Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور اللہ نے بدر کے میدان جنگ میں تمہیں فتح مند کیا تھا حالانکہ تم دل ہار چکے تھے اور تمہاری کامیابی کے آثار بھی نظر نہیں آتے تھے ، پس اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے اندر اس کی قدر پہچاننے کا جوش پیدا ہو جائے
ذرا میدان بدر کا نقشہ اپنے ذہن میں لاؤ تمہاری کیا حالت تھی اور اللہ نے کیا کر دکھایا : 211: نبی اعظم ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو قریش نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن ابی کو جسے ہجرت رسول ﷺ سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کرچکے تھے۔ اور جس کی تمناؤں پر نبی کریم ﷺ کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہونے کی وجہ سے پانی پھر چکا تھا خط لکھا کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں و کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اسے نکال دو ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادہ ہوا مگر رسول اللہ ﷺ نے بروقت اس کی شر کی روک تھام کرلی۔ پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرے کے لئے مکہ گئے وہاں عین زمزم کے دروازے پر ابو جہل نے اس کو روک کر کہا کہ تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمنان سے مکہ میں طواف کرنے دیں ؟ اگر تم امہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے جواب دیا واللہ اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں تا جو تمہارے لئے اس سے شدید تر ہے یعنی مدینہ کی راہ سے تمہاری راہ گزر۔ یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اسی کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ دیا گیا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین اسلام کے لئے پر خطر ہے۔ اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے پاس اور کوئی تدبیر نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور ان کے حلیف قبائل جن کا مفاد اس راستہ سے وابستہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ اور مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لئے مجبور ہا جائیں۔ چناچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی کریم ﷺ نے تو خیر اسلامی سوسائٰ کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھی معاملات طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ فرمائی وہ اس شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے میں آپ ﷺ نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔ ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحراحمر کے درمیان اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے۔ ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم ازکم ناطرفداری کے معاہدے کرلیں۔ چناچہ اس میں آپ ﷺ کو پوری پوری کامیابی ہوئی کیونکہ تقریباً سارے قبائل سے آپ ﷺ کے معاہدے ہوگئے۔ دوسری تدبیر آپ ﷺ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لے اس شاہراہ پر پہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کر دئے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ ﷺ خود بھی تشریف لے جاتے رہے جن کی داستانیں تاریخ کے صفحات میں آج تک محفوظ ہیں۔ حالات اس طرح چلتے رہے یہاں تک 2 ہجری کے شعبان میں جو فروری یا مارچ 623 ھ کے برابر ہوگا قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ جس کے ساتھ تقریباً پچاس ہزار اشرفی کا مال تھا اور تیس یا چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقہ میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا چونکہ مال زیادہ اور محافظ کم تھے۔ اور سابق حالات کی بناء پر خطرہ قومی تھا۔ کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے اس لئے سردار قافلہ ابو سفیان نے اس پر خطر علاقے میں پہنچنے سے پہلے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے مطابق اپنے اونٹ کا کان کاٹے ، اس کی ناک چیر دی اس کے کجاوے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنی قمیض پھاڑ کر شور مچانا شروع کردیا اور کہنے لگا کہ قریش والو ! اپنے تجارتی قافلہ کی خبر لو تمہارے اموال جو ابو سفیان کے ساتھ ہیں محمد ﷺ اپنے آدمی لے کر ان کے درپے ہوگیا ہے مجھے امید نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے دوڑو مدد کے لئے۔ اس پر سارے مکہ میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ تقریباً ایک ہزار جنگی بہادر جن میں سے چھ سو زرہ پوش تھے۔ اور جن میں سو سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لئے چلے ان کے پیش نظر صرف یہ کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچالائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے۔ کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں اور مدینہ میں یہ مخالفت طاقت جو بھی نئی نئی مجتمع ہونا شروع ہوء ہے اس کو پورے زور سے کچل کر رکھ دیں اور اس نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کردیں کہ آئنداہ کے لئے یہ تجارتی رستہ بالکل محفوظ ہوجائے۔ اب نبی کریم ﷺ نے جو حالات سے ہر وقت باخبر رہتے تھے۔ محسوس فرمایا کہ فیصلہ کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جب کہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لئے بےجان ہوجائے گی بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لئے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ اس دارالہجرۃ میں آئے ابھی قورے دو سال بھی نہیں ہوئے تھ۔ مہاجرین بےسروسامان ، انصار ابھی نا آزمودہ ، یہودی قبائل بر سر مخالفت۔ خود مینہ میں منافقین ایک اچھا خاصا طاقت ور عنصر موجود اور گردو پیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائی اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا۔ اور ان کے لئے ملک بھر میں کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی اور آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور اس دارالہجرۃ میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کو کوئی رعب و اثر نہ رہے گا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جانو مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بناء پر نبی رحمت ﷺ نے عزم فرمایا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے۔ کس میں نہیں۔ اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کر کے آپ ﷺ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب میں قریش کا لشکر چلا آ رہا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا بتاؤ تم کس کے مقابلہ میں چلنا چاہتے ہو ؟ جواب میں ایک بڑے گو وہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلہ پر حمل کیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کے پیش نظر کچھ اور تھا۔ اس لئے آپ ﷺ نے اپنا سوال دہرایا اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو نے اٹھ کر کہا ” یا رسول اللہ ﷺ جیسا آپ ﷺ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اس طرف چلئے ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں جاؤ تم اور تمہارا خدا دنوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھیں گے نہیں ہم کہتے ہیں کہ چلئے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کا خدا اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں اور اپنی جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں ایک آنکھ بھی گردش کر رہیں ہے۔ مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کئے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی۔ اور ان کے لئے یہ آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے اول روز کیا تھا۔ اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے آپ ﷺ نے براہ راست ان کو مخاطب کئے بغیر پھر سوال دہرایا۔ اس پر سعد معاذ اٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضور ﷺ کا رؤئے سخن ہماری طرف ہے ؟ آپ ﷺ نے فر مایاہاں ! انہوں نے کہا ” ہم آپ ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ آپ ﷺ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپ ﷺ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ ﷺ سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول ﷺ ! جو کچھ آپ ﷺ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گزریئے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ﷺ ہم کو لے کہ سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ کو دیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ ﷺ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے۔ مقابلہ میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جس کو دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ﷺ ہمیں لے چلیں۔ اب فیصلہ ہوگیا کہ قافلہ کے بجائے لشکر کفار ہی کے مقابلہ پر چلنا چاہئے لیکن یہ فیصلہ لوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لئے اٹھے ان کی تعداد تین سو سے کچھ زائد تھی 86 مہاجر 61 قبیلہ اوس کے 170 قبیلہ خزرج کے جس میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لئے 70 اونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین ، چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا اور صرف ساٹھ آدمیوں کے ساتھ زرہیں ۔ اس لئے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی ججو اس خطرناک مہم میں چریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ جو اگرچہ دارئرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں مال و جان کو زیاں ہو۔ اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کرر ہے تھے اور ان کے خیال تھا کہ دینی جز بےنے ان لوگوں کو پاگل بنا دیا ہے مگر نبی اور مومنین صادقین نہ سمجھ چکے تھے کہ یہ قوت جان کی بازی لگانے ہی کا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آرہا تھا حالانکہ اگر ابتداء میں قافلہ کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی راہ لی جاتی۔ 17 رمضان کو بدر کے مقام پر قریقین کا مقابلہ ہو جس وقت دونوں لشکر ایک دو سے کے مقابل ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا دئیے اور نہایت خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کی۔ ــ” خدایا یہ ہیں قریش اپنے سامان غرور کے ساتھ آنے والے تاکہ تیرے رسول کہ جھوٹا ثابت کریں۔ خداوند ! بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ ! اگر آج یہ مٹھ بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔ “ اس معرکہ کا رزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آراء تھے۔ کسی کا باپ ، کسی کا بیٹا ، کسی کا چچا ، کسی کا ماموں ، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کا ٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف ہی لوگ گزر وکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا تھا اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعائوں کو قبولیت بخشی گئی اور ان لوگوں کی صداقت ایمانی اللہ تعالیٰ کی نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اور قریش اپنے سارے غرور اور طاقت کے ساتھ آنے کے باوجود ان بےسرو سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ کفار کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر ہی قیدی ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جوان گل ہائے سرسبد اور اسلام کے مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکہ میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قبل لحاظ طاقت بنا دیا۔ اس زیر نظر آیت میں اس واقع کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ تم نہایت کمزور تھے لیکن اللہ نے زور آوروں کے مقابلہ میں تم کو کامیاب کردیا : 235: ” اَنْتُمْ اَذِلَّۃِ “ یعنی تم تعداد کے لحاظ سے اور سر و سامان کے لحاظ سے بہت تھوڑے تھے۔ لیکن تمہاری کمزوریوں کے باوجود اللہ نے تمہاری مدد فرما دی اور تم کامیاب ہوگئے اور بظاہر تمہاری کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ تعداد کے لحاظ سے بھی تم غالب آنے کے قابل نہ تھے۔ کیا ابھی بھی تم کو الٰہی نصرت کا یقین نہیں آیا۔ پھر فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم شکر کرنے والے بن جاؤ ۔ مومن تو پہلے ہی شکر گزار ہوتا ہے۔ پھر اس جگہ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو کوئی نئی نعمت عطا فرماتا ہے تو گویا نئی شکر گزاری کا موقع بھی عطا کرتا ہے۔ پس شکرگزار بننے میں اس نئی نعمتک کی طرف اشارہ ہے جو فتح مندی کی صورت میں نصیب ہوئی تھی۔ فرمایا اگر اب بھی تم تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہیں نصرت الٰہی اپنی مدد میں لے لے گی اور مزید شکرگزاری کا موقع مل جائے گا۔
Top