Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ
: اور البتہ
نَصَرَكُمُ
: مدد کرچکا تمہاری
اللّٰهُ
: اللہ
بِبَدْرٍ
: بدر میں
وَّاَنْتُمْ
: جب کہ تم
اَذِلَّةٌ
: کمزور
فَاتَّقُوا
: تو ڈروا
اللّٰهَ
: اللہ
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: شکر گزار ہو
اور اللہ نے بدر کے میدان جنگ میں تمہیں فتح مند کیا تھا حالانکہ تم دل ہار چکے تھے اور تمہاری کامیابی کے آثار بھی نظر نہیں آتے تھے ، پس اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے اندر اس کی قدر پہچاننے کا جوش پیدا ہو جائے
ذرا میدان بدر کا نقشہ اپنے ذہن میں لاؤ تمہاری کیا حالت تھی اور اللہ نے کیا کر دکھایا : 211: نبی اعظم ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو قریش نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن ابی کو جسے ہجرت رسول ﷺ سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کرچکے تھے۔ اور جس کی تمناؤں پر نبی کریم ﷺ کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہونے کی وجہ سے پانی پھر چکا تھا خط لکھا کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں و کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اسے نکال دو ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادہ ہوا مگر رسول اللہ ﷺ نے بروقت اس کی شر کی روک تھام کرلی۔ پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرے کے لئے مکہ گئے وہاں عین زمزم کے دروازے پر ابو جہل نے اس کو روک کر کہا کہ تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمنان سے مکہ میں طواف کرنے دیں ؟ اگر تم امہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے جواب دیا واللہ اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں تا جو تمہارے لئے اس سے شدید تر ہے یعنی مدینہ کی راہ سے تمہاری راہ گزر۔ یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اسی کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ دیا گیا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین اسلام کے لئے پر خطر ہے۔ اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے پاس اور کوئی تدبیر نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور ان کے حلیف قبائل جن کا مفاد اس راستہ سے وابستہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ اور مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لئے مجبور ہا جائیں۔ چناچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی کریم ﷺ نے تو خیر اسلامی سوسائٰ کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھی معاملات طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ فرمائی وہ اس شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے میں آپ ﷺ نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔ ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحراحمر کے درمیان اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے۔ ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم ازکم ناطرفداری کے معاہدے کرلیں۔ چناچہ اس میں آپ ﷺ کو پوری پوری کامیابی ہوئی کیونکہ تقریباً سارے قبائل سے آپ ﷺ کے معاہدے ہوگئے۔ دوسری تدبیر آپ ﷺ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لے اس شاہراہ پر پہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کر دئے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ ﷺ خود بھی تشریف لے جاتے رہے جن کی داستانیں تاریخ کے صفحات میں آج تک محفوظ ہیں۔ حالات اس طرح چلتے رہے یہاں تک 2 ہجری کے شعبان میں جو فروری یا مارچ 623 ھ کے برابر ہوگا قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ جس کے ساتھ تقریباً پچاس ہزار اشرفی کا مال تھا اور تیس یا چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقہ میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا چونکہ مال زیادہ اور محافظ کم تھے۔ اور سابق حالات کی بناء پر خطرہ قومی تھا۔ کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے اس لئے سردار قافلہ ابو سفیان نے اس پر خطر علاقے میں پہنچنے سے پہلے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے مطابق اپنے اونٹ کا کان کاٹے ، اس کی ناک چیر دی اس کے کجاوے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنی قمیض پھاڑ کر شور مچانا شروع کردیا اور کہنے لگا کہ قریش والو ! اپنے تجارتی قافلہ کی خبر لو تمہارے اموال جو ابو سفیان کے ساتھ ہیں محمد ﷺ اپنے آدمی لے کر ان کے درپے ہوگیا ہے مجھے امید نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے دوڑو مدد کے لئے۔ اس پر سارے مکہ میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ تقریباً ایک ہزار جنگی بہادر جن میں سے چھ سو زرہ پوش تھے۔ اور جن میں سو سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لئے چلے ان کے پیش نظر صرف یہ کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچالائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے۔ کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں اور مدینہ میں یہ مخالفت طاقت جو بھی نئی نئی مجتمع ہونا شروع ہوء ہے اس کو پورے زور سے کچل کر رکھ دیں اور اس نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کردیں کہ آئنداہ کے لئے یہ تجارتی رستہ بالکل محفوظ ہوجائے۔ اب نبی کریم ﷺ نے جو حالات سے ہر وقت باخبر رہتے تھے۔ محسوس فرمایا کہ فیصلہ کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جب کہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لئے بےجان ہوجائے گی بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لئے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ اس دارالہجرۃ میں آئے ابھی قورے دو سال بھی نہیں ہوئے تھ۔ مہاجرین بےسروسامان ، انصار ابھی نا آزمودہ ، یہودی قبائل بر سر مخالفت۔ خود مینہ میں منافقین ایک اچھا خاصا طاقت ور عنصر موجود اور گردو پیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائی اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا۔ اور ان کے لئے ملک بھر میں کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی اور آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور اس دارالہجرۃ میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کو کوئی رعب و اثر نہ رہے گا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جانو مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بناء پر نبی رحمت ﷺ نے عزم فرمایا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے۔ کس میں نہیں۔ اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کر کے آپ ﷺ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب میں قریش کا لشکر چلا آ رہا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا بتاؤ تم کس کے مقابلہ میں چلنا چاہتے ہو ؟ جواب میں ایک بڑے گو وہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلہ پر حمل کیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کے پیش نظر کچھ اور تھا۔ اس لئے آپ ﷺ نے اپنا سوال دہرایا اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو نے اٹھ کر کہا ” یا رسول اللہ ﷺ جیسا آپ ﷺ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اس طرف چلئے ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں جاؤ تم اور تمہارا خدا دنوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھیں گے نہیں ہم کہتے ہیں کہ چلئے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کا خدا اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں اور اپنی جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں ایک آنکھ بھی گردش کر رہیں ہے۔ مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کئے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی۔ اور ان کے لئے یہ آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے اول روز کیا تھا۔ اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے آپ ﷺ نے براہ راست ان کو مخاطب کئے بغیر پھر سوال دہرایا۔ اس پر سعد معاذ اٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضور ﷺ کا رؤئے سخن ہماری طرف ہے ؟ آپ ﷺ نے فر مایاہاں ! انہوں نے کہا ” ہم آپ ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ آپ ﷺ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپ ﷺ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ ﷺ سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول ﷺ ! جو کچھ آپ ﷺ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گزریئے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ﷺ ہم کو لے کہ سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ کو دیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ ﷺ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے۔ مقابلہ میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جس کو دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ﷺ ہمیں لے چلیں۔ اب فیصلہ ہوگیا کہ قافلہ کے بجائے لشکر کفار ہی کے مقابلہ پر چلنا چاہئے لیکن یہ فیصلہ لوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لئے اٹھے ان کی تعداد تین سو سے کچھ زائد تھی 86 مہاجر 61 قبیلہ اوس کے 170 قبیلہ خزرج کے جس میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لئے 70 اونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین ، چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا اور صرف ساٹھ آدمیوں کے ساتھ زرہیں ۔ اس لئے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی ججو اس خطرناک مہم میں چریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ جو اگرچہ دارئرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں مال و جان کو زیاں ہو۔ اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کرر ہے تھے اور ان کے خیال تھا کہ دینی جز بےنے ان لوگوں کو پاگل بنا دیا ہے مگر نبی اور مومنین صادقین نہ سمجھ چکے تھے کہ یہ قوت جان کی بازی لگانے ہی کا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آرہا تھا حالانکہ اگر ابتداء میں قافلہ کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی راہ لی جاتی۔ 17 رمضان کو بدر کے مقام پر قریقین کا مقابلہ ہو جس وقت دونوں لشکر ایک دو سے کے مقابل ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا دئیے اور نہایت خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کی۔ ــ” خدایا یہ ہیں قریش اپنے سامان غرور کے ساتھ آنے والے تاکہ تیرے رسول کہ جھوٹا ثابت کریں۔ خداوند ! بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ ! اگر آج یہ مٹھ بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔ “ اس معرکہ کا رزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آراء تھے۔ کسی کا باپ ، کسی کا بیٹا ، کسی کا چچا ، کسی کا ماموں ، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کا ٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف ہی لوگ گزر وکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا تھا اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعائوں کو قبولیت بخشی گئی اور ان لوگوں کی صداقت ایمانی اللہ تعالیٰ کی نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اور قریش اپنے سارے غرور اور طاقت کے ساتھ آنے کے باوجود ان بےسرو سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ کفار کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر ہی قیدی ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جوان گل ہائے سرسبد اور اسلام کے مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکہ میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قبل لحاظ طاقت بنا دیا۔ اس زیر نظر آیت میں اس واقع کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ تم نہایت کمزور تھے لیکن اللہ نے زور آوروں کے مقابلہ میں تم کو کامیاب کردیا : 235: ” اَنْتُمْ اَذِلَّۃِ “ یعنی تم تعداد کے لحاظ سے اور سر و سامان کے لحاظ سے بہت تھوڑے تھے۔ لیکن تمہاری کمزوریوں کے باوجود اللہ نے تمہاری مدد فرما دی اور تم کامیاب ہوگئے اور بظاہر تمہاری کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ تعداد کے لحاظ سے بھی تم غالب آنے کے قابل نہ تھے۔ کیا ابھی بھی تم کو الٰہی نصرت کا یقین نہیں آیا۔ پھر فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم شکر کرنے والے بن جاؤ ۔ مومن تو پہلے ہی شکر گزار ہوتا ہے۔ پھر اس جگہ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو کوئی نئی نعمت عطا فرماتا ہے تو گویا نئی شکر گزاری کا موقع بھی عطا کرتا ہے۔ پس شکرگزار بننے میں اس نئی نعمتک کی طرف اشارہ ہے جو فتح مندی کی صورت میں نصیب ہوئی تھی۔ فرمایا اگر اب بھی تم تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہیں نصرت الٰہی اپنی مدد میں لے لے گی اور مزید شکرگزاری کا موقع مل جائے گا۔
Top