Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ : آپ پڑھیں مَآ : جو اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَاَقِمِ : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز تَنْهٰى : روکتی ہے عَنِ الْفَحْشَآءِ : بےحیائی سے وَالْمُنْكَرِ ۭ : اور برائی وَلَذِكْرُ اللّٰهِ : اور البتہ اللہ کی یاد اَكْبَرُ ۭ : سب سے بڑی بات وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَصْنَعُوْنَ : جو تم کرتے ہو
(اے پیغمبر اسلام ! ) جو کتاب تم پر نازل ہوئی اسے پڑھا کرو (اور لوگوں کو سمجھایا کرو) نماز قائم کرو (نماز کی پابندی لازم ہے) بلاشبہ نماز بےحیائی اور برائی کی باتوں سے روکتی ہے اور سب سے بڑی چیز اللہ کی یاد ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ وحی کی گئی کتاب کو پڑھیئے اور نماز کو قائم کیجئے : 45۔ زیر نظر آیت انہیں آیات میں سے ایک ہے جن آیات میں خطاب تو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ ہی سے ہے لیکن دراصل اہل ایمان کو مخاطب کیا جاتا ہے اس جگہ بھی یہی پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے ۔ زیر نظر آیت میں دو باتوں کا حکم دیا گا ں ہے ایک ان دو حکموں میں سے قرآن کریم کی تلاوت ہے اور دوسرا حکم نماز کا قائم کرنا ہے ۔ قرآن کریم کی تلاوت کے فوائد وبرکات اگر تحریر کئے جائیں تو ایک مستقل کتاب تیار ہوجائے ، اس جگہ اختصار کے ساتھ چند ایک باتیں عرض کی جاتی ہیں ۔ قرآن کریم کو جب پڑھو تو سنوار کر ترتیل وتجوید کے ساتھ پڑھو ‘ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” جو شخص قرآن کریم کو (ترتیل وتجوید کے ساتھ) خوش آوازی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ۔ “ قال قال رسول اللہ ﷺ لیس منا من لم یتغن بالقرآن (مشکل الاثار ج 2 ص 127) عن سعید ؓ عن ابی ہریرہ ؓ (مشکل الاثار ج 2 ص 129) ‘ (کنزالعمال ج 1 ص 150 بحوالہ بخاری) ابن نصر عن سعد بن ابی وقاص ؓ (کنزالعمال ج 1 ول ص 151 بحوالہ عبدالرزاق ‘ ابن ابی شیبہ ‘ احمد ‘ عبد بن حمدی ‘ الدارمی ابو داؤد ‘ ابو عوانہ ‘ ابن حبان ‘ مستدرک حاکم ‘ بیہقی بغوی ‘ طبرانی وغیرہ) ایک حدیث میں ہے : قال قال رسول اللہ ﷺ لیس منا من لم یتغن بالقرآن قال وانتم فتغنوا بہ ان استطعتم (کتاب الکنی والاسماء الدولابی ج اول ص 65) عن ابن زبیر ؓ ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص قرآن کریم کو سمجھ کر اور سنوار کر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ابن زبیر نے کہا کہ مسلمانو ! تم پوری کوشش سے قرآن کریم کو سنوار کر پڑھا کرو جہاں تک تم اس کی طاقت رکھتے ہو ۔ “ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ مبارک پر نازل کیا گیا ۔ آپ ﷺ نے اس کو نہایت سنوار کر اور ترتیل وتجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا اور بار بار اس کی تاکید فرمائی لیکن آج کل عوام تو عوام خواص جو کچھ قرآن کریم کے ساتھ کر رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ زندوں کو پڑھ کر سنانے کے بجائے مردوں کو پڑھا کر سنایا جاتا ہے ۔ ترتیل وتجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا اور بار بار اس کی تاکید فرمائی لیکن آج کل عوام تو عوام خواص جو کچھ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ مبارک پر نازل کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اس کو نہایت سنوار کر اور ترتیل وتجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا اور بار بار اس کی تاکید فرمائی لیکن آج کل عوام تو عوام خواص جو کچھ قرآن کریم کے ساتھ کر رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ زندوں کو پڑھ کر سنانے کے بجائے مردوں کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے ترتیل وتجوید کے ساتھ پڑھنے کی بجائے مدروتدویر سے پڑھا جاتا ہے اور یہی تلاوت بہتر اور اچھی سمجھی جاتی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے خلاف کی جائے اور آج اس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے لیکن رواج کے خلاف کسی کی بات کون سننے کے لئے تیار ہے ؟ رواج کچھ کہے نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں کے جو ارشادات فرمائے وہ اس طرح ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : 1۔ ان افواھکم طرق القران فطیبوھا فی السواک (ابونعیم) ” اپنے مونہوں کو مسواک سے اچھی طرح صاف ستھرا کرو کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کے راستے ہیں ۔ “ 2۔ طیبوا افواھکم بالسواک فانھا طرق القران (بیہقی شعب ال ایمان عن سمرۃ ؓ ” اپنے مونہوں کو اچھی طرح صاف ستھرا رکھو وہ قرآن کی تلاوت کے راستے ہیں ۔ “ 3۔ ان مثل صاحب القران کمثل صاحب الابل المعلقۃ ان عاھد علیھا امسکھاوان اطلقھا ذھبت (مالک ‘ احمد ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ) عن ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ” صاحب قرآن (مراد حافظ) کی مثال اس صاحب اونٹ کی طرح ہے جس نے اپنے اونٹ کی نکیل لٹکائی ہو کہ اگر وہ اس کی نگرانی کرے گا تو روک لے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو وہ چلا جائے گا ۔ “ 4۔ الجاھر بالقران کالجاھر باصدقۃ والمسر بالقران ان کا لمسر بالصدقۃ “۔ (ابو داؤد ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ عن عقبہ بن عامر ؓ ” قرآن کریم کو جہر پڑھنے والا دکھا کر صدقہ دینے والے کی مانند ہے اور آہستہ قرآن کریم پڑھنے والا چھپا کر صدقہ کرنے کی مانند ہے ۔ “ 5۔ حفظ الغلام الصغیر کالنقش فی الحجر وحفظ الرجل بعد ما یکبر کال کتاب علی الماء (الخطیب فی الجامع عن ابن عباس ؓ ” چھوٹے بچوں کا قرآن کریم کو حفظ کر ناپتھر پر لکیر کی طرح ہے اور بڑے آدمی کا قرآن کریم حفظ کرنا ایسے ہے جیسے کسی تحریر شدہ چیز کو پانی میں ڈال دیا جائے ۔ “ 6۔ حسنوا القران باصواتکم فان الصوت الحسن (مستدرک حاکم عن البراء بن عازب ؓ خوش کردینے والی آوازوں سے قرآن کریم کو نہایت سنوار کر پڑھو اس لئے کہ اچھی آواز قرآن کریم کی تلاوت کو بہت ہی مؤثر بنا دیتی ہے ۔ “ 7۔ زینوا القرآن باصواتکم (احمد ‘ ابو داؤد ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن حبان ‘ مستدرک حاکم عن البراء ؓ ‘ عن ابی ہریرۃ ؓ ‘ عن ابن عباس ؓ ‘ عن عائشہ ؓ ” اپنی آوازوں سے قرآن کریم کی زینت کو دوبالا کرو ۔ “ 8۔ اقروا القرآن فی اربعین (ترمذی عن ابن عمر ؓ ” قرآن کریم کو چالیس دن میں پڑھو “۔ 9۔ اقرء والقران فی کل شھر ۔۔۔۔ فی عشرین لیلۃ ۔۔۔۔۔ فی سبع ولا تزد علی ذلک (البیہقی ‘ ابو داؤد عن ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ) ” قرآن کریم کو پورے مہینہ میں پڑھا کرو ۔۔۔ بیس راتوں میں پڑھ لو۔۔۔ دس دن میں پڑھ لو۔۔۔ سات دن میں مکمل کرلو اور اس سے زیادہ مت پڑھو “۔ 10۔ اقرء القران فی ثلاث ان استطعت (احمد ‘ البیہقی ‘ الطبرانی کبیر عن سعید بن المنذر ؓ ” قرآن کریم کو تین دن میں پورا کر اگر تیرے میں زیادہ ہی طاقت ہے ۔ “ 11۔ اقرا القران مانھاک فان لم ینھک فلست تقراہ (مسند الفردوس ‘ ان ابن عمر ؓ ” قرآن کریم کو اس وقت تک ہی پڑھو جب تک اس میں توجہ رکھ سکو اگر توجہ نہ رہے تو پڑھنا چھوڑ دو ۔ “ ظاہر ہے کہ نیند وکسل میں ایسا ہوتا ہے ۔ 12۔ اذا ختم احدکم فلیقل اللھم انس وحشتی فی قبری (مسندالفردوس عن ابی امامہ) ” جب تم میں سے کوئی قرآن کریم کا دور مکمل کرے تو کہے اے اللہ ! اس کو اندھیری قبر میں میرا ساتھی بنا دے ۔ “ 13۔ اذا قام صاحب القران فقرا باللیل والنھار ذکرہ وان لم یقم بہ نسیہ (محمد بن نصر ‘ عن ابن عمر ؓ ” جب تک صاحب القرآن حافظ رات اور دن میں قیام میں قرآن کریم پڑھتا رہتا ہے اس کو یاد رکھ سکتا ہے اور جب قیام کرنا چھوڑ دے تو قرآن حافظ رات اور دن میں قیام میں قرآن کریم پڑھتا رہتا ہے اس کو یاد رکھ سکتا ہے اور جب قیام کرنا چھوڑ دے تو قرآن کریم کو بھول جاتا ہے ۔ “ 14۔ ما اذن اللہ لشی کا ذنہ للذی یتغن بالقران یجھر بہ (ابن حبان ‘ عن ابی ہریرہ ؓ ” اللہ تعالیٰ اتنا متوجہ ہو کر کسی چیز کو نہیں سنتا جتنا اس شخص کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جو قرآن کریم کو جہر اور سنوار کر پڑھتا ہے ۔ “ 15۔ لا یفقہہ من قراء القران ان فی اقل من ثلاث (ابو داؤد ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ عن ابن عمر ؓ ” جس شخص نے تین دن سے کم مدت میں قرآن کریم پڑھا بلاشبہ اس نے کچھ بھی نہ سمجھا “۔ علاوہ ازیں بہت کچھ قرآن کریم کے مناقب میں بیان ہوا ہے اگر آپ نے ان نصائح کو آرام سے پڑھا اور ان کے مطابق عمل کیا تو یقینا آپ نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ اب چند ایک تنبیہات بھی کان کھول کر سن لیں اور غور کریں ‘ اپنے معاشرہ میں دیکھیں کہ ہم اس وقت کیا کر رہے ہیں اور ہم کو کیا کرنے کا حکم ہے ؟ یہ تنبیہات نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی ہیں اس لئے ذرا غور سے سن لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : 1۔ اقرء القران واسئلو اللہ بہ قبل ان یاتی قوم یقرء ون فلیساء لون بہ الناس (احمد ‘ طبرانی فی الکبیرالبیہقی فی شعب الایمان) ” قرآن کریم (رضائے الہی کے لئے) پڑھو اور اپنی ضروریات اللہ تعالیٰ سے طلب کرو ‘ اس سے پہلے کہ عنقریب کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کریم کو (لوگوں کے سامنے) پڑھ کر اپنی ضروریات لوگوں سے طلب کریں گے ۔ “ 2۔ من قرالقران بتاکل بہ الناس جاء یوم القیمۃ ووجہہ عظم لیس علیہ لحم “۔ (البیہقی فی شعب ال ایمان عن ابی بریدۃ ؓ ” جس شخص نے قرآن کریم اس لئے پڑھا کہ وہ لوگوں سے لے کر کھا پی لے تو ایسا شخص قیامت کے روز اس حالت میں لایا جائے گا کہ اس کا چہرہ خالی ہڈی نظر آئے گا جس پر گوشت نہیں ہوگا ۔ “ 3۔ من اخذ علی القران اجرا فذاک حظہ من القران (ابی نعیم فی الحلیہ ‘ عن ابی ہریرہ ؓ ” جس شخص نے قرآن کریم پڑھ کر اس پر کچھ وصول کرلیا گویا اس نے اپنی مزدوری چکا لی (اس کے لئے اب کوئی اجر نہیں ہے) “ 4۔ ما من امرا یقراء القران ثم ینساہ الالفی اللہ یوم القیمۃ اجذم (مسلم ‘ دارمی ‘ طبرانی ‘ بیہقی فی شعب ال ایمان عن سعد بن قتادۃ ؓ ” جس شخص نے قرآن کریم یاد کرکے اس کو بھلا دیا وہ قیامت کے دن ایسا ہوگا جیسا کہ کوئی جذام (کوڑھ) میں مبتلا ہو۔ “ 5۔ الغرباء فی الدنیا اربعۃ قران فی جوف ظالم ومسجد فی نادی قوم لا یصلی فیہ ومصحف فی بیت لا یقرا فیہ ورجل صالح مع قوم سواء (مسند الفردوس عن ابی ہریرہ ؓ ” چار چیزیں اس دنیا میں غریب و مظلوم ہیں ۔ 1۔ قرآن کریم کہ جب وہ کسی ظالم بدعمل کے منہ سے پڑھا جاتا ہے ۔ 2۔ وہ مسجد کہ اس میں اذان دے کر لوگوں کو دعوت صلوۃ دی جائے لیکن کوئی صلوۃ کرنے والا نہ ہو ۔ 3۔ وہ قرآن کریم کہ جس گھر ہو وہاں اس کا کوئی (سمجھ کر) پڑھنے والا ہی نہ ہو۔ 4۔ وہ نیک آدمی جو بری قوم کے ساتھ رہ رہا ہو (اور وہ اس کی ایک نہ سنیں) “ اب دو باتیں منیہات میں سے بھی اچھی طرح یاد کرلیں کہ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا تقرا القران وانت جنب (البزار عن علی ؓ وابی موسیٰ ؓ ” ایسی حالت میں قرآن کریم مت پڑھو کہ تم جنبی ہو ۔ “ پھر آپ ﷺ نے اس کی مزید وضاحت اس طرح فرما دی کہ لا تمس المصحف وانت غیر طاھر (ابن ابی داؤد عن عثمان بن العاص ؓ قرآن کریم کو مت چھوؤ جب تک تم پاک نہ ہوجاؤ ۔ “ اور مجموعی حیثیت اس کی اس طرح ہے کہ قرآن کریم کو پکڑ کر مت پڑھو اور ضرورت کے لئے بغیر پکڑے گویا تم پڑھ سکتے ہو اور گویا تم پڑھ سکتے ہو اور طالبات اس سے مستثنی ہیں جب کہ وہ کپڑا وغیرہ نیچے رکھ کر پڑھیں کیونکہ یہ ان کے لئے فطری عذر ہے اور زبان انسان کی ناپاک نہیں ہوتی اگرچہ وہ ناپاکی کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو ۔ اب ایک ہدایت یاد رکھو جو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم پڑھنے والوں کو کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا اقرء وا القران وابتغوا ما فیہ (الدیلمی عن ابی ہریرہ ؓ ” قرآن کریم کو اس طرح پڑھو کہ اس کی مراد کو حاصل کرلو۔ “ گویا جس کی وہ تعلیم دیتا ہے اس کو حاصل کرلو تاکہ اس کے مطابق عمل کرسکو اور بلاشبہ قرآن کریم کی تلاوت ان آداب کے تحت کی جائے جو آداب آپ ﷺ نے سکھائے ہیں تو پڑھنے والوں کو وہ کچھ حاصل ہوگا جس کے حاصل ہونے کی آپ ﷺ نے اطلاع دی اور اگر ان آداب کی خلاف ورزی کی گئی تو قرآن کریم پڑھنے پڑھانے والوں کو کچھ اجر نہیں ملے گا اور اضاعت وقت لازم آئے گی جس سے نفع کی بجائے الٹا نقصان ہوگا۔ اب اس جگہ ہم قرآن خوانی کا ایک نیا طریقہ جو فی زماننا ترقی پر ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اس کا مختصر ذکر کریں گے تاکہ اس کی حقیقت قارئین کرام کی سمجھ میں آجائے اور یہ طریقہ ہے مرنے والوں کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کرنا یا کرانا اور جب کوئی وڈیرا مر جائے تو اس کی فاتحہ خوانی میں بوسیں نہیں سینکڑوں قرآن کریم پڑھوا کر ان کا ثواب اس کو پہنچانا ۔ دوسرا حکم زیر نظر آیت میں صلوۃ قائم کرنے کا ہے ۔ صلوۃ کے متعلق ہم تفصیلی بیان پیچھے سورة المومنون کی آیت 9 کے تحت کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ فرما لیں ۔ سورة المومنون عروۃ الوثقی کی جلد ششم میں ملے گی ، البتہ زیر نظر آیت میں نماز کے متعلق ارشاد الہی بیان ہوا ہے کہ (آیت) ” ان صلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر “۔ بلاشبہ نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔ “ قرآن کریم کے اس جملہ سے بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور کتنے ہیں جن کو اس ٹھوکر نے پریشان کردیا ہے اور حیران و ششدر ہیں کہ بولیں تو کیا اور کیسے ؟ کیونکہ یہ جملہ قرآن کریم کا ہے اور نمازیوں کو ہم دن رات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ‘ چور بازاری میں ملوث ہیں ‘ کم ماپتے ہیں ‘ کم تولتے ہیں اور بات بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں حالانکہ یہ ایک سے ایک بڑھ کر برائیان ہیں اور ان نمازیوں کو تو یہ نماز ان برائیوں سے نہیں روکتی پھر کیونکر تسلیم کرلیا جائے کہ قرآن کریم کا یہ جملہ صحیح ہے یا یہ کہ کم از کم اس کا یہ مطلب ہی جو بیان کیا گیا ہے ، پھر وہ اٹھتے ہیں اور ارکان نماز کے ایک ایک رکن کو بدلتے ہیں اور صلوۃ کے مفہوم کو بگاڑتے ہیں ‘ نماز کی ان حرکات پر پھبتیاں کستے ہیں اور اپنی چرپ زبانی سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نماز کب نماز ہے یہ تو عجمی سازش کے تحت صلوۃ کے مفہوم کو بدل کر ان حرکات و سکنات میں پابند کردیا گیا ہے حالانکہ ان حرکات و سکنات کا نماز کے ساتھ تو دور کا بھی واسطہ نہیں ، ان کی یہ سحر بیانی ان لوگوں کو بہت مسحور کرتی ہے جو پہلے ہی نماز کے قریب نہیں جاتے اور ان حرکات و سکنات سے کوسوں دور بھاگتے ہیں اور آج کل یہ بیماری بھی عام ہے اور روز بروز ترقی کرتی جا رہی ہے ۔ تعجب ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وردی پہنتے اور پڑیڈ کرتے ہیں اور سلوٹ مارتے ہیں اور لیفٹ رائٹ کے اتنے ماہر ہیں کہ عام حال میں بھی وہ اس چال لیفٹ رائٹ کے عادی ہوچکے ہیں اور انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہم کتنے بیوقوف ہیں کہ صبح اٹھتے ہی جب بگل بجتی ہے تو اپنی وردی کو بےساختہ کیوں پہننا شروع کردیتے ہیں اور اتنی پھرتی سے اور چستی کے ساتھ پریڈ کے میدان کی طرف ہم کیوں بڑھ رہے ہیں ۔ تعجب ہے کہ نماز کی حرکات پر زیادہ تر اعتراض انہیں لوگوں کو ہے جو خود اس طرح کی حرکات کرتے ہیں لیکن وہ انگریز کی مقرر کردہ ان حرکات کو عقل مندی اور زندگی کے لئے لازم اور ضروری سمجھتے ہیں اور نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی نماز کی ان حرکات پر جن میں سے ہر ایک حرکت بامقصد ہے اور اپنے اندر ایک سے زیادہ حکمتیں رکھتی ہیں ان پر پھبتیاں کستے ہیں اور طرح طرح سے ان کی تاویلیں کرتے ہیں ، خیال رہے کہ قرآن کریم نے ہم کو صلوۃ قائم کرنے کا حکم دیا ہے نماز پڑھنے کا نہیں دیا یہ تو ہمارا زبان زد فقرہ ہے اور نماز قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو ظاہری اور باطنی حقوق کے ساتھ ادا کیا جائے ، ظاہری حقوق کیا ہیں ؟ یہ کہ طریقہ نبوی ﷺ کے مطابق تمام ارکان ادا کئے جائیں ‘ باطنی حقوق کیا ہیں ؟ یہ کہ نماز سراپا عجزونیاز ہو کر رہ جائے ‘ احسان کی کیفیت اس پر طاری ہو جس کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس کے خیال میں یہ بات پیوست ہوجائے کہ مجھے میرا رب دیکھ رہا ہے بلاشبہ اس طرح کی ادا کی ہوئی نماز ہی وہ نماز ہے جو دین کا ستون ہے اور مومن کی معراج ہے ، ہر وہ شخص جس کو نماز یہ حضوری نصیب ہوجائے بلاشبہ اس کو نماز برائیوں سے روک دیتی ہے اس طرح کہ وہ برائی سے کوسوں دور بھاگتا ہے اور ہر کام کرتے وقت وہ اچھے اور برے کی تمیز کرتا ہے وہ ہمیشہ اچھے کام کرتا ہے اور برے کے قریب بھی نہیں و جاتا ، بلاشبہ جس شخص کی نماز اس کو اچھائی اور برائی میں تمیز نہ سکھائے وہ صلوۃ کا قائم کرنے والا نہیں ہو سکتا تاہم اگر کوئی شخص دیکھتا ہے کہ ایک آدمی نماز کی عادت بھی رکھتا ہے اور برائیوں سے بھی نہیں رکتا تو اس کو اپنے عمل سے اس کا رد کرنا اور اس کے سامنے اس کو عمل کرکے دکھانا ضروری ہے تاکہ وہ اس کے عمل سے متاثر ہو کر اپنی اصلاح کرے نہ کہ ایسے نمازی کو دیکھ کر جس کو نماز پڑھنے کی ایک عادت ہے کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ یہ نماز ‘ نماز ہی نہیں ‘ اس نماز کو قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ صلوۃ کا یہ طریقہ ہی سرے سے بےبنیاد ہے کیا آپ نے کبھی اس زمانہ کے لوگوں کی زندگیوں پر غور نہیں کیا جو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کے دور میں موجود تھے اور آپ ﷺ پر ایمان لاتے تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ نمازیں ادا کرتے تھے ‘ کیا ان کی کایا نہیں پلٹ گئی تھی ؟ کیا وہ درندہ صفت انسان ایمان لانے کے بعد اسلامی معاشرہ میں مجسمہ نیکی نہیں ہوگئے تھے ‘ کیا وہ واقعی فحشاء اور منکر سے رک نہیں گئے تھے ؟ بلاشبہ وہ یہی نماز تھی اور اسی طرح اس کی حرکات و سکنات تھیں لیکن ان کو بفضلہ قلبی حضوری میسر تھی اور ہم کو وہ میسر نہیں اس لئے کہ ہم نے نماز کو سمجھ کر ادا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور ہم نے نماز ادا کرنے والوں کو تنخواہ دے کر اپنی ضرورت کے لئے مقرر کیا ہے اور ہماری اکثریت کی ضرورت نماز نہیں بلکہ وہ مذہبی رسوم ہیں جن کی ادائیگی ان پیش اماموں کے ذمہ لگائی گئی ہے ۔ ہمیں ان رسومات کی ادائیگی کی ضرورت ہے نماز تو بالکل ایک اضافی شے ہے جو صرف ان لوگوں کی ضرورت ہے جو ہم میں سے ان حرکات کی عادت رکھتے ہیں ۔ تاہم جب تک وہ ان حرکات و سکنات میں مصروف رہتے ہیں اس وقت تک تو وہ ان فحشاء ومنکرات سے بچے ہی رہتے ہیں ۔ ذرا غور کرو کہ فحشاء ومنکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے ان برائیوں کو انسانی فطرت برا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر دور کے لوگ خواہ وہ عملا کتنے ہی بگڑے ہوئے ہوں اصولا ان کو برا ہی سمجھتے ہیں ۔ بلاشبہ آج حالات خواہ کتنے ہی بگڑ چکے ہیں لیکن پھر بھی کوئی چور چوری کو نیکی نہیں سمجھتا اور کوئی بدکار بدکاری کو نیکی سمجھ کر نہیں کرتا کیوں ؟ اس لئے کہ اس کی فطرت ہر برائی کو برائی تصور کرتی ہے اور کوئی شخص ان نمازیوں پر خواہ وہ کتنی پھبتیاں کسنے والا کیوں نہ ہو بہرحال اس عادت کی نماز کو بھی برائی نہیں کہہ سکتا اور نہ کہتا ہے بلکہ اس کا ضمیر بلاریب اس کو نیکی ہی تصور کرتا ہے کوئی آدمی کس قدر گناہوں میں لت پت ہی کیوں نہ ہو کسی زکوۃ ادا کرنے والے کو برائی کا مرتکب نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کی فطرت اس کو برائی نہیں بلکہ نیکی سمجھتی ہے اس طرح ایک ایک نیکی اور ایک ایک برائی کا تجزیہ کرتے چلے جاؤ تو ساری بات تم پر روشن ہوجائے گی ، اگر یہی تجربہ وہ لوگ شروع کردیں جو آج نماز کو نماز تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو انشاء اللہ وہ اس اپنے غور وفکر کے باعث نمازی بن جائیں اور ایسے نماز بن جائیں جن کو نماز یقینا برائیوں سے روک دے ۔ بلاشبہ وہ نماز جس کا آغاز بھی غفلت سے ہو اور جس کی انتہاء بھی غفلت سے ہو اور نماز کے درمیان بھی بیخبر ی کی حالت ہی طاری رہے جو کچھ منہ سے پڑھا جائے کچھ معلوم ہی نہ ہو کہ میں نے کیا پڑھا ‘ اس کا مطلب ومفہوم کیا ہے ‘ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کیوں کھڑا ہوں ‘ اس نے نماز پڑھی ہی نہیں لیکن اس کا پڑھنا کیا پڑھنا ہوا پھر اگر پڑھنا ہوا تو خالی پڑھنا ہی ہوا نماز کو قائم کرنا نہ ہوا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا بہرحال جب تک وہ نماز میں مشغول رہا بلکہ مشغول ہونے کے لئے تیاری شروع کی اس وقت سے فحشاء ومنکر سے بچا اس سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا اس لئے وہ حضرات جو چند نمازیوں کو دیکھ کر یہ طے کرلیتے ہیں کہ نماز فی نفسہ کوئی شے ہے ہی نہیں وہ وہی آزاد منش ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی دی ہے اور وہ اس فراوانی کے باعث اترا رہے ہیں اور اپنی خواہشات کی پر وی کر رہے ہیں ۔ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کے لئے نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ : (آیت) ” وَأَنِ احْکُم بَیْْنَہُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَن یَفْتِنُوکَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّہُ إِلَیْْکَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیْدُ اللّہُ أَن یُصِیْبَہُم بِبَعْضِ ذُنُوبِہِمْ وَإِنَّ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ (49) أَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہِ حُکْماً لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ (المائدہ 5 : 49 ‘ 50) اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تم پر نازل کیا ہے اسی کے مطابق ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو نیز ان کی طرف سے ہوشیار رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس کے حکم کی تعمیل ونفاذ تمہیں ڈگمگا دیں پھر اگر یہ لوگ روگردانی کریں اور حکم الہی نہ مانیں تو جان لو کہ اللہ کو یہی منظور ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان پر مصیبت پڑے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے بہت سے انسان احکام حق سے نافرمان ہیں پھر کیا وہ جاہلتس کے عہد کا سا حکم چاہتے ہیں (جب علم وبصیرت سے لوگ محروم تھے اور اپنے ادہام و خرافات پر عمل کرتے تھے) اور ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھنے والے ہیں اللہ سے بہتر حکم دینے والا کون ہو سکتا ہے ؟ “ مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی جلد سوم میں سورة المائدہ کی آیت 49 ‘ 50 کی تفسیر دیکھیں ، زیر نظر آیت میں مزید یہ ارشاد فرمایا ہے کہ : (آیت) ” ولذکراللہ اکبر “۔ ” اور اللہ کا یاد کرنا یقینا سب سے بڑھ کر ہے ۔ “ اس جملہ کے مفسرین نے ایک سے زیادہ مفہوم بیان کئے ہیں اور بلاشبہ اس کے معنی سمجھنے میں اکثر لوگوں کو غلطی لگی ہے دراصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ ہی کا ذکر ہے اس لئے نمازی نے جب نماز قائم کی اور نماز کا صحیح حق ادا کیا تو گویا اس نے اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق یاد الہی کا حق ادا کردیا اور اب اللہ کا اپنے بندے کو یاد کرنا ہے اور اس کا اس میں ذکر کیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ تمہارے اللہ کو یاد کرنے سے بڑھ کر اللہ تمہیں یاد کرتا ہے جیسے ارشاد الہی ہے کہ (فاذکرونی اذکر کم) (2 : 152) ” پس میری یاد میں لگے رہو میں لگے رہو میں بھی تم کو یاد رکھوں گا “۔ اب جبکہ تم نے اس کو صلوۃ ادا کرکے یاد کیا تو یقینا وہ بھی تم کو یاد کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا یاد کرنا یقینا سب سے بڑھ کر ہے ۔ رہی یہ بات کہ اللہ کا یاد کرنا کیا ہے تو بلاشبہ اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو شرف و کرامت عطا فرمانا ہے ۔ مطلب صاف ہوگیا کہ نماز ایک طرف بدی اور بےحیائی سے انسان کو روکتی ہے تو دوسری طرف انسان کے اللہ کے ذکر کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے شرف و بزرگی عطا فرماتا ہے اس طرح گویا بڑے بڑے کام کرنے کی اس بندہ کو توفیق بخش دیتا ہے اور انسان جس کو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا وہ کام کرکے دکھا دیتا ہے ۔ میرے جیسا ناکارہ انسان جس کے پاس نہ مالی وسائل ‘ نہ وافر علم ‘ نہ تقوی و پرہیز گاری کی کوئی سند ‘ نہ جماعتی کثرت ‘ نہ لوگوں کی طرف سے کسی قسم کی آہ و واہ اور نہ ہی اپنوں کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی اور پھر قرآن کریم کی یہ تفسیر عروۃ الوثقی کی اتنی ضخامت اور صرف چار سال کے عرصہ کے اندر اس کی اشاعت کے سارے سامان مہیا ہوجانا اللہ تعالیٰ کا بےپایاں فضل و کرم نہیں تو اور کیا ہے جب کہ میرے جیسے انسان جو ایک دہ میں رہ کر ” Hand to Mouth “ معاش کماتا ہو اس سے اتنا بڑا کام لینا اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی کا کمال ہے ۔ (آیت) ” ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء واللہ واسع علیم ( ۔۔۔۔ ) وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ وَأَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ (27 : 19) آمین یا رب العالمین۔
Top