Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 158
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
بَلْ : بلکہ رَّفَعَهُ : اس کو اٹھا لیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْهِ : اپنی طرف وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا (یعنی وفات دے دی) اور اللہ سب پر غالب رہنے والا اور حکمت رکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کی مکاریوں کا نشانہ بنانے سے بچالیا : 249: سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں پھیلے ہوئے تما م نظریات کا اعلان کر کے اب قرآن کریم خود بتاتا ہے کہ وہ کہاں گئے۔ فرمایا انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا۔ اب قدرۃً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہاں اٹھالیا ‘ کہیں وہ خود بیٹھا تو ہے نہیں کہ وہاں بلالیا ہو تو اس کا صاف جواب تو یہی ہے کہ یہودیوں کی مکاریوں سے صاف صاف بچا لینے کو ان الفاظ میں بیا فرمادیا۔ اس لئے اصل مقصود اس بیان کا ان کی مکاریوں اور سازشوں سے بچانا ہی تھا خواہ وہاں سے ہجرت کرا کے بچایاہو ‘ خواہ فلسطینی حکومت نے مداخلت کرکے ان کی مذہبی عدالت کے فیصلہ کے نفاذ پر پابندی عائد کردی ہو۔ خواہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو یہود کے مقابلہ میں کھڑا کرکے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہوں۔ خواہ اس طرح کی کوئی اور تدبیر کردی ہو جس کا ذکر صدیوں بعد کرنے سے کوئی ابہام پیدا ہوتا ہو اس لئے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ لکنل یہی وہ الفاظ ہیں جن سے ہم مسلمانوں کی اکثریت کا عقیدہ یہ قائم ہوا کہ عیسیٰ علیہ اسلام مصلوب ہوئے اور پھر ان میں یہ اختلاف رونما ہوا کہ آیا صلیب پر مرے یامرنے سے پہلے ہی صلیب سے اتاردیئے گئے اس طرح کچھ عیسایئوں نے مان لیا کہ وہ ایک بار مر گئے تھے لیکن ترسکے روز وہ زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے اور کچھ کا خیال ہے کہ وہ صحیح طور پر مرے ہی نہ تھے اور نیم مردہ حالت میں صلیب سے اتار لئے گئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد وہ بالکل تندرست ہوئے تو یہود کی مخالفت کے دوبارہ خطرہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا لیکن ہم مسلمانوں کی اکثریت یہی مانتی ہے کہ ان کی شکل ایک انسان سے مشابہ کردی گئی ۔ یہود نے انکی شکل والے ان ہی کے مصاحب کی سولی چڑھایا اور آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ لیکن خدا لگتی بات تو یہی ہے کہ اس عقیدہ کی بنیاد اتنی ہی کمزور ہے جتنی دوسری قوموں کے عقائد کی بنیاد کمزور تھی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے ہاں حیات مسیح کا عقیدہ متفق علیہ عقیدہ نہیں بلکہ بہت سے مسلمان حیات مسیح کے قائل نہیں تھے۔ اس سے فائدہ قادیانی نے اٹھایا اور انہوں نے وفات مسیح کی بنیاد پر کبھی مسیح موعود اور کبھی ظلی اور بروزی نبی اور علاوہ ازیں بھی بہت کچھ بننے کی ناکام کوشش کی تاہم انہوں نے اپنی نبوت کے ثبوت کے لئے وفات مسیح کو بطور اساس بنایا حالانکہ ختم نبوت کے مسئلہ کو حیات مسیح کے ساتھ دورکا بھی واسطہ نہیں اس طرح دراصل انہوں نے مسلمانوں کو ایک طرح کا دھوکا دیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی نبوت و مسیحیت کو ثابت کرتے جو ان کو بھی معلوم تھا کہ ثابت نہیں کی جاسکتی انہوں نے سارا زور وفات مسیح پر لگا دیا اور ان کے مقابلہ میں اہل السلام کی اکثریت نے بھی ان کی نبوت و مسیحیت کے تار عنکبوت کو ایک ہی ہاتھ سے صاف کردینے کی بجائے اپنا زور حیات مسیح پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ اس طرح اس کھینچا تانی میں مرزا جی کے جھوٹ کو کچھ دیر چلنے کا موقع مل گیا حالانکہ اس سانپ کو دم کی بجائے سر سے پکڑ لیا جاتا تو اس وقت بھی اس کا سر کچلا جاسکتا تھا۔ اور ” متوفیک “ کے معنی ” ممیتک “ صدر اول ہی ہوتے چلے آرہے تھے۔ اور حضرت خاتم النبیین ﷺ کے بعد کسی کا کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنا آیات قرآنی اور احادیث نبوی ﷺ کا صریح انکار اور کفر ہے اور اس پر ملت اسلامیہ میں اس وقت سے لے کر آج تک کوئی اختلاف نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ آج عوام تو علماء کرام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ” وفات مسیح “ مرزائیوں کا مسئلہ ہے اس لئے جو ” وفات مسیح “ کا قائل ہو وہ گویا مرازئی ہوتا ہے حالانکہ یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا گدھے کے سر پر سینگ ۔ ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ مرزا جن کا نام ان کے والدین نے ” غلام احمد “ رکھا تھا جس طرح اور بھی بہت سے لوگ یہ نام رکھتے تھے اور آج بھی رکھتے ہیں مرزا جی کے صاحبزادے نے بڑی چالاکی کے ساتھ سورة الصف کی آیت ” اذقال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقالمابین یدی من التورتہ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “ اور یاد کرو عیسیٰ بن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں تصدیق کرنے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ “ (الصف 61:5) مرزا کو بزوری نبی ثابت کرنے کی کوشش کی پھر اس ناطے سے ” احمدی “ کا نام مخصوص کرلیا اور ” قادیانی “ اور ” مرزائی “ کے نام سے گلو خلاصی کرائی اور ” احمدی “ نام کو پکا کرلیا پھر اس نام کو دونوں گروہوں نے استعمال کرنا شروع کردیا دوسرے مسلمانوں نے کوئی تنقید نہ کی اور ان کو لاہوری اور قادیانی کہہ کر تخصیص دے لی اور آہستہ آہستہ وہ وقت آیا کہ یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا تو قانون کے اندر ” احمدی غیرمسلم “ کے نام استعمال ہونے لگے اور اب مسلمانوں نے ” وفات مسیح کی طرح “ ” احمدی “ کے الفاظ بھی مرازئیوں کے سپرد کردیئے اور یہ خیال نہ کیا ہمارا حق تو یہ ہے کہ ہم ثابت کردیں کہ تم ” احمدی “ نہیں بلکہ ” مرزائی “ قادیانی “ یا چاہو جو نام اپنے لئے پسند کرو۔ مزید تعجب یہ ہوا کہ مرازئیوں نے قرآن کریم کی دو آیات کریمات کو استعمال کرنا شروع کردیا ” الیس اللہ بکافٍ عبدہ “ اللہ نور السموات والارض پھر ایک وقت آیا کہ جس کے گھر میں یہ آیت لکھی گئی ہو جس کے ہاتھ پر انگوٹھی ہو جس کے نگینہ میں ” الیس اللہ بکافٍ عبدہ “ کے الفاظ کندہ ہوں جس مکان پر ” اللہ نور السموات والارض “ تحریر کیا گیا ہو اس کو مرازئی اور مرازئیوں کا مکان تصور کرلیا اور یہ تاثر اتنا پھیلا کہ یہ دونوں آیتیں تو اس طرح سمجھی جانے لگیں جیسے قرآن کی آیات نہ رہی ہوں۔ مرزائیوں کا نشان سمجھی جانے لگیں۔ یعیے ایسی ضد بنا دی گئی کہ مرزائی اگر دو اور دو کو چار کہیں گے تو ہم مسلمان تب ہی مسلمان رہ سکتے ہیں کہ ان کو پانچ کہیں یا کم از کم تین کہہ لیں گے جب حکومت اس پر بین لگائے کہ وہ چار کہنا چھوڑ دیں اور ظاہر ہے کہ یہ رومیوں کی حکومت تو ہے نہیں جو ڈٹ جائے یہ تو مسلمانوں کی اپنی حکومت اور جو مسلمان کہیں گے حکومت کو بہر حال کہنا ہی پڑے گا ورنہ بس پھر ورنہ ہی ہوجائے گا۔ ہاں ! یاد رہے کہ نزول مسیح کا مسئلہ احادیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے لیکن اس مسئلہ کا تعلق بھی ” حیات مسیح “ سے مطلق نہیں ہے ہاں ! جن احادیث میں مسیح کی آمد کا ذکر ہے ” ان میں تو مسیح کا نام ولدیت ‘ محل نزول اور جو جو کارہائے نمایاں آپ انجام دیں گے ان سب کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ “ (ضیاء القرآن ج اول ص 417: ) بہر حال اگر کوئی شخص ” حدیث کو مانتا ہے تو اسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے وہی عیسیٰ ابن مریم ہوں گے اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کی آمد کا قائل ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ (تفہیم ج 2 ص 132) اگر وہ وفات پا چکے ہیں تو اللہ انہیں زندہ اٹھا لانے پر قادر ہے اور دوبارہ اٹھانے کا اس کا قانون بھی ہے اعلان بھی اور سب کا دوبارہ اٹھنا بھی لازم و ضروری ہے اور اس زندگی میں ایک دوسرے کی پہچان ایک دوسرے سے گفتگو سب محقق ہے۔ اس مسئلہ کی وضاحت انشاء اللہ سورة الاحزاب میں ہوگی جہاں خاتم النبیین کا موضوع بھی زیر بحث آئے گا اس وقت تو عرض یہ کرنا ہے کہ ” بل رفع اللہ الیہ “ کے الفاظ سے یہ بات حتمی ثابت نہیں ہوتی کہ سدہنا عیسیٰ علیہ اسلام زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں اور یہ کہ ” وفات مسیح “ کا مسئلہ عالم اسلام کا اختلافی مسئلہ ضرور ہے لیکن مرزائیوں کا مسئلہ نہیں جیسا کہ اس کو سمجھ لیا گیا ہے۔
Top