Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 34
فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖۤ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَؕ
فَلْيَاْتُوْا : پس چاہیے کہ وہ لائیں بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ : کوئی بات اس جیسی اِنْ كَانُوْا : اگر ہیں وہ صٰدِقِيْنَ : سچے
پھر یہ لوگ ایسا ہی کلام لے کر کیوں نہیں آتے اگر یہ سچے ہیں ؟
پھر یہ لوگ ایسا ہی کلام لے کیوں نہیں آتے ؟ اگر یہ سچے ہیں ؟ 34 ؎ یہ مطالبہ مکہ ہی کے لوگوں سے نہیں تھا بلکہ ساری دنیا کے انسانوں سے ایک جیسا تھا ‘ ہے اور رہے گا۔ اس کا اعلان پہلی بار سورة یونس کی آیت 38 میں کیا گیا کیونکہ سورة یونس سورة الطور سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور یونس کے بعد اس زیر نظر سورت میں دہرایا گیا اور اس کے بعد سورة البقرہ میں جو مدنی سورت ہے اس میں پھر پیش کیا گیا جیسا کہ سورة البقرہ کی آیت 23 میں اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر وہ لوگ جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ پر قرآن کو گھڑ کر لانے کا الزام لگایا ہے وہ سچے ہیں اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ یہ کلام آپ ﷺ کا اپنا بنایا ہوا ہے تو پھر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اس جیسا کوئی کلام وہ بھی پیش کردیں اور اگر عرب و عجم کے سارے فصحا و بلغاء مل کر بھی ایسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہیں تو پھر انہیں تسلیم کرلینا چاہئے کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں اور اگر ان دونوں باتوں سے ایک بات بھی تسلیم نہ کریں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں ؟ یہی کہ یہ لوگ ضدی اور ہٹ دھرم ہیں اور ضد ہی سے اللہ کے کلام کو اللہ کا کلام ماننے اور کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ پھر جھوٹے کا آخر کام ہی کیا ہے ؟ یہی کہ وہ جھوٹ بولتا رہے اور اپنے جھوٹ بولنے کو بالکل تسلمی نہ کرے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ ہی جھوٹ سے باز آئے۔
Top