Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 225
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ : کہ وہ ہر ادی میں يَّهِيْمُوْنَ : سرگرداں پھرتے ہیں
کیا آپ ﷺ نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان میں سر مارتے پھرتے ہیں
شاعر لوگ تو ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں : 225۔ (یھیمون) کا اصل مادہ ہ ی م ہے اور ہائم وہ ہے جو سخت پیاسا ہو اور جمع اس کی ھیم ہے قرآن کریم میں ہے (فشاربون شرب الھیم) (الواقعہ 56 : 55) ” اور وہ اس طرح پئیں گے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں “ ھیام ایک بیماری ہے جو اونٹ کو لگ جاتی ہے کہ اس کی پیاس نہیں اترتی اور اس کی مثال اس کے ساتھ دی جاتی ہے جو سخت عشق میں مبتلا ہوجائے اس لئے اس جگہ (آیت) ” فی کل وادیھیمون) کے معنی ہوں گے کہ شاعر لوگ ہر نوع کے کلام میں پھرتے رہتے ہیں کبھی مدح میں غلو کرتے ہیں اور کبھی مذمت میں اپنے تخیل کی پرواز میں ‘ کبھی اللہ سے شکوہ کرتے ہیں اور کبھی اس شکوہ کا جواب شروع کردیتے ہیں ۔ خود ہی خاطب ہوتے ہیں اور خود ہی خطیب بھی ‘ خود ہی فعل ہوجاتے ہیں اور خود فاعل اور مفعول بھی بلاشبہ یہ کام نثر نگار بھی کرتے ہیں اور شاعر بھی اور بلاشبہ نبی نہ تو شاعر ہوتا ہے اور نہ نثر نگار چونکہ الزام شاعر کا تھا جس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ پھر یہ بھی کہ شاعر ہو اور غلو نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں کبھی مدح میں غلو اور کبھی مذمت میں اور جس طرح ہر انسان خیال ہی خیال میں بےپر کی اڑاتا رہتا ہے یہی حال شاعر کا ہوتا ہے کہ اگر اس نے چند شعر اللہ تعالیٰ کی توحید الہی کے مضمون کے لکھے تو بلاشبہ کو زے میں دریا بند کردیا اور پھر کس وقت رسول کی مدح ونعت بیان کی تو توحید الہی کے سارے مضمون کا بگاڑ کر رکھ دیا اور رسول کو اس طرح مخاطب کیا جس طرح وہ اللہ کو بھی مخاطب نہیں کر پایا تھا اور پھر کسی وقت بادشاہ کی تعریف لکھنے کے لئے بیٹھا تو اس کو رسول کی مدح ونعت سے بھی بہت اونچا لے گیا خوشی کی لے اور ترنگ میں آیا تو قوم کو ہنسا کر رکھ دیا اور اگر غصہ اور جوش میں آیا تو خدا کی خدائی کا بھی لحاظ نہ کیا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ جب اس نے اپنی مرضی و خواہش ہی سے بولنا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک انسان کی خواہش تو ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوتی تو اس کا بولنا ایک جیسا کیسے ہوگا ۔ لیکن اس کے برعکس قرآن کریم کی ہم آہنگی وہم رنگی کا عالم یہ ہے کہ اس کا مخصوص ومعین ہدف ہے اور شروع سے لے کر آخر تک اس کا ہر بیان اس ہدف پر پہنچتا ہے اس کے اندر تضاد وتناقض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہیں ایسی بات کسی کے بیان سے آئے گی تو یہ بیان کرنے والے کی سمجھ کا قصور ہوگا قرآن کریم اس سے بری الذمہ قرار پائے گا ، کلام الہی اور کلام انسان میں جو فرق ہوتا ہے وہ خود بخود اس کی وضاحت کردیتا ہے کہ یہ کلام اللہ ہے ‘ کسی انسان کا کلام نہیں حتی کہ خود نبی اعظم وآخر ﷺ پر نازل ہونے والی وحی اور آپ ﷺ کی زبان عام دونوں کا فرق بالکل واضح ہے ، احادیث کے وہ وظائف جو راویوں نے محنت کرکے بالکل وہی اخذ کرنے اور بیان کرنے کی کوشش وتلقین کی ان کی زبان اور قرآن کریم کی زبان میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے جو آج بھی اظہر من الشمس ہے اور خصوصا صاحب علم حضرات سے بات پوشیدہ نہیں ۔ اس لئے واضح ہوگیا کہ ایسا کلام پیش کرنے والے کو شاعر اور اس کے کلام کو شعر کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ ان دو باتوں کو وضاحت کے بعد ایک ایسا فرق بیان کیا گیا ہے جو خود شعر کہنے والے شاعر اور کلام اللہ بیان کرنے والے رسول میں پایا جاتا ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔
Top