Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 34
فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖۤ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَؕ
فَلْيَاْتُوْا
: پس چاہیے کہ وہ لائیں
بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ
: کوئی بات اس جیسی
اِنْ كَانُوْا
: اگر ہیں وہ
صٰدِقِيْنَ
: سچے
اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اسی شان کا ایک کلام بنا لائیں۔
27
سورة الطُّوْر
27
یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ محمد ﷺ کا کلام نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے انسانی کلام ہی نہیں ہے اور یہ بات انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسا کلام تصنیف کرسکے۔ اگر تم اسے انسانی کلام کہتے ہو تو اس پائے کا کوئی کلام لا کر دکھاؤ جسے کسی انسان نے تصنیف کیا ہو۔ یہ چیلنج نہ صرف قریش کو، بلکہ تمام دنیا کے منکرین کو سب سے پہلے اس آیت میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد تین مرتبہ مکہ معظمہ میں اور پھر آخری بار مدینہ منورہ میں اسے دہرایا گیا (ملاحظہ ہو یونس، آیت
38
۔ ہود،
13
، بنی اسرائیل،
88
۔ البقرہ،
23
)۔ مگر کوئی اس کا جواب دینے کی نہ اس وقت ہمت کرسکا نہ اس کے بعد آج تک کسی کی یہ جرأت ہوئی کہ قرآن کے مقابلہ میں کسی انسانی تصنیف کو لے آئے۔ بعض لوگ اس چیلنج کی حقیقی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ایک قرآن ہی کیا، کسی شخص کے اسٹائل میں بھی دوسرا کوئی شخص نثر یا نظم لکھنے پر قادر نہیں ہوتا۔ ہومر، رومی، شکسپیئر، گوئٹے، غالب، ٹیگور، اقبال، سب ہی اس لحاظ سے بےمثل ہیں کہ ان کی نقل اتار کر انہی جیسا کلام بنا لانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ قرآن کے چیلنج کا یہ جواب دینے والے دراصل اس غلط فہمی میں ہیں کہ فَلْیَأَتوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہ کا مطلب قرآن کے اسٹائل میں اس جیسی کوئی کتاب لکھ دینا ہے۔ حالانکہ اس سے مراد سٹائل میں مماثلت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس پائے اور اس شان اور اس مرتبے کی کوئی کتاب لے آؤ جو صرف عربی ہی میں نہیں، دنیا کی کسی زبان میں ان خصوصیات کے لحاظ سے قرآن پہلے بھی معجزہ تھا اور آج بھی معجزہ ہے۔ (
1
)۔ جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہوا نہیں ہے۔ جس مضمون کو بھی ادا کیا گیا ہے موزوں ترین الفاظ اور مناسب ترین انداز بیان میں ادا کیا گیا ہے۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا ہے اور ہر مرتبہ پیرایہ بیان نیا ہے جس سے تکرار کی بد نمائی کہیں پیدا نہیں ہوتی۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گئے ہوں۔ کلام اتنا مؤثر ہے کہ کوئی زبان داں آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتا، حتیٰ کہ منکر اور مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے۔
14
سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدر و قیمت میں نہیں پہنچتی۔ یہی نہیں، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ
14
صدیاں گزر جانے پر بھی اس زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کردیا تھا، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہوجاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املاء، انشاء، محاورے، قواعد زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو۔ لیکن یہ قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے۔ اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو
14
سو برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اس شان کی ہے ؟ (
2
)۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے کہ دنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل اور ایک مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے،
14
سو برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے، اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ (
3
)۔ جس موضوع سے یہ کتاب بحث کرتی ہے وہ ایک وسیع ترین موضوع ہے جس کا دائرہ ازل سے ابد تک پوری کائنات پر حاوی ہے۔ وہ کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم و آئین پر کلام کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق اور ناظم و مدبر کون ہے، کیا اس کی صفات ہیں، کیا اس کے اختیارات ہیں، اور وہ حقیقت نفس الامری کیا ہے جس پر اس نے یہ پورا نظام عالم قائم کیا ہے۔ وہ اس جہان میں انسان کی حیثیت اور اس کا مقام ٹھیک ٹھیک مشخّص کر کے بتاتی ہے کہ یہ اس کا فطری مقام اور یہ اس کی پیدائشی حیثیت ہے جسے بدل دینے پر وہ قادر نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس مقام اور اس حیثیت کے لحاظ سے انسان کے لیے فکر و عمل کا صحیح راستہ کیا ہے جو حقیقت سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور غلط راستے کیا ہیں جو حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں۔ صحیح راستے کے صحیح ہونے اور غلط راستوں کے غلط ہونے پر وہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز سے، نظام کائنات کے ایک ایک گوشے سے، انسان کے اپنے نفس اور اس کے وجود سے اور انسان کی اپنی تاریخ سے بیشمار دلائل پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان غلط راستوں پر کیسے اور کن اسباب سے پڑتا رہا ہے، اور صحیح راستہ جو ہمیشہ سے ایک ہی تھا اور ایک ہی رہے گا، کس ذریعہ سے اس کو معلوم ہوسکتا ہے اور کس طرح ہر زمانے میں اس کو بتایا جاتا رہا ہے۔ وہ صحیح راستے کی صرف نشان دہی کر کے نہیں رہ جاتی بلکہ اس راستے پر چلنے کے لیے ایک پورے نظام زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہے جس میں عقائد، اخلاق، تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت قانون، غرض حیات انسانی کے ہر پہلو سے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کردیا گیا ہے۔ مزید براں وہ پوری تفصیل کے ساتھ بتاتی ہے کہ اس صحیح راستے کی پیروی کرنے اور ان غلط راستوں پر چلنے کے کیا نتائج اس دنیا میں ہیں اور کیا نتائج دنیا کا موجودہ نظام ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے عالم میں رونما ہونے والے ہیں۔ وہ اس دنیا کے ختم ہونے اور دوسرا عالم برپا ہونے کی نہایت مفصل کیفیت بیان کرتی ہے، اس تغیر کے تمام مراحل ایک ایک کر کے بتاتی ہے، دوسرے عالم کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے، اور پھر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ وہاں انسان کیسے ایک دوسری زندگی پائے گا، کس طرح اس کی دنیوی زندگی کے اعمال کا محاسبہ ہوگا، کن امور کی اس سے باز پرس ہوگی، کیسی ناقابل انکار صورت میں اس کا پورا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا، کیسی زبردست شہادتیں اس کے ثبوت میں پیش کی جائیں گی، جزا اور سزا پانے والے کیوں جزا اور سزا پائیں گے، جزا پانے والوں کو کیسے انعامات ملیں گے اور سزا پانے والے کس کس شکل میں اپنے اعمال کے نتائج بھگتیں گے۔ اس وسیع مضمون پر جو کلام اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ اس حیثیت سے نہیں ہے کہ اس کا مصنف کچھ صغریٰ کبریٰ جوڑ کر چند قیاسات کی ایک عمارت تعمیر کر رہا ہے، بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ اس کا مصنف حقیقت کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس کی نگاہ ازل سے ابد تک سب کچھ دیکھ رہی ہے، تمام حقائق اس پر عیاں ہیں، کائنات پوری کی پوری اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، نوع انسانی کے آغاز سے اس کے خاتمہ تک ہی نہیں بلکہ خاتمہ کے بعد اس کی دوسری زندگی تک بھی وہ اس کو بیک نظر دیکھ رہا ہے، اور قیاس و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر انسان کی رہنمائی کر رہا ہے۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔ جو تصور کائنات و انسان وہ پیش کرتا ہے وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیہ کرتا ہے اور ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور ان سب کے درمیان ایسا منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے۔ پھر عملی حیثیت سے جو رہنمائی اس نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق انسان کو دی ہے وہ صرف انتہائی معقول اور انتہائی پاکیزہ ہی نہیں ہے بلکہ
14
سو سال سے روئے زمین کے مختلف گوشوں میں بیشمار انسان بالفعل اس کی پیروی کر رہے ہیں اور تجربے سے اس کو بہترین ثابت کیا ہے۔ کیا اس شان کی کوئی انسانی تصنیف دنیا میں موجود ہے یا کبھی موجود رہی ہے جسے اس کتاب کے مقابلے میں لایا جاسکتا ہو ؟ (
4
)۔ یہ کتاب پوری کی پوری بیک وقت لکھ کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کردی گئی تھی بلکہ چند ابتدا ابتدائی ہدایات کے ساتھ ایک تحریک اصلاح کا آغاز کیا گیا تھا اور اس کے بعد
23
سال تک وہ تحریک جن جن مرحلوں سے گزرتی رہی ان کے حالات اور ان کی ضروریات کے مطابق اس کے اجزاء اس تحریک کے رہنما کی زبان سے کبھی طویل خطبوں اور کبھی مختصر جملوں کی شکل میں ادا ہوتے رہے۔ پھر اس مشن کی تکمیل پر مختلف اوقات میں صادر ہونے والے یہ اجزاء اس مکمل کتاب کی صورت میں مرتب ہو کر دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے جسے " قرآن " کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ تحریک کے رہنما کا بیان ہے کہ یہ خطبے اور جملے اس کے طبعزاد نہیں ہیں بلکہ خداوند عالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص انہیں خود اس رہنما کے طبعزاد قرار دیتا ہے تو وہ دنیا کی پوری تاریخ سے کوئی نظیر ایسی پیش کرے کہ کسی انسان نے سالہا سال تک مسلسل ایک زبردست اجتماعی تحریک کی بطور خود رہنمائی کرتے ہوئے کبھی ایک واعظ اور معلم اخلاق کی حیثیت سے، کبھی ایک مظلوم جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے، کبھی ایک مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے، کبھی ایک برسر جنگ فوج کے قائد کی حیثیت سے، کبھی ایک فاتح کی حیثیت سے، کبھی ایک شارع اور مقنن کی حیثیت سے، غراض بکثرت مختلف حالات اور اوقات میں بہت سی مختلف حیثیت سے حیثیتوں سے جو مختلف تقریریں کی ہوں یا باتیں کہی ہوں وہ جمع ہو کر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر و عمل بنادیں، ان میں کہیں کوئی تناقص اور تضاد نہ پایا جائے، ان میں ابتدا سے انتہا تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ہی مرکزی تخیل اور سلسلہ فکر کار فرما نظر آئے، اس نے اول روز سے اپنی دعوت کی جو بنیاد بیان کی ہو آخری دن تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ایسا ہمہ گیر نظام بناتا چلا جائے جس کا ہر جز دوسرے اجزاء سے کامل مطابقت رکھتا ہے، اور اس مجموعہ کو پڑھنے والا کوئی صاحب بصیرت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے کہ تحریک کا آغاز کرتے وقت اس کے متحرک کے سامنے آخری مرحلے تک کو پورا نقشہ موجود تھا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بیچ کے کسی مقام پر اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آیا ہو جو پہلے اس پر منکشف نہ تھا یا جسے بعد میں اس کو بدلنا پڑا۔ اس شان کا کوئی انسان اگر کبھی گزرا ہو جس نے اپنے ذہن کی خلاقی کا یہ کمال دکھایا ہو تو اس کی نشان دہی کی جائے۔ (
5
)۔ جس رہنما کی زبان پر یہ خطبے اور جملے جاری ہوئے تھے وہ یکایک کسی گوشے سے نکل کر صرف ان کو سنانے کے لیے نہیں آجاتا تھا اور انہیں سنانے کے بعد کہیں چلا نہیں جاتا تھا۔ وہ اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی انسانی معاشرے میں زندگی بسر کرچکا تھا اور اس کے بعد بھی وہ زندگی کی آخری ساعت تک ہر وقت اسی معاشرے میں رہتا تھا۔ اس کی گفتگو اور تقریروں کی زبان اور طرز بیان سے لوگ بخوبی آشنا تھے۔ احادیث میں ان کا ایک بڑا حصہ اب بھی محفوظ ہے جسے بعد کے عربی داں لوگ پڑھ کر خود بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ اس رہنما کا اپنا طرز کلام کیا تھا۔ اس کے ہم زبان لوگ اس وقت بھی صاف محسوس کرتے تھے اور آج بھی عربی زبان کے جاننے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کتاب کی زبان اور اس کا اسٹائل اس رہنما کی زبان اور اس کے اسٹائل سے بہت مختلف ہے، حتّیٰ کہ جہاں اس کے کسی خطبے کے بیچ میں اس کتاب کی کوئی عبارت آجاتی ہے وہاں دونوں کی زبان کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہوسکتا ہے کہ سالہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جائے اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل دراصل ایک ہی شخص کے ہیں ؟ عارضی اور وقتی طور پر اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہوجانا تو ممکن ہے۔ لیکن مسلسل
23
سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص جب خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر کلام کرے تو اس کی زبان اور اسٹائل کچھ ہو، اور جب خود اپنی طرف سے گفتگو یا تقریر کرے تو اس کی زبان اور اس کا اسٹائل بالکل ہی کچھ اور ہو۔ (
6
)۔ وہ رہنما اس تحریک کی قیادت کے دوران میں مختلف حالات سے دو چار ہوتا رہا۔ کبھی برسوں وہ اپنے ہم وطنوں اور اپنے قبیلے والوں کی تضحیک، توہین اور سخت ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا یہ کبھی اس کے ساتھیوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ کبھی دشمنوں نے اس کے قتل کی سازشیں کیں۔ کبھی خود اسے اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی۔ کبھی اس کو انتہائی حسرت اور فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑی۔ کبھی اسے پیہم لڑائیوں سے سابقہ پیش آیا جن میں شکست اور فتح، دونوں ہی ہوتی رہیں۔ کبھی وہ دشمنوں پر غالب آیا اور وہی دشمن جنہوں نے اس پر ظلم توڑے تھے، اس کے سامنے سرنگوں نظر آئے۔ کبھی اسے وہ اقتدار نصیب ہوا جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ ان تمام حالات میں انسان کے جذبات ظاہر ہے کہ یکساں نہیں رہ سکتے۔ اس رہنما نے ان مختلف مواقع پر خود اپنی ذاتی حیثیت میں جب کبھی کلام کیا، اس میں ان جذبات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے جو ایسے مواقع پر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر ان مختلف حالات میں جو کلام اس کی زبان سے سنا گیا وہ انسانی جذبات سے بالکل خالی ہے۔ کسی ایک مقام پر بھی کوئی بڑے سے بڑا نقاد انگلی رکھ کر یہ نہیں بتاسکتا کہ یہاں انسانی جذبات کار فرما نظر آتے ہیں۔ (
7
)۔ جو وسیع اور جامع علم اس کتاب میں پایا جاتا ہے وہ اس زمانے کے اہل عرب اور اہل روم و یونان و ایران تو درکنار اس بیسویں صدی کے اکابر اہل علم میں سے بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کی کسی ایک شاخ کے مطالعہ میں اپنی عمر کھپا دینے کے بعد آدمی کو پتا چلتا ہے کہ اس شعبہ علم کے آخری مسائل کیا ہیں، اور پھر جب وہ غائر نگاہ سے قرآن کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ان مسائل کا ایک واضح جواب موجود ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک علم تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام علوم کے باب میں صحیح ہے جو کائنات اور انسان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ
14
سو برس پہلے ریگستان عرب میں ایک امی کو علم کے ہر گوشے پر اتنی وسیع نظر حاصل تھی اور اس نے ہر بنیادی مسئلے پو غور و خوض کر کے اس کا ایک صاف اور قطعی جواب سوچ لیا تھا ؟ اعجاز قرآن کے اگرچہ اور بھی متعدد وجوہ ہیں، لیکن صرف ان چند وجوہ ہی پر اگر آدمی غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کا معجزہ ہونا جتنا نزول قرآن کے زمانے میں واضح تھا اس سے بدرجہا زیادہ آج واضح ہے اور انشاء اللہ قیامت تک یہ واضح تر ہوتا چلا جائے گا۔
Top