Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 57
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا : جو لوگ ٹھہراتے ہیں دِيْنَكُمْ : تمہارا دین هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ۔ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل وَالْكُفَّارَ : اور کافر اَوْلِيَآءَ : دوست وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے مسلمانو ! یہود و نصاریٰ اور کفار میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے (اور اس کی تحقیر و تذلیل کی ہے) تم انہیں اپنا مددگار و رفیق نہ بناؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اگر فی الحقیقت تم ایمان رکھنے والے ہو
دین کا مذاق اڑانے والوں سے دوستی روایات اسلامی کے خلاف ہے : 164: کسی قوم سے دوستی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے دشمنی ہے اور نہ ہی کسی قوم سے دشمنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے دوستی ہے اس جگہ جس چیز سے منع کیا جا رہا ہے وہ صرف دوستی سے منع کیا جا رہا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ دوست دوست کو بہت کچھ بتا دیتا ہے اور بہت کچھ اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا اور بہت کچھ وہ ہے جو اس کو دوست سے پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتے۔ اس لئے جس سے دوستی نہ ہوگی اس سے گویا لا تعلقی ہوگئی اگرچہ ضروری نہیں کہ اس سے دشمنی ہوگئی۔ ایمان والوں کو منع کیا جا رہا ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ اور کفار کو جن لوگوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے تم انہیں اپنا مددگار و رفیق نہ بناؤ اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو اگر فی الحقیقت تم ایمان رکھنے والے ہو۔ “ یہو ونصاریٰ نے اور کفار نے دین اسلام کو ہنسی اور کھیل کیسے بنا لیا ؟ چونکہ وہ خود اپنے دین سے مادر پدر آزاد ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دین کا تعلق آخر دنیا کے کاموں سے کیا ؟ دین کا تعلق تو صرف مذہبی رسوم سے ہے۔ جب صلیب کا نشان بنالیا بلکہ اس کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور یہ تسلیم کرلیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) امت نصاریٰ کے گناہوں کا کفارہ ہوگئے اور خمیری اور فطیری روٹی کا استعمال کرلیا تو اب یہ کام کر کے ایک آدمی نصرانی ہوگیا اب اس کے اعمال کا تعلق دنیا میں جو کچھ ہوا سو ہوا ہر حال میں وہ نصرانی تو ہوگیا اور اگر رسم و رواج کے وہ کام جو ایک نصرانی کیلئے کرنے ضروری تھے وہ نہ کئے تو گویا وہ نصرانی نہ ہوا اعمال و اخلاق اور کردار کے لحاظ سے خواہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوا۔ اس طرح جب ایک انسان نے مذہبی رسوم ادا کرلیں تو وہ دنیا کے کاموں کے لئے کیوں پابند ہو کہ وہ یہ کرے اور یہ نہ کرے یہ کھائے اور اس سے پرہیز کرے ۔ اس طرح کمائے اور اس طرح نہ کمائے۔ اس طرح خرچ کرے اور اس طرح خرچ نہ کرے۔ اس سے تو انسان کی آزادی ہی صلب ہو کر رہ گئی اور جب آزادی ہی صلب ہوگئی تو وہ انسان انسان کیسے ہوا ؟ یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ان اعمال کا تعلق دین کے ساتھ مطلق نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ سوچنے والے ان کا نشانہ ٹھہرے کہ دیکھو یہ وقیانوسی لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں انسانیت سے عاری ہیں۔ یہ حلال ہیں اور یہ حرام ، کیوں ؟ جس کو جی چاہئے وہ حلال ہے اور جس کی طلب نہ ہو وہ حرام ہے ۔ یہی ازدواجی تعلق کا حال ہے اگر ایک نرومادہ جنسی فعل پر آمادہ ہیں تو آخر اس سے ان کو روکا کیوں جائے گا ؟ اگر روکا گیا تو وہ انسان انسان کا ہے کو ہوئے اگر وہ برضا ورغبت ایک جوڑ میں جڑناچاہتے ہیں تو ہم کون ہیں جو ان کو روکیں اور ان کو نشانہ ہدف بنائیں ۔ ماں ، بیٹی اور بہن کی تمیز آخر کیوں ؟ ان میں سے ایک دوسرے کو یہ بات معلوم نہیں ہے اگر معلوم ہے اور اس کے باوجود وہ مل بیٹھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہوئی قانون ان پر گرفت کیوں کرے گا اور دین کا ان چیزوں سے کیا تعلق ؟ یہ تو خالصتاً دنیوی باتیں ہیں فطری خواہشات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔ فرمایا اس طرح کی باتیں کر کے انہوں نے کیا کیا ؟ اسلام کا مذاق ہی تو اڑایا لیکن تم نے ان کو ان ساری باتوں میں حق بجانب سمجھ لیا اور ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ان کے ساتھ خلط ملط ہوگئے تو اب تم ہی بتاؤ کہ ان میں اور تم میں کیا فرق باقی رہا ؟ مفسرین میں سے اگر اس مذاق کا کسی نے پہلے ذکر نہیں کیا تو محض اس لئے کہ یہ ان کی آزادی ماڈرن آزادی ہے اور نیا مذاق ہے جو وہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ اس وقت کر رہے ہیں ۔ ان کے آباء و اجداد کا مذاق کیا تھا ، اس کی تلاش کی ہم کو ضرورت کیا جب ہم ان کے اس نئے مذاق سے واقف ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کا ذکر کیں۔ مذاق ان کے آباء و اجداد نے بھی کیا اور یہ بھی کر رہے ہیں اگرچہ ان کے آباء اجداد کے مذاق کا رنگ اور تھا اور ان جدید اور ماڈرن یہود ونصاریٰ کا اور دوسری قوم کا کفار کا مذاق بھی جدید اور ماڈرون قسم کا ہے ۔ فرمایا ان کی یہ ساری باتیں جب اسلام کے دیئے ہوئے اور بتائے ہوئے قوانین کے خلاف ہیں تو وہ تمہارے قانون کی خلاف ورزی کر کے تمہارا مذاق ہی تو اڑا رہے ہیں اور تم ہو کہ ان سے برابر پیار کئے جا رہے ہو کبھی ان کی عورتوں سے پیار کر کے انکی محبت میں گرفتار ہو کر ان سے نکاح جائز کرنے کی سعی میں مصروف ہو کبھی ان کے دستر خوان پر بیٹھ کر شراب اور سور کے گوشت سے لطف اندوز ہونے کو جائز قرار دے رہے ہو۔ ان کی جلی کٹی اور سڑی گلی مری ہوئی سفید کھال تم کو کتنی پسند ہے کہ تم نے اس پر اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے ۔ ان کی بےحیائیوں اور بےغیرتیوں کو تم نے حیاء اور غیرت قراردے لیا ہے ۔ ” اللہ سے ڈرو ، اگر فی الحقیقت تم ایمان رکھنے والے ہو۔ “
Top