Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 65
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَكَفَّرْنَا : البتہ ہم دور کردیتے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَ : اور لَاَدْخَلْنٰهُمْ : ضرور ہم انہیں داخل کرتے جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : نعمت کے باغات
اور اگر اہل کتاب ایمان رکھتے اور پرہیزگار ہوتے تو ہم ضرور ان پر سے ان کی خطائیں محو کردیتے (خطاؤں کے اثرات مٹا دیتے) اور ضرور انہیں نعمت کی جنتوں میں داخل کر دیتے
اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ان کی خطائیں یقینا محو ہوجاتیں : 177: اہل کتاب کے دونوں ہی گروہوں نے تورات اور انجیل کی ہدایات اور انبیاء کرام کے ارشادات سے وہ فائدہ نہ اٹھایا جو ان کو اٹھانا چاہئے تھا۔ وہ حرض دنیا میں مبتلا ہو کر سب کچھ بھلا بیٹھے جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں بھی تنگ دستی کا شکار ہوئے اور آخرت میں بھی انہوں نے خاطر خواہ حصہ نہ پایا۔ لیکن اب بھی اگر یہ لوگ ایمان لائیں اور خدا ترسی کے طریقہ کو اختیار کرلیں تو ہم ان کی سب خطائیں معاف کردیں اور نعمتوں سے بھرے ہوئے باغات کا ان کو وارث کردیں۔ یہ اسلئے کہ سب کو معلوم ہوجائے کہ من حیث القوم ہماری کسی قوم سے دشمنی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں جو ہمارے قانون کی خلاف ورزی کریں ان کا ہم کبھی لحاظ نہیں کرتے کہ یہ لوگ فلاں قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یہ ہمارے قانون سے مستثنیٰ ہیں نہیں نہیں ! ہرگز نہیں جس نے یہ سمجھا ہے وہ ہمارے قانون کو یقیناً نہیں سمجھا۔ اہل کتاب کو اتنی چھوٹ دی گئی لیکن انہوں نے اس سے کچھ فائدہ حاصل نہ کیا۔ انکو تورات و انجیل کے بحال کرنے کا کہا گیا اس لئے کہ اگر وہ تورات و انجیل کے احکام کو اس طرح مان لیتے جس طرح ماننے کا حق ہے تو وہ اسلام اور پیغمبر ﷺ کا انکار کر ہی نہیں سکتے تھے ۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ انہوں نے تورات وانجیل کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تب ہی انہوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ اور قرآن کریم کو کتاب الٰہی ماننے سے انکار کیا پھر انکا یہ انکار قرآن کریم اور پیغمبر اسلام کا انکار نہیں ہے بلکہ خود اپنی ہی مذہبی کتابوں کا انکار ہے کیونکہ وہ اس ساری پیش گوئیوں کے منکر ہیں جو پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق ان کی کتب آسمانی میں آج تک موجود ہے۔ دراصل اہل کتاب نے یہ سمجھا تھا کہ اگر وہ اس دعوت کو قبول کرتے ہیں تو ان کی سیادت و قیادت جو اس وقت تک ان کو حاصل تھی اس سے محروم ہوجائیں گے حالانکہ یہ محض ان کی حماقت ہے اگر وہ اس کو قبول کرتے تو یقینا ان پر آسمان و زمین دونوں کی برکتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں معقول اور راست باز بہت ہی تھوڑے ہیں اور اس کے برعکس زیادہ تر ان میں فاسق و بدعمل ہی ہیں ۔ زیر نظر آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ رب العزت خواہ مخواہ کا بیر اور عداوت و دشمنی کسی سے بھی نہیں رکھتا بلکہ وہ ہمیشہ سچائی کی قدر کرتا ہے اور جھوٹ کی مذمت اس کا فرمان ہے۔
Top