Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جب عمران کی بیوی نے دعا مانگی تھی کہ ” اے اللہ ! میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے دنیا کے دھندوں سے آزاد کر کے تیرے لیے نذر کرتی ہوں سو میری طرف سے قبول فرما لے بلاشبہ تو دعائیں سننے والا اور نیتوں کے حال جاننے والا ہے “
عمران کی بیوی سیدہ حنہ کی دعا بارگاہ قاضی الحاجات : 87: جیسا کہ اوپربیان کیا گیا ہے کہ عمران موسیٰ و ہارون کے والد ماجد کا نام بھی ہے اور اسی عمران سے کچھ مفسرین نے اسی عمران کو مراد لیا ہے اور انہوں نے ” امرة عمران “ کا ترجمہ کیا ہے کہ عمران کے گھرانے کی ایک عورت یعنی حنہ اور بعض بلکہ زیادہ مفسرین نے عمران مریم کے والد ماجد کا نام بتایا ہے اور کہا ہے کہ یہ عمران بن ماثان کا ذکر ہے اور ہم نے بھی یہی مراد لی ہے جو عمران والد مریم ہیں۔ چونکہ مسیحی نوشتوں میں ان کا نام حنہ (Hannaa) آیا ہے بعض مفسرین نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ شام وغیرہ میں کلیسا کلیسائے حنہ کے نام سے مشہور ہیں اور ان کا مقبرہ دمشق میں ہے۔ قرآن کریم کا یہ خاص اعجاز ہے کہ وہ کسی واقعہ کو بیان کرتے وقت ایسا پیرایہ بیان اختیار کرتا ہے کہ چند ہی لفظوں میں سارا واقعہ بھی نظروں میں گھوم جائے اور پڑھنے اور دیکھنے والوں کے لیے وہ نصیحت کا کام بھی دے۔ اب غور کرو کہ ” امراة عمران “ کہہ کر پھر اسی دعا کا مختصر الفاظ میں ذکر کر کے کیا کچھ ہے جو سمجھا نہیں دیا ؟ ” عمران کی بیوی “ کے الفاظ نے پورا نقشہ سامنے کھینچ دیا کہ عمران کی برگزیدہ انسان تھے کہ ماشائ اللہ ان کی بیوی تھیں۔ عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کو جس اولاد کا تصور ہوتا ہے اس اولاد کے لیے اپنے تصور ہی تصور میں وہ کیا کیا سوچتی ہے۔ اس کے پیدا ہونے پر اپنی خوشیوں کے متعلق اور ان تقریبات کے متعلق اس کے چھوٹے ہونے کے تصور میں اس کے کپڑوں ، خوراک اور تعلیم و تربیت کے متعلق اور پھر جو ان ہو کر ان کی شادی اور عہدوں کے متعلق اگرچہ یہ سب کچھ تصور ہی خیال ہی خیال میں ہوتا ہے لیکن ہوتا کیا کیا اور کیسا کیسا ہے ؟ ادھر اس کی ماں کو دیکھو کہ وہ نہ معلوم کتنی مدتوں کے بعد حاملہ ہوئی ہے لیکن اس کا تصور کیا ہے ؟ کہ ” اے اللہ ! میرے پیٹ یعنی رحم میں جو بچہ ہے اس کو ترے گھر کی خدمت کے لیے مخصوص کرتی ہوں۔ “ کیا اب عورتیں حاملہ ہوتی ہیں یا نہیں کہیں یہ تصور موجود ہے ؟ کیا اس تصورکو اچھا تصور خیال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کا بچہ اپنی معصومیت کے دور میں مسجد میں آناشروع کردے توکتنے گھروں میں اس کو فال بد سمجھا جاتا ہے کہ بچے کو کیا ہوگیا۔ کتنے پیارے انداز کے ساتھ یہ بات سمجھا دی کہ حنہ حاملہ ہوچکی تھی کہ انہوں نے یہ دعا مانگی۔ کتنافرق ہے اسکلام میں کہ ایک عورت بانجھ ہے اس کو کوئی امید نہیں کہ اسے اولاد ہوگی لیکن پھر بھی وہ منتیں مانتی ہے کہ اگر میرے اولاد ہوجائے تو میں یہ کروں گی اور وہ کروں گی۔ اگرچہ جو کچھ وہ کہے گی وہ بھی شرک ہی ہوگا الا ماشائ اللہ۔ مگر یہ کوئی جانتا ہے کہ عرف عام میں نذر کہتے ہیں اس کو ہیں کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو یہ کروں گی اور ایسا کروں گی۔ یہ نذر اس طرح کی مشروط نذر نہیں۔ یہاں اللہ اور اس کے گھر کی محبت کا تقاضا ہے۔ حنہ حاملہ ہوجاتی ہیں کتنی مدت کے بعد ؟ کتنی دعائوں اور آروئوں کے بعد لیکن جب حاملہ ہوچکتی ہیں تو کتنے نیک ارادہ کا اظہار کرتی ہیں وہ بھی اپنے مالک حقیقی کے سامنے تخلیہ کے اندر کسی محبت اور کس پیار کے ساتھ۔ اپنی اولادوں کو دنیا کے دھندوں میں لگانے والوں اور دنیاوی خواہشات کی وابستگیاں کرنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اس اللہ کی نیک بندی کے دل میں جو پوشیدہ راز تھا اپنی اس اولاد کے متعلق جس کے متعلق ابھی وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ بچی ہے یا بچہ اس نے اپنے مالک پروردگار کے سامنے اپنے پوشیدہ راز کو کھول دیا۔ اگرچہ یہ چھپے رازوں کو بھی جاننے والا ہے لیکن انسان کے ارادے کا انسان کو تو اس وقت ہی پتہ چلتا ہے جب وہ اس کو اپنی زبان کی نوک پر لے آتا ہے۔ سیدہ حنہ کے نطق جو گویا ہوئی تو اس کے پوشیدہ راز سے ساری دنیا واقف ہوگئی کہ ایک اللہ کی بندی اپنے بطن کے بچہ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر رہی ہے اور پکارپکارکر کہتی ہے کہ اللہ میری اس دعا کو قبول فرمالے۔ عمران کی بی بی نے نذر ماننے والوں کے لیے ایک مثال قائم کردی : 88: انسان کو چاہیے کہ وہ نذر جب بھی مانے تو صرف اور صرف بارگاہ ایزدی یعنی رب ذوالجلال والاکرام کے لیے مانے۔ غیر کے لیے ہرگز ہرگز نہ مانے پھر مشروط طور پر نہ مانے بلکہ اس انداز سے مانے کہ گویا وہ دعا کر رہا ہے شرط نہیں لگا رہا۔ اللہ سے طلب کرنے اور ماگنے کی ہر وقت ضرورت محسوس کرے اور پھر طلب کرنے کا ڈھنگ بھی سیکھے۔ جیسے سیدہ حنہ نے کہا کہ اے اللہ میں اس کو جو کچھ میرے بطن میں ہے تیرے نام پر آزاد کرتی ہوں۔ یعنی اس کو تیرے گھر کی خدمت کے لیے مختص کرتی ہوں میں اپنی دنیوی خواہشات کو اس سے پورا نہیں کرنا چاہتی بلکہ تیری عطای کردہ چیز کو تیرے ہی نام پر چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ ہاں ! فطرت انسانی کے مطابق ان کے دل میں بیشک یہ خواہش ہوگی کہ یہ میری نرینہ اولاد ہوگی جو ہیکل کی خدمت میں سرگرم عمل رہے گی۔ ” فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ “ ” میرے اللہ ! میری طرف سے یہ نیاز قبول فرما لے۔ “ مسلمانوں کے لیے اس جملہ میں ایک خاص لمحہ فکر ہے۔ کاش کہ کوئی فکر کرنے والا بھی ہو۔ وہ یہ کہ اس بیان میں یہ اشارہ ہے کہ بنی اسرائیل کی اس گئی گزری حالت میں بھی ان کے اندر ایسے لوگ ابھی موجود تھے جو محض خدمت دین الٰہی کے لیے اپنی اولاد وقف کردیتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس گئی گزری حالت میں بھی سینکڑوں سال تک اپنی تاریخ کو زندہ رکھ سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی دین قائم ہی نہیں رہ سکتا جب تک اس کے اندر وہ لوگ موجود نہ ہوں جو اپنی زندگیوں کو دین کی خاطر وقف کردیں۔ کیا یہ عبرت کا مقام نہیں ! کاش کہ ! مسلمان قوم بھی اس سے سبق حاصل کرے اور خصوصاً وہ لوگ جو دنیوی عزت و جاہ بھی رکھتے ہیں تاکہ اولاد کی صحیح تربیت کر کے دین کی خدمت ان سے لے سکیں افسوس کہ آج اللہ کے دین کو دکانداری بنا دیا گیا پھر جس کے پاس کوئی سرمایہ نہ ہو اور کوئی علم حاصل نہ کرسکا ہو ، لولا لنگڑا ہو اس طرح کے سارے لوگ دین کے پیشوا و امام بن گئے۔ انہوں نے اللہ کے دین کو ” برباد “ کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی اللہ کا دین دین نہ رہا بلکہ ہنسی اور مذاق بن گیا۔ آج بدقسمتی سے مساجد کو مساجد نہ رہنے دیا گیا بلکہ کاروباری مرکز بنادیا گیا ہے جہاں ثواب کے ٹھیکدار رہ رہے۔ رقمیں وصول کر کے ثواب عطا کرتے ہیں۔ دین کیا ہے ؟ موم کی ناک ہے چاہو جدھر موڑ کرلے جائو۔ اللہ ان ٹھیکیداروں سے بچائے۔ ہاں ! ہاں ! قوم مسلم یاد رکھو اگر تم ساری دنیا کے بادشاہ بھی بن جائو تو بھی دین اسلام کی شوکت و عظمت دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ تم میں وہ لوگ کثرت سے نہ ہوں جو اللہ کے دین کے لیے اعلائے کلمة اللہ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔
Top