیا گیا تھا اور زیر نظر آیت میں ” شاعر “ ہونے کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ شاعر لوگوں کی پیروی تو ہمیشہ گمراہ لوگ ہی کیا کرتے ہیں گویا یہ بتایا گیا ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے پیروکاروں کو دیکھ کر ہی تم یہ فیصلہ کرسکتے تھے کہ آیا محمد رسول اللہ ﷺ شاعر ہیں یا نہیں ؟ یا ہم ان کو شاعر کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ اگر آپ ﷺ کے پیرو نیک سیرت ‘ نیک کردار اور بہترین قسم کے لوگ ہیں تو یہ اس بات کا خود ثبوت ہے کہ جس شخص کو یہ مانتے ہیں وہ بدرچہ اتم ان سے افضل واعلی ہے جو کرتا ہے وہ کہتا ہے اور جو کہتا ہے وہ کرتا ہے تو پھر وہ شاعر کیونکر ہوا اگر اس کی نسبت اسی کلام کے باعث تم نے قرار دی ہے تو اس پر اتارا گیا کلام کیا شعر ہے ؟ کیوں اور کیسے ؟ شعر کیا ہے ؟ شعر کہنا شعر یشعر کا مصدر ہے جس کے معنی شعر کہنے کے ہیں اور ادب کی اصطلاح میں ” شعر “ نام ہے اس کلام کا جو موزوں ہو اور متکلم نے بہ ادارہ موزوں کیا ہو چناچہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں شعر کے معنی معروف ہیں اور بال کو کہتے ہیں اس کی جمع اشعار ہے ، بھیڑوں ‘ اونٹوں کی اون اور بکریوں کے بالوں کو بھی کہا جاتا ہے اس طرح بال بال کا پتہ لگانا یعنی بات کی تہ تک پہنچ جانے والے کو شاعر کہتے ہیں یعنی معروف شاعر کو بھی ” شاعر “ اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کی فطانت اور وقتی معرفت میں وہ کامل مانا جاتا ہے اس لئے ” شعر “ اصل میں علم دقیق کا نام ہے ۔ عربوں کا محاورہ ہے کہ لیت شعری کاش مجھ کو اس کا گہرا پتہ ہوتا ۔ عرف عام میں جو کلام موزوں اور مقفی ہو اس کا نام شعر ہے اور جو صفت شعر گوئی سے مخصوص ہو اس کا نام شاعر ہوگیا ہے ۔ ایک اختراعی اور گھڑی ہوئی بات خواہ وہ کتنی ہی معقول اور کتنی ہی بہتر کیوں نہ ہو وحی والہام نہیں ہوسکتی جو انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام کے ساتھ خاص ہے ۔ اس لئے قرآن کریم نے اس کی سختی سے تردید کی ۔ قرآن کریم میں کفار کی زبانی مذکور ہے کہ (آیت) ” بل افتراہ بل ھو شاعر “۔ (الانبیائ 21 : 5) ” بلکہ اس نے جھوٹ باندھ لیا ہے بلکہ وہ شعر کہتا ہے “ بہت سے مفسرین نے اسے اس پر محمول کیا ہے کہ کفار نینبی اعظم وآخر ﷺ پر یہ الزام لگایا تھا کہ آپ ﷺ نعوذ باللہ منظوم ومقفی شعر پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ بات کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے ۔ محققین اور حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس الزام سے کافروں کا یہ مقصد تھا ہی نہیں کیونکہ کلام اللہ سے ظاہر ہے کہ وہ اسالیب شعر پر نہیں ہے اور یہ بات ایسی ہے کہ عجم کے غیر فصیح لوگوں پر بھی مخفی نہیں ۔ فضلاء عرب کا تو ذکر ہی کیا دراصل انہوں نے آپ ﷺ کو شاعر کہہ کر کذب سے منسوب کیا تھا کیونکہ شعر کی تعبیر کذب ہی سے کی جاتی ہے اور شاعر بمعنی کاذب معروف ہے جیسے صنم بمعنی معشوق معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی عام شعراء کا یہ وصف بیان کیا ہے جیسا کہ زیر نظر آیت میں بیان ہے ۔ خیال رہے کہ نہ تو ہر شعر برا اور نہ ہی ہر شاعر ۔ اسی طرح نہ تو ہر حال میں شعر برا ہے اور نہ ہی ہر حال میں شاعر برا ہے اور نہ ہی زیر نظر آیت میں ہر شعر یا شاعر کو برا کہا گیا ہے اور نہ ہی نبی اعظم وآخر ﷺ کے شاعر ہونے کی نفی اس لئے کی گئی ہے کہ شعر یا شاعر چونکہ برے ہوتے ہیں اس لئے آپ ﷺ کی نسبت ایسا کہنا گناہ ہے ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ شاعر کے مفہوم میں اس وقت بھی اور آج بھی بلکہ ہر زبان میں یہ تخیل موجود ہے کہ شاعر ماحول کے مطابق جس میں بھی چاشنی بھرنی چاہے گا وہ لفظوں کو اس انداز میں جوڑ دے گا کہ اس میں وہ صفت پیدا ہوجائے گی ، موت وحیات ‘ غمی و خوشی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی الفاظ میں تصویر کشی کر کے عین موقع پر اس میں ایک اثر پھر دے گا کہ سامعین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اور جو کچھ وہ کہے گا اکثر وبیشتر اس میں مبالغہ آرائی ضرور ہوگی ۔ شاعر کتنا ہی صحیح العقیدہ اور عقل وفکر میں منجھا ہوا ہوگا اس کے کلام میں افراط وتفریط کا ورنہ وہ شعر بھی شعر نہیں کہلائے گا اور چونکہ یہی وہ وصف ہے جس پر شعر وشاعر کی زندگی کا انحصار ہے اور وحی الہی میں افراط وتفریط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر وحی والہام کوئی کسبی چیز نہیں جب کہ شعر فی الواقعہ کسب اور محنت سے کمائی ہوئی چیز ہے اس لئے اگر وحی والہام کو ایسا ہی قرار دیا جائے تو اسلام کی ساری بنیاد ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اس لئے نہ صرف یہ کہ نبی کبھی شاعر نہیں ہوتا بلکہ نبی ورسول کبھی بھی اپنی خواہش سے ایک لفظ تک نہیں بولتا بلکہ اس کی پوری زندگی ہی ہوا حرص سے خالی ہوتی ہے پھر اتنے تضاد کو ایک کیسے مان لیا جائے حق حق ہے اور باطل باطل ہے اس طرح نبی ورسول نبی ورسول ہے اور شاعر شاعر ہی ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی نیک اور پاکباز کیوں نہ ہو ۔ کیونکہ اس کے وصف میں ہے کہ وہ اپنے بلند وبالا تخیل سے ایک نقشہ کھینچے اور نبی ورسول کے لئے لازم وضروری ہے کہ وہ ایک ذرا سی بات بھی اپنی طرف سے اپنی خواہش سے نہ کہے بلکہ وہ جو کچھ من حیث الرسالت کہے وہ خالصتا پیغام خداوندی ہو جو اس کے دل میں الفاظ کی صورت میں بذریعہ ملک وحی نازل کیا جائے اور وہ کلام فی نفسہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا جو خالق کا کلام ہونے کے ناطہ سے کلام غیر مخلوق مانا اور تسلیم کیا جائے بلکہ وہ کلام خود اپنی یہ حیثیت منوا لے ‘ وہ کیسے منوا لے گا ؟ جس طرح قرآن کریم نے تحدی وچیلنج کے ساتھ منوا لیا کہ میں کلام الہی ہوں کہ جن لوگوں نے اس کو گھڑا ہوا کلام مراد لیا ان کو اس نے بلایا اور ببانک دھل اعلان کردیا کہ اگر میں نے اس کو گھڑا ہے تو تم بھی سارے مل جاؤ اور اس جیسے کلام کی صرف ایک ہی سورت گھڑ کرلے آؤ تو سب کو سانپ سونگھ جائے اور اہل زبان فصحاء وبلغاء میں سے ایک بھی نہ اٹھے جو اس چیلنج کو قبول کرے ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا شاعر کا کام ہے کہ وہ موقع ومحل کے پیش نظر اپنے کلام میں زیر وبم پیدا کر کے اس کو مسجع ومقفی کرکے اس میں ضرورت کے مطابق ترمیم کرکے پیش کرے اور اس طرح کی ذو معنی بات بنائے کہ ہر ایک اپنے مزاج کے مطابق اس کا مطلب اخذ کرسکے اور یہی وہ غوایت ہے جس کا ذکر زیر نظر آیت میں کیا گیا ہے کہ جب وہ ذو معنی بات ہوگی تو اس کے مطلب بھی مختلف نکالے جاسکیں گے اور مطلب نکالنے والا اپنی مرضی کے مطابق اس کا ڈھال سکے گا اس لئے جیسا آدمی ہوگا ویسا ہی اس کا مطلب بیان کرے گا بت کی پرستش کرنے والے اور ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے والے دونوں ہی اس سے اپنی ضرورت کا مطلب لے لیں گے اور وہ دونوں کو کام دے گا ۔ اس لئے قرآن کریم نے بالکل صحیح اعلان فرمایا نہ نبی اللہ کبھی شاعر نہیں ہوتا ۔
Top