Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 81
وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ
وَالَّذِيْ : اور وہ جو يُمِيْتُنِيْ : مجھے موت دے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِيْنِ : مجھے زندہ کرے گا
اور جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا
مجھے پیدا کرنے والا اور مارنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے : 81۔ انسان کی ابتدائی تخلیق کس نے کی ؟ اللہ نے وہ بتدریج کی یا یک ہی بار اس کا ڈھانچا بنا کھڑا کیا نتیجہ دونوں نظریوں کا یہی ہے کہ خالق اللہ ہے جو اس نے اس طرح تخلیق کیا بلاشبہ وہ مخلوق تھی اور خالق اس کا اللہ ہے ہاں ! عرف اسلامی کے مطابق وہ تخلیق کسی کی اولاد نہیں تھی پھر اولاد ہونے کے لئے اس نے ایک ضابطہ مقرر فرمایا کہ وہ زوجین سے ہوگی اور اس سلسلہ کا نام توالد وتناسل کا فطری طریقہ رکھا گیا اور اس فطری طریقہ سے جو آگے نسل چلی اس کو اولاد کا نام دیا گیا ۔ اب ظاہر ہے کہ مخلوق کے دو طریقے ہوئے ایک طریقہ اول اور دوسرا طریقہ دوم ، اب اللہ نے مذکر ومؤنث دونوں کے اندر بیج پیدا کرنے کے آلات فٹ کردیئے پھر مادہ کو تہیج دینے کا ایک فطری طریقہ بتا دیا کہ نر جب اس کو تہیج دے اور دونوں کے تخم کے ملاپ سے نتیجہ میں جو بچہ پیدا ہو وہ ان دونوں کی اولاد کہلائے ۔ کتاب وسنت میں اس کو اولاد کے نام سے موسوم کیا گیا اب کوئی انسان اٹھے اور وہ ریسرچ کرکے دونوں اصناف کے اندر کے بیجوں کو پہچان لے کہ اس میں کونسا بیج نر کی صلاحیت رکھتا ہے اور کونسا مادہ کی پھر ان دو اصناف میں سے مثلا صنف نازک کو وہ مصنوعی تہیج کا طریقہ استعمال کرکے ان بیجوں کو حاصل کرلے اور دونوں اقسام کے بیجوں کو ایک صنف سے لے کر کسی تیسرے مادہ کو تہیج دے کر اس کی او وری میں وہ ڈال دے جس کا کام فقط یہ ہے کہ جو کچھ اس کے اندر آئے اس کی تخلیق کا عمل وہاں شروع ہوجائے بشرطیکہ اس طرح اندر داخل ہونے والی وہ چیز اس کے قبول کرنے کے فطری طور پر قابل ہو اور اس طرح مصنوعی طریقہ سے وہ ایک تیسرا جسم پیدا کرے جو اسلام کی نگاہ میں حرام ہے کیونکہ اس کا طریقہ فطری نہیں ہے اور اسلام کی نظر میں اس کو ہم اولاد نہیں کہیں گے بلکہ فقط مخلوق قرار دیں گے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی آخر ہم کیوں نہ کہیں گے کہ اس کا پیدا کرنے والا اللہ ہے جس نے پہلی جنس کو پیدا کیا اور پھر جنس کے اندر نئی جنس کی تخلیق کے اعضاء پیدا کئے پھر جس عضو کا اس سے تعلق ہے اس کو قبول کرنے کا حکم دیا جب اس نے قبول کرلیا تو اس کو وہ ساری چیزیں وہاں بہم پہنچائیں اور آہستہ آہستہ بنتے بنتے ایک بچہ پیدا ہوگیا اگرچہ یہ کسی کی اولاد نہیں کہلا سکتا لیکن ہم اس کو کیوں نہ کہیں گے کہ اس کو اللہ نے پیدا کیا جب کہ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ کی پیدا کردہ ہے تو یہی بات ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو باور کروائی کہ لوگو ! میرا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اور تم سب کا پیدا کرنے والا بھی اللہ ہے اور اس تیسیر مصنوعی پیدائش کا پیدا کرنے والا بھی اللہ ہے اگرچہ اس تیسری قسم کی مخلوق سے آگے نہ تو مصنوعی مخلوق حاصل کی جاسکے گی اور نہ ہی فطری طریقہ سے اس سلسلہ میں جو کوششیں ہوچکی ہیں اور ہو رہی ہیں اور ہوتی رہے گی سب کا نتیجہ ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا ، اس کے بعد موت کا معاملہ ہے اس نظام دنیا میں ہر فرد وبشر اور ہرچیز کے لئے موت وحیات کا ایک اصول مقرر ہے اور ہر حیات کے بعد خواہ پہلے طریقہ کے مطابق ہو خواہ دوسرے طریقے کے مطابق بہرحال اس کو مرنا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ فی الواقعہ یہ ساری چیزیں مرتی آئی ہیں ‘ مر رہی ہیں اور مرتی رہیں گی جب تک یہ نظام قائم ہے ، جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو آخر اس موت کے بعد زندگی کو کیوں بعد سمجھا جائے یا تو اس پہلی موت کے رک جانے کی کوئی صورت نکل آئے جو فطرتا ناگزیر ہے حالانکہ اس نظام کے اندر ایسا ممکن نہیں اور اگر اس سورت کا اقرار ہے تو دوبارہ زندگی کے انکار کی کوئی وجہ معقول سمجھ میں نہیں آتی اور یہی بات ابراہیم (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے پیدا کرنے والا اور مارنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے نظام کے مطابق میں پیدا ہوا ہوں اور جس کے نظام کے مطابق میں مروں گا تو ان دو جملوں کی حقیقت کس قدر صاف اور شفاف ہے اور کس قدر واضح ہے کہ بلاشبہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔
Top