Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 35
وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَلَقَدْ تَّرَكْنَا : اور البتہ ہم نے چھوڑا مِنْهَآ : اس سے اٰيَةًۢ بَيِّنَةً : کچھ واضح نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : وہ عقل رکھتے ہیں
اور بلاشبہ ہم نے اس بستی کے کچھ واضح نشان عقل والوں کے لیے چھوڑ دیئے ہیں
ان لوگوں میں کھلی نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں : 35۔ قصص قرآنی کی غرض زیر نظر آیت میں بیان کردی گئی کہ اگر تم ذرا بھی عقل و فکر سے کام لو تو تم کو معلوم ہوجائے کہ اس قوم کی حالت کیا ہوئی اور کیوں ہوئی ؟ حالت یہ ہوئی کہ اس وقت جہاں وہ بستیاں آباد تھیں اب وہاں بحر میت کے نام سے یا بحر لوط کے نام سے ایک گہرا سمندر موجود ہے بلاشبہ جو کچھ ہوا وہ سنت اللہ کے مطابق ہوا لیکن وہاں کے رہنے والوں ہی میں بچ جانے والے بھی تھے وہ کیوں بچ گئے اور جو غرق ہوئے وہ کیوں ؟ لوط (علیہ السلام) کی بات ماننے والوں کو بچالیا گیا اور نہ ماننے والوں کو زمین نگل گئی ہاں ! بلاشبہ آتش فشاں پھٹا اور وہی ان کی تباہی کا باعث ہوا لیکن وہ لوگ بھی تو اسی بستی میں رہتے تھے جو بچا لئے گئے اس لئے کہ انہوں نے لوط (علیہ السلام) کی بات کو سچ مانا اور جو لوط (علیہ السلام) نے ان کو حکم دیا کہ اس کو بےچون وچرا سرما تھے پر رکھا اور اسے قبول کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس علاقہ پر آفت آنے والی تھی تو لوط (علیہ السلام) کی اس بات کو ایک ہزیان سمجھا اور اپنی حالت پر بدستور قائم رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند گھنٹوں کے اندر ان کا کام تمام کردیا گیا ، اس بات کو اگر عقل وفکر کے ساتھ دیکھا جائے تو قیامت پر سچے دل سے یقین آجانا ایک فطری چیز ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں اور اسی طرح کا سبق انبیاء کرام کے سارے قصص کو کہیں ذرا تفصیل کے ساتھ اور کہیں بالکل اشاروں اور استعاروں میں کیوں بیان کیا اور اگر ہماری نگاہ اس بات پر ہوتی تو ہم ان قصص کو پڑھ کر سمجھ کر اپنی اصلاح کرلیتے جس مقصد کے لئے ان کو اس طرح بیان کیا گیا تھا ، لوط (علیہ السلام) ہی کے قصہ کو لے لیجئے اس میں ہماری زندگی کے کتنے اسباق پنہاں تھے ہم نے ان اسباق کا ذکر لوط (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت کے تحت بیان کردیا ہے ملاحظہ ہو عروۃ الوثقی جلد چہارم ص 637 تا 650۔
Top